ہماری زندگی میں یاد رکھنے کو یا 7اکتوبر(پہلا مارشل لائ)، 5جولائی (دوسرا مارشل لائ)، 12اکتوبر (تیسرا مارشل لاء )،3نومبر کی ایمرجنسی یا 9مئی جیسی تواریخ رہ گئی ہیں ۔ جیسے کل 5جولائی ہے۔ ہم کہیں گے کہ بھٹو کے ساتھ زیادتی ہوئی، اور پھر اگلے ہی دن سب کچھ بھول چکے ہوں گے اور ایک نئے مارشل لاء کا جواز پیدا کر رہے ہوں گے۔ یعنی ہمارا کبھی اس طرف ذہن نہیں گیا کہ سیاسی جماعتیں آپس میں اختلافات کو ختم کرکے ملکی بقا کے بارے میں سوچیں۔جب بھی مارشل لا آیاہماری آدھی سے زائد جماعتوں نے اُس وقت مارشل لاء کو عین درست قرار دے کر مقتدرہ کی منظور نظر بننے کو ترجیح دی۔ نہیں یقین تو آپ خود دیکھ لیںکہ 1977ء کے مارشل لاء میں تمام اتحادی جماعتوں نے پیپلزپارٹی کو خیر آباد کہہ دیا تھا، حتیٰ کہ بھٹو صاحب کو ان کے قریبی ساتھیوں کوثر نیازی، پیر زادہ، غلام مصطفی کھر، حنیف رامے وغیرہ بھی چھوڑ کے چلے گئے۔ مشرف کے مارشل لاء میں کئی جماعتوں نے اُنہیں سپورٹ کیا اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔ ویسے اس پر افسوس تو نہیں بننا چاہیے کیوں کہ یہ ہماری اور ہمارے سیاستدانوں کی عادت رہی ہے کہ وہ مزاحمت کے بجائے ہمیشہ بھاری پلڑے کی طرف جھکائو رکھتے ہیں ۔ یہ عادت پورے برصغیر میں پنہاں ہے۔ یا اسے یوں کہہ لیں کہ یہ ہمارے جینز میں بھی ہے کہ جس طرف طاقت ہوگی، ہمارا جھکائو بھی اُسی طرف ہوگا۔مثال کے طور پر اشوک کے زمانے میں سبھی نے بدھ مت مذہب اختیار کر لیا۔ اور پھر بدھ مت کا زور ٹوٹنے کے بعد ہندوستان کے لوگ دوبارہ ہندو ہوگئے۔ اور اگر آج کی مثال لینا چاہیں تحریک انصاف ہی کو دیکھ لیں، 9مئی سے پہلے حالات کچھ اور تھے، لیکن جیسے ہی تحریک انصاف کمزور ہوئی لوگ اسے چھوڑ کر بھاگنا شروع ہوگئے۔ خیر آج ہم بات 5جولائی 1977ء کے مارشل لاء کی کر رہے ہیں کہ اس کے محرکات کیا تھے ؟آگے چلنے سے پہلے بتاتا چلوں کہ ڈکٹیٹر شپ کے سب سے بڑے نقصان کی اگر کوئی مثال دینا چاہیں تو ضیا دور سے پہلے اور بعد کے حالات کا جائزہ لے لیں، آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ فرد واحد نے ملک کو کتنا نقصان پہنچایا۔ مثلاََ 1977سے پہلے یہاں بالکل اسی طرح غیر ملکیوں کی چہل پہل تھی جیسے آج کل یورپ، امریکا، برطانیہ ، دبئی یا ترکی میں دیکھی جا سکتی ہے، یہاں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی سیاح آتے تھے، لوگ ان کے ساتھ گھل مل جاتے تھے کوئی ان کے لباس یا حلیے پر تنقید نہیں کرتا تھا۔ نہ ہی ان کے کھانے پینے یا عقیدے کے بارے میں کسی کو پروا تھی۔یعنی فضا پرامن تھی پھر کیا ہوا؟ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء آیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہاں مذہب کے نام پر خون بہایا جانے لگا، بم دھماکے ہونے لگے، ہیروئن عام ہوگئی، کلاشنکوف کلچر نے جنم لیا، اغواء برائے تاوان ہونے لگے، غیر سیاسی شخصیات نے سیاست کو گھر کی باندی بنا لیا، سیاست میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جانے لگا، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے عسکری ونگز قائم ہونے لگے۔ اب اگر ذرا اس حوالے سے بات کریں کہ 5جولائی 1977ء کو ایسا کیا ہوا کہ جنرل ضیاء الحق کو مارشل لاء بھی لگانا پڑا اور اُس کے چند ماہ بعد معزول وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر بھی لٹکانا پڑاتو یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ اس ملک کو عالمی طاقتوں اور اندرونی سازشوں کے ذریعے ڈبویا گیا۔ درحقیقت ذوالفقار علی بھٹو بھی نڈر، بے باک اور کچھ کر گزرنے والے سیاستدان ضرور تھے مگر اقتدار کا طول اور شخصی آمریت اُنہیں بھی لے ڈوبی تھی۔ یہ اُنہی دنوں کی بات ہے جب ہم زمانہ طالب علمی سے گزر رہے تھے ، بھٹو کا دور اقتدار تھا، سیاسی جماعتیں اُس وقت بھی ایک دوسرے پر سخت قسم کی تنقید کر رہی تھیں، ہم بھی پیپلزپارٹی کے ادنیٰ سے جیالے ہونے کی وجہ سے ہر جلسے جلوس میں موجود ہوتے، کبھی بسوں کی چھتوں پر سوار ہوکر تو کبھی میلوں پیدل چل کر بھٹو کی تقریر سننے جایا کرتے تھے۔پھر ان جلسے جلوسوں کی ایسی لت پڑی کہ ہم نے بھی پیپلزپارٹی کا’’ جیالا‘‘(کارکن) بن کر ہی دم لیا۔ لیکن اُس کا اُلٹا نقصان اس وقت ہواکہ ہمیں ’’سر منڈاتے ہی اولے پڑنا شروع ہوگئے‘‘ مطلب ضیاء الحق نے مارشل لگایا اور ہمیں بھی پکڑ کر ’’اندر‘‘ کر دیا گیا، ہم بھی ایک عرصہ تک ’’قلعہ بند‘‘ رہ کر آمریت کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ جس سے ہماری سیاست شروع ہونے سے پہلے ہی مارشل لاء کی نذر ہوگئی! بہرکیف پھر سب نے دیکھا کہ جنرل ضیاء کا مارشل لاء لگا، کامیاب ہوا اور پھر ملک میں جو کچھ ہوا، اُس کا ذکر میں پہلے ہی کر چکا ہوں۔ موجودہ حالات میں الیکشن کے حوالے سے بولڈ اقدامات اُٹھانے کی ضرورت تھی، لیکن کسی نے نہ تو کسی پرعدالت کا حکم نہ ماننے پر توہین عدالت لگائی اور نہ ہی کوئی ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا۔اور نہ ہی کہیں کسی بل کو کالعدم قرار دیا۔ جس سے باد ی النظر میں موجودہ حکمرانوں کو الیکشن نہ کروانے کی راہ ہموار ہوئی۔میرے خیال میں اگر صوبائی الیکشن کا بروقت انعقاد ہو جاتا تو کبھی پرتشدد واقعات جنم نہ لیتے۔ اور نہ ہی تحریک انصاف کو ختم کرنے کا جواز پیدا ہوتا۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ سیاستدانوں کو ان ’’تواریخ‘‘ کے آگے بند باندھنا ہوں گے ، انہیں ایک نئے آپسی معاہدے کی ضرورت ہے کہ کبھی مارشل لاء یا اُس جیسے حالات کو جواز نہیں بنیں گے اور سب سے بڑھ کر ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا نہ تو سبب بنیں گے اور نہ ہی کوئی بیرونی طاقت انہیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرسکے گی۔ اور خدانخواستہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر حالات میں تبدیلی کے امکانات بھی مفقود رہیں گے، اللہ اس ملک کی حفاظت فرمائے (آمین)