معزز قارئین!(12 محرم اُلحرام) 22 ستمبر کو ، پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمان ۔ ’’ شہدائے کربلا‘‘ کے سویم میں سوگوار اور اُن کے لئے نذر و نیاز کے اہتمام میں مصروف تھے ۔ دوسرے روز 23 ستمبر کو انگریزی اور اردو اخبارات میں خبر شائع ہُوئی کہ ’’ سابق وزیراعظم میاں محمد ؔنواز شریف کی ہدایت پر ، مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر راجا ظفرؔ اُلحق کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کے ایک وفد نے ،سابق صدرآصف علی ؔزرداری کی صدارت میں سرگرم پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) کے سیکرٹری جنرل سیّد ؔنیئر حسین بخاری کے گھر اسلام آباد جا کر ملاقات کی۔ انگریزی اور اردو اخبارات کا "Intro" ایک ہی تھا ۔ نہ جانے کیوں؟ ۔ انگریزی اخبار کے مطابق "The Pakistan Muslim League-Nawaz (PML-N) Sunday Contacted the Pakistan People’s Party (PPP) to Formulate a Combined Opposition to give a "Tough Time" to the Government of the Pakistan Tehreek-e-Inaaf (PTI) Inside and Outside the Parliament"۔ اردو اخبارات میں بھی یہی مضمون تھا / ہے کہ ’’ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ، پاکستان تحریک انصاف ( پی۔ ٹی۔ آئی) کو ٹف ٹاؔئم ، دینے کے لئے مسلم لیگ (ن) نے اتوار ( 12 محرم اُلحرام کو ) ’’ پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ سے رابطہ قائم کِیا‘‘۔ معزز قارئین!۔ مَیں نے اپنی عادت کے مطابق ۔’’اوکسفورڈ انگلش، اردو ڈکشنری‘‘ دیکھی۔ "Tough Time" دینا کے معنی ہیں ’’کسی مخالف سے سختی ، تند خُوئی اور پُر تشدد روّیے سے پیش آنا ہے‘‘ ۔ تُند خُو اور پُر تشدد شخص کو "Tough Gyu" کہتے ہیں۔ وطن عزیز میں جمہوریت جیسی بھی ہو، مخالف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا حکومت کو ’’ ٹف ٹائم‘‘ دینا اُن کا استحقاق ہوتا ہے ۔ خبروں کے مطابق ’’ راجا ظفر اُلحق کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کے وفد نے سیّد نیئر حسین بخاری سے ملاقات میں آصف زرداری صاحب کو، میاں نواز شریف کا یہ پیغام پہنچایا کہ ’’ کیوں نہ ضمنی انتخابات میں ( پی۔ ٹی۔ آئی) کے امیدواروں کے خلاف مسلم لیگ (ن) اور ’’ پی۔ پی۔ پی‘‘ کے خلاف مشترکہ ؔامیدوار وں کو انتخابی میدان میں اتارا جائے؟ ‘‘۔ سیّد نیئر حسین بخاری نے مسلم لیگ (ن) کے وفد کو بتایا کہ ’’ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ہماری پارٹی قومی اسمبلی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے تاہم ،میاں صاحب کی درخواست کو ہم ، اپنی قیادت کے حضور پیش کر دیں گے!‘‘۔ اہلِ پاکستان جانتے ہیں کہ ’’ مسلم لیگ (ن) ۔ مرحوم صدر جنرل ضیاء اُلحق کی باقیات میں سے ہے، جِن کے دَور میں قصور کے نواب محمد احمد خان کے قتل کے بڑےؔملزم جناب ذوالفقار علی بھٹو کو سپریم کورٹ کے حکم سے 4 اپریل 1979ء کو پھانسی کی سزا دِی تھی۔ 17 اگست 1988ء کو صدر جنرل ضیاء اُلحق ہوائی حادثے میں جاں بحق ہُوئے تو اُن کے جسدِ خاکی کو اسلام آباد کی فیصل مسجد کے احاطے میں دفن کرنے تک یہ اعلان کرتے رہے کہ ’’ مَیں صدر جنرل ضیاء اُلحق کے مشن کو پورا کر کے دم لُوں گا !‘‘ یہ مشن کیا تھا ؟ میاں صاحب نے اِس راز کو آج تک نہیں بتایا؟۔ پھر کیا ہُوا؟۔ جنرل پرویز مشرف کے دَور میں ، 14 مئی 2006ء کو لندن میںمحترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف میں ’’ میثاقِ جمہوریت‘‘ ہُوا ۔ یا شاید ’’ مُک مُکا‘‘ ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں تو ،اُنہیں 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں قتل کردِیا گیا اور میاں صاحب نے فوراً اُنہیں اپنی شہیدؔ بہن قرار دِیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں اپنے شوہر نامدارؔ جناب آصف زرداری کو ،پاکستان پیپلز پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھالیکن، جنابِ آصف زرداری نے محترمہ کے قتل کے بعد اُن کی ( برآمدہ مُبینہ) وصیت کے مطابق ’’ اپنے 19 سالہ بیٹے بلاول زرداری کے نام کے ساتھ بھٹوؔ کا لاحقہ لگا کر اُسے اپنے نانا جنابِ بھٹو اور والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی ( پی۔ پی۔ پی) کا چیئرمین نامزد کردِیا اور خُود اُس کے ماتحت شریک چیئرمین کاعہدہ سنبھال لِیا۔ اکتوبر 2002ء کے عام انتخابات سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو کی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ (پی۔ پی۔ پی۔ ) الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ نہیں تھی ۔پھر ’’ نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت بھٹو خاندان کے دو وفاداروں مخدوم امین فہیم اور راجا پرویز اشرف کی چیئرمین شِپ اور سیکرٹری جنرل شِپ میں ایک نئی پارٹی۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) قائم کی گئی۔ 18 فروری 2008ء کے عام انتخابات میں ( مخدوم امین فہیم کی قیادت میں )’’ پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ کو بھاری مینڈیٹ ملا۔ جِس کے نتیجے میں آصف علی زرداری صدر ِ پاکستان منتخب ہُوئے۔ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں بھی ’’ پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ ہی نے انتخابات میں حصہ لِیا۔ جس کا انتخابی نشان ۔ حسب سابق تیر ؔ (Arrow) تھا۔ 21 نومبر 2015ء کو مخدوم امین فہیم انتقال کرگئے تو، جناب آصف زرداری نے مرحوم کی ’’ پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ کی صدارت سنبھال لی۔ 25 جولائی 2018ء کے انتخابات سے پہلے بلاول بھٹو زرداری کی چیئرمین شِپ میں ، اُن کے نانا مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی ( پی۔ پی۔ پی) بھی الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ کرائی گئی جس کا انتخابی نشان ’’ تلوار‘‘ (Sword) تھا لیکن، جنابِ آصف زرداری نے اپنے مرحوم ’’ روحانی والد‘‘ جنابِ بھٹو کی پارٹی کو انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دِی۔ اُن کی صدارت میں ’’ پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ ہی نے انتخابات میں حصہ لِیا۔ صُورت حال یہ ہے کہ ’’صدر آصف زرداری کی صدارت میں (اُن کی ) ’’ پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ ہی پاکستان پیپلز پارٹی ( پی۔ پی۔پی) کہلاتی ہے اور بقول سیّد نیئر حسین بخاری ۔ ’’چیئرمین بلاول بھٹو ہی قومی اسمبلی میں ’’ پی۔ پی۔ پی ‘‘ کے لیڈر ہیں ‘‘۔ جنابِ آصف زرداری 9 ستمبر 2008ء سے 8 ستمبر 2013ء تک صدرِ پاکستان رہے اور اُنہوں نے اپنی پارٹی کے ، سیّد یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف کو بطور وزیراعظم ھنڈایا ؟۔ صدر آصف زرداری کے دَور میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی میں "Friendly Opposition"کا کردار اداکِیا اور میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے تیسرے دَور میں ’’ پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ نے بھی ۔ کبھی کبھار تو، جنابِ آصف زرداری اور میاں نوازشریف کے اِس طرح کے بیانات بھی منظر عام پر آتے تھے کہ ’’ ہماری دوستی آئندہ کئی نسلوں تک چلے گی‘‘اور پنجابی زبان کے کسی شاعر کا یہ مصرعہ مقبول عام تھا کہ … مَیں تے ماہی اِنج مِل گئے ! جِیویں ، ٹِچ بٹناں دِی جوڑی! یہ درست ہے کہ ’’ نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف ، اُن کی بیٹی مریم نوازاور اُن کے داماد کیپٹن ( ر) محمد صفدر کی سزائیں تو معطل ہو چکی ہیں لیکن، وہ کئی اور مقدمات میں بھی تو، مطلوب ہیں ؟۔ اُدھر جناب آصف زرداری اور اُن کی ہمشیرہ فریال تالپور بھی "Money Laundering" کے مقدمات میں ضمانت پر ہیں اور نہ جانے کیا کیا ہو؟۔ مجبوری میں کئی بار فریقین میں ’’ مُک مُکا‘‘ ہُوا ہے تو، فریقین منتخب وزیراعظم عمران خان نیازی کو "Tough Time"دینے کے لئے ایک بار پھر ’’ مُک مُکا‘‘ کیوں نہیں کرسکتے ؟ لیکن، بقول ’’ شاعرِ سیاست‘‘ … پی ۔پی۔ پی کے ، اپنے ہوتے ہیں ، قنونِ ؔ مُک مُکا! منفرد ہے ، رائے وِنڈی، لیگ ِ نُونِ ؔ مُک مُکا! معزز قارئین!۔ماضی کو کھنگالا جائے تو، پتہ چلتا ہے کہ ’’ جنابِ آصف زرداری اور میاں نواز شریف میں ’’محبت اور نفرت کے تعلقات(Love Hate Relationship) رہے ہیں لیکن، کئی بار تو ایسا بھی ہُوا ہے کہ ’’ دونوں فریق ایک دوسرے کو "Bluff Time" دیتے رہے ہیں۔ مَیں ایک بار پھر ’’اوکسفرڈ انگلش اردو ڈکشنری‘‘ کا حوالہ دے رہا ہُوں ۔ ’’ اپنا الّو سیدھا کرنے کے لئے جھوٹی دھونس جمانے ، گمراہ کرنے اور دھوکا دینے کو "To Give the Bluff Time" کہا جاتا ہے ۔ اِس پر مَیں اور کیا کہوں ؟۔ آپ نے اور ’’بدترین جمہوریت ‘‘ کے مرکزی کرداروں نے ، جو کرنا ہے ، کرلیں؟۔