کسی سیاسی پارٹی کا جنم دن اُس کے کارکنوں کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے، خاص طور پراگراُس پارٹی کے ساتھ آپ کی دلی وابستگی ہو۔ جیسے پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ ہماری دلی وابستگی رہی۔ ہم اس پارٹی کے ساتھ جوان ہوئے، عروج دیکھا اور اب ’’بڑھاپے‘‘ کی جانب گامزن ہے۔ آج 30نومبر کو PPPکی 56ویں سالگرہ یعنی یوم تاسیس منایا جارہا ہے۔ویسے تو ہم 56سے اوپر کے ہو گئے ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اس عمر کو نہ پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو پہنچ سکے نہ ان کی بیٹی بینظیر بھٹوپہنچ سکیں، نہ مرتضیٰ بھٹو اور نہ ہی شاہنواز بھٹو۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کا ’’لہو‘‘ شامل نہ ہوتا تو شاید وقت سے بہت پہلے ہی پارٹی ختم ہوجاتی۔خیر اگر ہم یہ بات کریں کہ اس پارٹی کو کیسے عروج سے زوال آیا اور کیوں کر آیا اور چاروں صوبوں کی’’زنجیر‘‘ پیپلزپارٹی کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک صوبے تک محدود کیوں کر دیا گیا تو بہت سی چیزیں عیاں ہو جاتی ہیں کہ پارٹیاں کیسے ڈوبتی ہیں اور اُنہیں کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ قارئین! پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام1967میں عمل میں آیا۔ 1966ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو سیاسی اختلافات کی بنا پر صدر ایوب خان کی کابینہ سے مستعفی ہوئے تبھی سے وہ ایک سیاسی جماعت کے قیام کے لیے کوشاں تھے۔ اسی زمانے میں لاہور میں کچھ دانشور، جن میں اخبار نویس، اساتذہ، وکلا، ادیب اور سرکاری ملازم شامل تھے، ایک ہفتہ وار ادبی اجلاس میں ملک کے مسائل پر بحث کرکے ان مسائل کے ممکنہ حل کے بارے میں گفتگو کیا کرتے تھے۔ یہ اجلاس ڈاکٹر مبشر حسن کی اقامت۔4 کے گلبرگ میں منعقد ہوا کرتے تھے۔ ان افراد نے مسٹر بھٹو سے رابطہ قائم کیا اور مسٹر بھٹو اور جے اے رحیم کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ 30 نومبر اور یکم دسمبر 1967ء کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی اقامت گاہ پر اس نئی پارٹی کا تاسیسی اجلاس منعقد ہوا جس میں پارٹی کا نام پاکستان پیپلز پارٹی تجویز کیا گیا اور پارٹی کے چار رہنما اصول منظور کیے گئے: (الف)اسلام ہمارا دین ہے۔ (ب)جمہوریت ہماری سیاست ہے۔(ج)سوشلزم ہماری معیشت ہے۔(د)طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے تاسیسی اجلاس میں جو افراد شریک ہوئے ان میں رسول بخش تالپور‘ حنیف رامے‘ شیخ محمد رشید‘ حیات محمد خان شیرپائو‘ عبدالوحید کٹپر‘ معراج محمد خان‘ حق نواز گنڈا پور‘ ڈاکٹر مبشر حسن‘ جے اے رحیم‘ بیگم شاہین رامے‘ ملک حامد سرفراز‘ اسلم گورداسپوری‘ رفیق احمد باجوہ اور امان اللہ خان وغیرہ شامل تھے۔اس اجلاس میں ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کا چیئرمین اور جے اے رحیم کو جنرل سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو بہت جلد ملک کے غریب طبقے کی حمایت حاصل ہونا شروع ہوئی۔ پارٹی کی اصل قوت مغربی پاکستان کا نوجوان طبقہ تھا جو ملک میں سوشلزم اور مساوات پر مبنی معاشرے کے قیام کا خواہش مند تھا۔ یوں یہ پارٹی مغربی پاکستان کی مقبول ترین پارٹی بن گئی اور 1970ء کے انتخابات میں اس نے اپنی یہ مقبولیت ثابت بھی کردی۔ لیکن 1977 میں جنرل ضیاء الحق نے ماضی سے سبق حاصل کئے بغیر دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیااور بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی۔ پھر چیئرمین پیپلزپارٹی بھٹو کی پھانسی کے بعد جنرل ضیاء الحق نے دس سالہ دور آمریت میں پیپلز پارٹی اور اس کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ ہر اُس شخص پر عرصہ حیات تنگ کردیا جس نے کسی بھی شکل میں یا تو آمریت کی مزاحمت کی، یا کسی بھی سطح پر پیپلز پارٹی اور بھٹو شہید کا مقدمہ لڑنے کی کوشش کی۔