7 اکتوبر کے حماس حملے کے بعد اسرائیل کی وحشیانہ بمباری انسانیت سوز مظالم فرعونیت کی انتہا معصوم بچوں اور خواتین کے علاوہ مریضوں کو زخمیوں کو شہید کرنے کے بعد عارضی جنگ بندی کا اعلان ہوا ،جس میں قطر کے علاوہ چین نے بھی اہم کردار ادا کیا، پہلے 4 دن کی جنگ بندی قیدیوں کے تبادلے کی شرائط پر ہوئی لیکن اسرائیل کے وزیر اعظم کی سوئی اب بھی اسی بات پر اٹکی ہوئی ہے کہ حماس کو ختم کر کے دم لیں گے، یہ رویہ پاسداری جنگ کا نہیں لگتا بلکہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مزید فساد کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اسرائیل نے تو حماس کو ایک چیونٹی سمجھ کر حملے کئے لیکن یہ چیونٹی ہاتھ کے ناک میں گھس گئی ،اس سے پہلے کہ ہاتھی کی موت چیونٹی کے ہاتھوں ہوتی،ہاتھی کے ہمدرد تڑپ گے اور جنگ بندی کیطرف آمادہ ہوئے لیکن اسرائیل کے ہاتھی کے پاوں چونکہ سب کا پاوں تھا جس کی وجہ سے اسرائیل کے وزیراعظم نے حماس کو دھمکی بھی دے دی ہے ۔ کچھ قیدیوں کے تبادلے بھی ہوئے ہیں ایک معمر اسرائیلی خاتون نے حماس کے رویے کو دوران قید مستحسن قرار دیا ہے ۔اب غزہ جنگ بندی میں مزید دو روز کی توسیع ہو گئی۔ اس بات کی تصدیق قطری وزارت خارجہ نے بھی کی ہے۔ حماس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جنگ بندی میں دو روزہ توسیع پر ہم نے اتفاق کر لیا ہے۔ جنگ بندی کے دوران مزید قیدیوں کی رہائی کیلئے فہرست کی تیاری کی جائیں گی۔اور یہ شرائط پہلے معاہدے جیسی ہوں گی، ادھر وائٹ ہاؤس نے بھی جنگ بندی کی توسیع کی تصدیق کی۔ تفصیل کے مطابق پہلی 4 روزہ جنگ بندی کے بعد 125 افراد کو رہا کیا چکا ہے۔ اس حوالے سے نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹنبرگ نے بھی کہا تھا کہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے وقفے میں توسیع ہونی چاہئے۔ اسرائیل نے کہا حماس کے قبضے میں ابھی ہمارے 184 قیدی موجود ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اس بارے میں امریکی صدر جوبائیڈن سے فون پر رابطہ کیا اور یرغمالیوں کی رہائی پر بات کی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ امریکی صدر نے دعویٰ کیا حماس غزہ پر اپنا مکمل کنٹرول کھو چکی ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فورسز کی چھاپہ مار کارروائیاں جاری ہیں۔ میڈیا کے مطابق اسرائیلی فورسز نے گزشتہ رات 60 سے زیادہ فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا۔ مغربی کنارے میں 7 اکتوبر سے اب تک 3 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا تھا،14 ہزار سے زائد فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام کے بعد سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتیرس نے بھی غزہ میں مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا۔ انتونیو گوتیریس نے کہنا ہے کہ غزہ میں انسانی تباہی کی صورتحال دن بدن بگڑتی جا رہی ہے۔ غزہ میں مکمل اور مستقل جنگ بندی کیلئے بات چیت جاری رہنی چاہئے۔ انہوں نے کہا ہے کہ غزہ کے لوگوں‘ اسرائیل اور خطے کے مفاد میں مستقل جنگ بندی ہونی چاہئے۔ جبکہ ایران نے بھی اسرائیل اور حماس کی مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق غزہ میں صیہونی حکومت کے انسانیت سوز دل دہلا دینے والے مظالم کا اب مکمل خاتمہ ہونا چاہئے۔ ایران کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے میں توسیع ہو۔ غزہ میں عارضی جنگ بندی کے چوتھے روز 11 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا۔ اسرائیل کے میڈیا کے مطابق اسرائیلی یرغمالیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا ہے۔ غزہ پٹی میں موسلادھار بارش کے باعث سردی میں اضافہ ہو گیا۔ غزہ کے شہری اسرائیلی بمباری سے جزوی طور پر تباہ عمارتوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ غزہ پٹی میں اسرائیلی بمباری سے پڑنے والے گڑھے تالابوں میں تبدیل ہو گئے۔ غزہ میں جنگ بندی کا عمل تاخیر سے ہی سہی لیکن امن کے قیام کے لیے نہایت اہم ہے ہم اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں لیکن یہاں پر یہ مطالبہ بھی دنیا کے سامنے رکھتے ہیں کہ 14 ہزار مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلنے والے اسرائیل کے خلاف کارروائی کریں اور تباہ شدہ غزہ جس کو صیہونی فوج نے کھنڈر بنا دیا ہے۔ اس کے بحالی کے بھی عالمی سطح پر امداد ملنی چاہئے تاکہ آنے والے موسم کی شدت کی وجہ سے فلسطین کے مسلمانوں کو مزید جانی نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے مطالبے کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیل اور حماس کے درمیان مکمل جنگ بندی نہ صرف اسرائیل بلکہ فلسطین اور خطے کے ممالک کے مفاد میں ہے ۔ امریکہ کے صدر جوبائیڈن کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اب جنگ سے انسانی جانوں کا ضیاع تو ہو سکتا ھے لیکن کمزور کو بھی طاقت سے دبایا نہیں جاسکتا، جس کا عملی مظاہرہ پوری دنیا نے کہ حماس نے اسرائیل کی طاقت کے آگے نہ جھکنے کا فیصلہ کر کے اس کا غرور توڑ دیا اس کے تکبر کو خاک میں ملا دیا اور یہ حق اور سچ کی فتح ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنگ بندی میں مستقل توسیع کی کوشش کی جائے کیونکہ جب تک مستقل طور پر جنگ بندی نہیں ہوتی تب اس خطے میں امن قائم ہونا ناممکن ہے ۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ مستقل طور پر جنگ بندی کی کو ششیں کرے ۔ ٭٭٭٭٭