ہر سال اکتیس مارچ کو رزلٹ آتا تو امید جاگ جاتی اس دفعہ ابا جی نئی کلاس کے لیے نئی کتب لے کر دیں گے۔نئے سال اور نئی جماعت میں جانے کی خوشی بھی انوکھی تھی تاہم ہمیں زیادہ خوشی نئی کتابوں خریدنے میں ہوتی تھی۔ ابا جی کسی ایک بڑے بھائی کو کہہ دیتے کہ شہر جا کر ہمارے لیے نئی کتابیں خریدنے کے لیے ساتھ جائے۔ہمارے لیے وہ دن عید کے دن سا ہوتا۔نئے کپڑے پہن کر صبح سویرے تیار ہو جاتے۔ہمیں لگتا بڑے بھائی کیسے آرام سے اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہیں۔کب ہم سائیکل پر بیٹھیں گے اور ہنستے کھیلتے کتابیں لینے جائیں گے۔گھر میں ایک عدد سائیکل تھا جس کے ڈنڈے پر ایک چھوٹی سی مختلف رنگوں کے جھالروں والی گدی ہوتی۔ہم جھٹ سے اس پر بیٹھتے۔ جب اس پر سوار ہوتے تو ساری دنیا ہیچ سی لگتی۔شہر جاتے تو مشہور کتابوں کی دوکان کشمیر جنرل سٹور پر بچے بچیوں کا نئی کتابیں، کاپیاں، پین، پنسل اور تختیاں لینے کے لیے وہ رش اور شور ہوتا کہ کسی کی کان پڑتی آواز سمجھ نہ آتی۔ دوکان کے شو کیس میں پین، پنسل، ربڑ اور جیومیٹری باکس جیسے جھلمل جھلمل کر رہے ہوتے۔شو کیس کی دوسری جانب دوکان کے مالک محمد صدیق بٹ ہوتے اور ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ ہوتا۔ہر بچے کو پیار سے کتابیں دیتے ساتھ کسی کو تحفے میں پنسل ربڑ یا پین محبت سے مفت دے رہے ہوتے۔ہم چار بھائی ہیں۔ صدیق بٹ صاحب ہم سب بھائیوں کے دوست بنے۔ پہلے وہ بڑے بھائی توقیراحمد فائق سابق وفاقی سیکرٹری حکومت پاکستان کے دوست تھے۔ان سے کتابیں لیتے بھائی انہیں کبھی گھر چکر لگانے کا کہتے۔ہم کتابیں سنبھالتے کم اور ان کی چمک دمک میں زیادہ مشغول ہوتے۔شاید وہ ہماری کتاب سے محبت کا آغاز تھا۔اب وہ محبت جنون میں تبدیل ہو چکی ہے۔ہنسی خوشی گھر پہنچتے اور کئی مہینوں تک کتاب پر "آنچ" نہ آنے دیتے۔مگر نئی کتابوں کی خوشی ہر سال نہیں ملتی تھی۔ زیادہ تر کسی سینئر کی استعمال شدہ کتابوں پر گزارہ کرنا پڑتا۔کبھی نیا جوتا خریدنا ہوتا تب بھی بڑے بھائی ساتھ جاتے۔تب ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے سائیکل کسی عزیز مستحق طالب علم کو دے دیا تھا۔ہمارے گاؤں میں چھوٹا سا ریلوے سٹیشن تھا جس کا ریلوے کی گاڑیوں کے اوقات والے ٹائم ٹیبل (کیا زمانہ تھا کہ اس میں پورے ملک میں چلنے والی گاڑیوں کے نام اور اوقات درج ہوتے تھے۔ملک کے کسی بھی سٹیشن پر کون سی گاڑی کس وقت آئے گی اور کس وقت چلے گی۔اب وہ ٹائم ٹیبل کسی کے حافظے میں ہی محفوظ ہو گا۔جیسے پچھلے دس بیس سالوں میں ملک کے ریلوے اسٹیشنز بھوت بنگلے اور ریلوے ٹریک لوگوں کے مویشیوں کے تصرف میں آئے ہیں ویسے ہی چند دنوں تک پاکستان ریلوے کی کہانی اور انجن اور بوگیاں تک بھی کسی عجائب گھر کی زینت ہوں گی ) میں اس سٹیشن کے نام کے آگے Halt ہالٹ لکھا تھا۔گاڑی بس ذرا سی دیر رکتی اور چل پڑتی۔ گاؤں سے بڑے بھائی جن کو ہم "وڈے بھاجی" بڑے بھائی جان کہتے کے ہمراہ پیدل اسٹیشن تک جاتے۔اس راستے کا اب تصور کرتے ہیں تو کوئی واکنگ ٹریک سا لگتا ہے۔نہری پانی کا ایک کھالا گاؤں سے اسٹیشن سے آگے تک جاتا تھا۔