راقم بھی انہی جیالوں میں سے ایک تھا جنہیں لاہور کے شاہی قلعہ میں قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں، اُس وقت آتش جواں تھا اس لیے ہم بھی صف اول کے جیالوں میں شامل رہتے تھے، سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور آمریت کے خلاف خوب زہر اُگلتے تھے۔ الغرض یہ وہ سیاہ ترین دور تھا کہ بھٹو صاحب کو جسمانی طور پر ختم کرنے سمیت پیپلز پارٹی کا جسمانی و نظریاتی وجود ختم کرنے کی پوری کوششیں کی گئیں لیکن 1988 کے انتخابات کے نتائج نے واضح کردیا کہ نہ تو لوگوں کے دلوں سے بھٹو کو نکالا جاسکا اور نہ پیپلزپارٹی کی عوامی مقبولیت ختم کی جاسکی۔ آخری بار 2008 میں حکومت بنائی۔اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے کئی ایک اچھے کام بھی کیے جن میں ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک متفقہ آئین بنایا اور نافذ کیا، پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کیا۔پاکستان اسٹیل مل اور ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا شروع کیں۔لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی۔ پھر 1971ء کی جنگ کے بعد بھارت کی قید سے 90 ہزار فوجیوں کو رہا کروایا۔ غریب کسانوں میں زمینیں تقسیم کیں۔ بے نظیر بھٹو نے خواتین کے پولیس اسٹیشنز قائم کرنے، کاروبار کے لئے قرض فراہم کرنے، خواتین کے حقوق کو انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کرانے اور اعلیٰ عدلیہ میں خواتین ججز کا تقرر ممکن بنانے سمیت عورتوں کو ہر میدان میں آگے لانے کے لئے قابل ستائش اقدامات کیے۔ آہستہ آہستہ اس سیاسی پارٹی کا گراف بھی نیچے جاتا گیااور ایک وقت آیا کہ پاکستان پیپلزپارٹی بھٹو کی سیاسی پارٹی نہیں رہی۔ اس پارٹی کی سوچ اور نظریے میں بڑا بدلائو اُس وقت آیا جب محترمہ کی موجودگی اور اُن کی قیادت میں پیپلزپارٹی نے ن لیگ کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کیے اور اقتدار کے لیے تمام اختلافات بھلانے پر اتفاق کیا۔ رہی سہی کسر محترمہ کی شہادت کے بعد زرداری صاحب کے فیصلوں نے نکال دی جیسے 2008ء کا الیکشن جیتنے کے بعد پیپلزپارٹی نے ن لیگ کے ساتھ اشتراک کر لیا، تو اسی دن پنجاب سے پیپلزپارٹی کا صفایا ہو گیا۔ پھر اگر محترمہ کی شہادت کے بعد بلاول زرداری یا آصف زرداری کے بجائے کوئی سینئر ممبر اس کا صدر یا چیئرمین بن جاتا تو پیپلزپارٹی بچ سکتی تھی۔کیوں کہ یہ کسی مذاق سے کم نہیں تھا کہ رضا ربانی، اعتزاز احسن، قمر الزمان کائرہ، فاروق ایچ نائیک، جہانگیر بدر جیسے سینئر سیاستدانوں کے ہوتے ہوئے خاندانی سیاست کو آگے بڑھایا جاتا۔ یعنی جس گاڑی کا ڈرائیور ہی اچھا نہیں ہوگا وہ گاڑی کیا سفر کرے گی؟ انگریزی کہاوت ہے کہ جب ریاست کا یا سیاسی جماعت کا بیڑہ غرق کرنا ہوتو اُسے کسی ایک خاندان کے حوالے کر دو ۔ انڈیا میں بھی کانگریس کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب 1962ء میں پنڈت نہرو کا انتقال ہواتو پرائم منسٹر لال بہادرشاستری کو وزیر اعظم بنایا گیا اور اندرا گاندھی کو وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔کانگریس مزید پھلی پھولی، سب نے دیکھا کہ پارٹی کے اندر جمہوریت پروان چڑھتی رہی مگر جب اندرا گاندھی کے بعد راجیو گاندھی، راجیو گاندھی کے بعد پارٹی قیادت پرسونیا گاندھی، سونیا گاندھی کے بعد اُن کا بیٹا راہل گاندھی آیا تو یہ پارٹی بھی ایک جمہوری پارٹی سے ’’خاندانی پارٹی‘‘ بن گئی۔لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ پارٹی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں، اگر پارٹی بلاول کو آگے لانا چاہتی ہے تو اُنہیں اختیارات بھی دینے چاہئیں ورنہ میرے خیال سے سندھ بھی اس پارٹی کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