حامد میر کے عمران خان سے دوستانہ انٹرویو کو مکمل دیکھنا اور اسے سمجھنا ضروری تھا، سو پورا دیکھا، پورا سمجھا، مہمان اور میزبان دونوں کاریگر تھے،دونوں نے کمال مہارت سے ایک دوسرے کو چھکے مارنے سے روکے رکھا، حامد میر کی باؤلنگ اچھی تھی،مگر وکٹ پر عمران خان تھے۔ عمران خان نے نواز شریف کے تین بار وزیر اعظم بننے کو فوج کا کرشمہ قرار دیا تو میزبان نے فوج کے بحیثیت ادارہ جمہوریت کے خلاف اقدامات کا سوال اٹھا دیاتو عمران خان نے جواب دیا کہ ماضی کے دو تین سپہ سالاروں نے انفرادی طور پر اپنی وردی کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور مارشل لا لگایا۔میں ذاتی طور پر سیاسیات سے زیادہ افواجیات کا طالبعلم ہوں، عمران خان کی فلاسفی ضیاالحقی مارشل لا پر لاگو نہیں ہوتی، اور نہ ہی ایوب خان کی محترمہ فاطمہ کو دی جانے والی انتخابی شکست پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ ہاں مگر پرویز مشرف کا مارشل لا واقعی مارشل لا نہیں تھا،وہ تو صرف نواز شریف کی ریاستی اداروں کیخلاف مہم جوئی کا نتیجہ تھا ،جس کی سزا نواز شریف نے نہیں پوری قوم نے بھگتی، اقتدار کے نشے نے پتہ نہیں کیا کیا ملیا میٹ کر ڈالا۔ ضیاالحقی مارشل لا ایک حقیقی اور اصل مارشل لا تھا، جس کے تانے بانے عالمی سامراجی قوتوں نے بنے اور پاکستان کو پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا۔اب جبکہ بظاہر پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ نواز شریف ،اس کے خاندان اور اقتدار کے شراکت داروں کیخلاف مبینہ کرپشن کے الزامات اور مقدمات ہیں، کچھ حلقوں میں سوچا جا رہا ہے کہ الیکشن سے پہلے نواز شریف اینڈ کو جیل میں ہونگے، ایک چھوٹا سا اور ناممکن سا تاثر یہ بھی ہے کہ نواز شریف کو محفوظ راستہ مل جائے گا۔ وغیرہ، وغیرہ، وغیرہسیاسی منظر نامے میں اچانک بڑا ڈرامائی سین سامنے آ گیا ہے اور وہ ہے اصغر خان کیس کی سولہ سال بعد پھر سے سماعت… کل سے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ ملکی تاریخ کے اپنی نوعیت کے سب سے بڑے مقدمے کو سننے جا رہا ہے۔ یہ اصغرخان کیس ہے کیا؟ 1986ء میں بینظیر بھٹو جلا وطنی کی بعد واپس پاکستان آئیں تو پوری ملکی سیاست میں الارم کھڑک گئے، لاہور میں محترمہ کے عظیم الشان استقبال اور ناصر باغ میں کثیر التعداد جلسے نے پیپلز پارٹی مخالف سیاسی اور ریاستی اداروں کی نیندیں اڑا دیں۔ ضیاء الحق کے بعد 1988ء میں صدر پاکستان غلام اسحاق خان کی قیادت میں نو سیاسی پارٹیوں کا سیاسی اتحاد بنوایا گیا تاکہ آنے والے عام انتخابات میں بی بی کو شکست دی جا سکے، اس سیاسی اتحاد کا نام آئی جے آئی(اسلامی جمہوری اتحاد) رکھا گیا اس اتحاد کے پس پردہ سربراہ جنرل حمید گل تھے، اس اتحاد میں شامل سیاستدانوں میں کروڑوں روپے بانٹے گئے، یہ کام لیا گیا مہران بنک کے صدر یونس حبیب سے، جن سیاستدانوں نے وصولیاں کیں ان میں نمایاں نام نواز شریف کا تھا، جو ااس وقت تک کوئی معروف سیاستدان نہ تھے۔ دوسرے وصول کنندگان میں فاروق لغاری،پیر پگاڑا،حاصل بخش بزنجو،مصطفی کھر،حفیظ پیرزادہ اور ملک معراج خالد جیسے معصوم بھی شامل تھے۔ پھر انتخابات ہو گئے،پی پی پی مخالف نو سیاسی پارٹیوں نے ترپن نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ پی پی پی کی نشستیں ترانوے تھیں، اس انتخابی نتیجے کی ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ اسلامی جمہوری اتحاد کو زیادہ کامیابی پنجاب سے ملی۔ بینظیر بھٹو پاکستان کی پہلی وزیر اعظم منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کر چکی تھیں اور نواز شریف پنجاب میں نو جماعتی اتحاد کی نمایاں کامیابی کے باعث وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اس سارے غیر معمولی ریاستی جوڑ توڑ پر سینئر سیاست دان اور پاکستان تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان نے اعلیٰ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ ریٹائرڈ جنرل گل حمید اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی اس کیس کے دائر ہونے سے پہلے اور بعد میں بھی کمال بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئی جے آئی بنانے اور سیاست دانوں میں پیسے بانٹنے کا کھلا اعتراف کرتے رہے ،حمید گل نے اس عمل کے حوالے سے تاویلیں پیش کیں، جنرل حمید گل نے کہا،،ہاں میں نے یہ کیا، مجھے کسی بھی متعلقہ فورم پر لے جائیں، بتا دوں گا کہ یہ کیوں ضروری تھا؟ ان کا دعوی تھا کہ ان پراس کام کیلئے ان کے ادارے کا اندرونی پریشر بھی تھا۔ پھرچیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سات نومبر دو ہزار بارہ کو اس کیس کا تاریخی فیصلہ سنادیا، فیصلے میں لکھا گیا کہ صدر مملکت کے ساتھ سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور سابق سربراہ آئی ایس آئی اسد درانی انفرادی طور پر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے،انیس سو نوے کے عام انتخابات میں دھاندلی کی گئی۔ صدر اپنے حلف سے وفا نہ کرے تو وہ آئین سے غداری کرتا ہے، صدر کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی ایک پارٹی کی حمایت کرے، فیصلے میں ریٹائرڈ بریگیڈیر حامد سعید کی اس ڈائری کا ذکر بھی کیا گیا جس میں پیسہ لینے والے سیاستدانوں کے نام درج تھے، فیصلے میں یہاں تک لکھا گیا کہ خفیہ اداروں اور ایوان صدر کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں ہوتا۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اسلم بیگ اور اسد درانی نے اپیل دائر کردی اور اب سولہ سال بعد۔ اس بند مقدمے کی پھر شنوائی ہو رہی ہے۔یہ تھا پاکستان کی سیاست میں سب سے بڑا شب خون۔ ٭٭٭٭٭ ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان کا ذکر آ ہی گیا ہے تو بتاتا چلوں کہ نواز شریف نے بھٹو کے پہلے دور اقتدار میں پی پی پی میں شامل ہونے کی کوشش کی تھی جسے مرحوم جہانگیر بدر نے ناکام بنا دیا،انہیں نہ جانے کیوں یہ خوف تھا کہ انکے آنے سے لاہور میں انکی سیاست خطرے میں پڑ سکتی ہے، اسکے بعد نواز شریف باقاعدہ طور پر اصغر خان کی پارٹی تحریک استقلال میں شامل ہوگئے تھے۔ 1977میں جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک نظام مصطفی چلی تو اس تحریک کا سب سے بڑا جلسہ اصغر خان نے کراچی میں کیا تھا،لیکن وہ کبھی پاپولر لیڈر بن سکے نہ ان کی جماعت پارلیمانی سیڑھیوں کا راستہ دیکھ سکی، اپنے تمام تر مشاہدے کی روشنی میں آج نواز شریف اور مریم نواز کے پے در پے جلسوں میں اندھیرا ہی اندھیرا دیکھ رہا ہوں، یہاں ہر شے فانی ہے، کوئی ایک جلسہ، کوئی ایک چھوٹی سی بھی جلسی دیکھی کسی نے ؟جس کا اہتمام خود عوام نے کیا ہو؟ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی سے بچانے کیلئے لوگوں نے خود سوزیاں کیں، ان خود سوزیوں کے کئی گواہ کئی عینی شاہد آج نواز شریف کے ساتھ ہیں، نواز شریف کی تقریریں لکھتے ہیں، نواز شریف کو سیاسی مشاورت اور رہنمائی فراہم کرتے ہیں، پتہ نہیں کیوں وہ نواز شریف کو پاکستان کی سیاسی تاریخ نہیں پڑھاتے؟اور ہاں آجکل نواز شریف جس خلائی مخلوق کا بار بار ذکر فرما رہے ہیں، آج کے کالم میں اس مخلوق سے قارئین کو ملوا دیا ہے، وہ خلائی مخلوق جس نے نواز شریف کو تین بار بحیثیت وزیر اعظم قوم پر مسلط رکھا۔ ٭٭٭٭٭ اور اب ایک فقرہ کسی تبصرے کے بغیر پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسے کے دوران ایک شخص پاکستان کا جھنڈا لیکرآیا تو اسے پنڈال سے باہر نکال دیا گیا ٭٭٭٭٭ میں نے ایک ماں کو دیکھا جسے حیوانوں نے طلب کیا تھا حکم کی بجا آوری سے چند گھنٹے ہی پہلے اس نے ایک بچے کو جنم دیا تھا