نہری پانی اور اس قدر شفاف ہوتا کہ اس میں اترتے تو پانی میں سے پاؤں تک صاف نظر آتے۔ ایک دفعہ ابا جی نے ہمارے لیے نیا جوتا خریدنے کی اجازت دی تو ایک دن ہم بڑے بھائی جان کے ساتھ ناشتہ کرنے کے بعد اسٹیشن پر پہنچ گئے۔ ہمارے اسٹیشن پر نہ کوئی سگنل تھا نہ ریلوے کا ٹیلی فون۔ دھمک سے پتہ چلتا کہ گاڑی ساتھ والے اسٹیشن سے چل پڑی ہے۔یوں تو وہ ریلوے اسٹیشن چھوٹا سا ایک گڑیا گھر تھا مگر گاڑی کیا وقت پر پہنچ جائے گی لیٹ ہو جائے گی یا دوسری سمت سے آنے والی پہلے آ جائے گی اس کا علم کسی کو نہیں ہوتا تھا۔ہوتا بھی کیسے نہ سگنل نہ سگنل مین نہ ریلوے کا ٹیلی فون۔بس دعا کرتے ہی وقت گزرتا۔زیادہ تر گاڑیاں وقت پر ہی پہنچتیں۔گاڑی آئی اور ہم ایک وارفتگی کے عالم میں اس میں سوار ہوئے۔یہ ویسے تو پانچ سات منٹ کا سفر تھا مگر ذرائع آمدورفت نہ ہونے کی وجہ سے اس پانچ سات منٹ کے سفر کے لیے پورا دن درکار ہوتا تھا۔شوز سٹور پر پہنچے۔ہمارے حساب سے دوپہر ہو چکی تھی مگر شہر میں اکا دکا ہی دکانیں کھلیں تھیں۔سیلز مین نے ایک ڈبے سے ایک چم چم کرتا ہوا جوتا نکالا ہم بس اسی پر لٹو ہو گئے۔بھائی جان نے بہت کہا اور بھی جوتے ہیں وہ دیکھ لو۔ ممکن ہے اس سے زیادہ خوبصورت اور آرام دہ ہوں۔مگر ہم نے کوئی اور جوتا چیک ہی نہیں کیا۔یہ خریداری ہو چکی تو ہم بس فارغ تھے۔واپس جانے کے لیے اسٹیشن پر پہنچے۔ابھی گاڑی کے آنے کا وقت بھی نہیں ہوا تھا۔گاڑی آئی جب گھر پہنچے تو ظہر ہو رہی تھی۔دس منٹ کا کام تھا اور آدھا دن اس پر صرف ہو گیا تھا۔ کالج میں داخلے کا وقت آیا تو مضامین کے انتخاب کا مرحلہ بھی انہوں نے ہی آسان کیا۔کالج میں داخلے کے وقت ایک طالب علم سے ہم نے پوچھا کہ آپ کس جماعت میں ہیں؟۔اس استفسار کے بعد بھائی جان نے کہا کہ جماعت نہیں کلاس کہنا ہے آپ کس کلاس میں ہیں؟ جماعت کا مقصد سیاسی جماعت ہے اور وہ نہیں جو اسکول کی جماعت کا تھا۔ کہا جاتا ہے اردو ادب میں بھائیوں کی محبت کا کہیں ذکر نہیں ہے۔جہاں بھی ذکر ہے برادران ِ یوسف کا ہے۔شاید ازل سے ایسے ہی ہوتا چلا آیا ہے کہ بھائی بھائی کا دشمن بن جاتا ہے۔خصوصا ہمارے کلچر میں تو ان کی دشمنیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ان کو عرف عام میں ویر کہا جاتا ہے۔بھائیوں کا ایسا ویر کئی کئی پیڑھیوں تک چلتا ہے۔پناہ بخدا ایک ماں اور ایک باپ کی اولاد ایک دوسرے کی جان کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔ہمارا تجربہ اس اردو ادب والے بھائیوں سے قطعا الگ ہے۔ ہم چار بھائی ہیں اور چاروں ایک دوسرے پر جان وارتے ہیں۔ یہ سب اس حلال رزق کا تحفہ ہے جو ابا جی نے ہمیں کھلایا۔ سب سے بڑے بھائی کو والد کا رتبہ دینا بھی ہماری روایات اور کلچر کا حصہ ہے۔پنجاب بھائیوں پر واری واری جاتا ہے۔ہمارے گھر میں بھی بڑے بھائی کو والد کی جگہ کا احترام دیا جاتا ہے۔ان کی حکم عدولی نہیں کی جاتی۔انہوں نے بھی ابا جی کے انتقال کے بعد ہمیں ان کی کمی کا حتی الوسع احساس نہیں ہونے دیا۔ویسے بھی کہا جاتا ہے بڑے بیٹے میں باپ حلول کر جاتا ہے۔