پچھلے ایک ہفتے سے طبیعت خراب تھی ۔ہلکا ہلکا بخار تھا، کان میں درد تھا، جو بڑھتا جا رہا تھا،سر میں بار بار ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ طبیعت زیادہ خراب ہونے پرمیرا بیٹا مجھے ایک پرائیویٹ ہسپتال لے گیا۔ میں جس نے ساری عمر سرکاری نوکری کی ہے اور بیماری کی صورت میں سرکاری ہسپتالوں ہی کا محتاج رہا ہوں ، کل پرائیویٹ ہسپتال میں لیٹا سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتال کے مریضوں کے بارے طرز عمل پر غور کرتا رہا۔تھوڑا نہیں بہت زیادہ فرق ہے۔ کارکردگی میں بھی، طرز عمل میں بھی اور علاج میں بھی۔ پیسے تو پرائیویٹ ہسپتال والے خوب لیتے ہیں مگر ان پیسوں کا حق بھی ادا کرتے ہیں۔ ہم ہسپتال پہنچے ، فوری گاڑی پارکنگ کے لئے ویلے والے موجود تھے۔ گاڑی ان کے سپرد کرکے ہم آگے بڑھے ۔ چار پانچ باوردی گارڈ بڑے مسکرا کر گیٹ پر ہمارے منتظر تھے۔ کہاں جانا ہے ؟ ایمرجنسی! یہ جواب سن کر ایک ہمراہ ہو لیا اور ہمیں ایمرجنسی تک لے کر آیا۔ وہاں کے عملے نے ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور فوراً ایک خالی بیڈ پر مجھے لٹا دیا گیا۔صاف ستھرا بیڈجس پر ڈسپوزیبل چادر بچھی تھی ، جس پر لیٹنے میں مجھے کچھ ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔ مجھے ایک سرکاری ہسپتال یاد آیا، جب کار پارکنگ میں کھڑی کی تو ایک چوکیدار بھاگ کر آیا کہ گاڑی پہلے پارکنگ میںلگا کر آئیں۔ سو روپے اس کی خدمت میں پیش کرنے پر میرے بیٹے کو کہنے لگا کہ آپ جلدی سے جائیں اور کسی کرسی والے کو ایمرجنسی سے لے آئیں۔ میرا بیٹا بھاگم بھاگ گیا اور ایک بندہ پکڑ کر لایا۔کرسی والے نے اس ڈر سے کہ بعد میں پیسے کس سے لے گا ۔ میرے بیٹے سے ہنس کر اپنی خدمت کا صلہ پہلے ہی مانگ لیا۔ اسے سو روپے دے کر میں کرسی کے سپرد اور میرا بیٹا گاڑی پارک کرنے چلا گیا،کرسی والا مجھے لے کر ایمرجنسی میں گھسا اور اس جگہ چھوڑ کر غائب ہو گیا جہاں پر پانچ چھ ڈاکٹر اکٹھے بیٹھے چائے پی رہے تھے۔اس جگہ عجیب سماں تھا۔ ایک ایک بستر پر دو دومریض لیٹے تھے اور ڈاکٹر چائے میں مصروف تھے۔ اتنے میں میرا بیٹا آ گیا۔ اس نے ڈاکٹروں کو مجھے دیکھنے کا کہا۔پتہ چلا کہ پہلے بیڈ حاصل کرنا ضروری ہے۔ ہر بیڈ پر دو مریض موجود تھے، اس کے باوجود چند بنچوں پر کوئی دو درجن بیڈ کے منتظر مریض بھی موجود تھے۔مجھے دل پر بوجھ محسوس ہو رہا تھا اور دل کے مریض کو فوری دیکھنا ضروری ہوتا ہے مگر وہاں کوئی ایسی سوچ نہ تھی۔وہاں بیڈ پہلی ترجیح تھی۔ گو ایمرجنسی میں تیس چالیس بیڈ ہوں گے مگر مریضوں کی تعداد کے مقابلے میں یہ بہت کم تھے۔نرسوں کی تعداد بھی معقول تھی مگر ان کو اپنی طرف بلانے والے بہت زیادہ تھے۔ میرے بیٹے نے اپنا اور میرا دونوں کا تعارف کرایا او ر ایک ڈاکٹر کو مدد کے لئے کہا۔اس ڈاکٹر نے ترس کھا کر یا بحیثیت استاد احترام میں دو لوگوں کو بلایا جو دونوں صفائی والے تھے اور انہیںمیرے لئے ایک بیڈ خالی کرانے کو کہا۔صفائی والے خاصے تگڑے اور بد تمیز بھی تھے ۔انہوں نے پندرہ منٹ کی جدوجہد کے بعد ایک بیڈ خالی کرا لیا۔بیڈ پر جگہ جگہ خون کے دھبے تھے۔ میں اس پر لیٹنے میں کچھ ہچکچا رہا تھا۔صفائی والا کہنے لگا کہ جناب یہ سب سے صاف بیڈ ہے ، سارا دن اتنے مریض ہوتے ہیں اور زخموں سے اتنے چور ہوتے ہیں کہ بیڈ خون سے لت پت ہو جاتے ہیں۔ دھلی ہوئی چادریں تو صبح نو بجے دن میںصرف ایک بار ہی ملتی ہیں۔ باقی ساری دن گزارا کرنا پڑتا ہے۔ مجبوری تھی میںاسی گندے بستر پر لیٹ گیا۔مریض آدمی سرکاری ہسپتال میں نخرا تو کر ہی نہیں سکتا۔ رات ایک بجے کے قریب ڈاکٹر غائب ہو گئے۔ کوئی ایک ہی نظر آ رہا تھا اور وہ بھی حد سے زیادہ مصروف۔میں نے ایک بندے سے ڈاکٹروں کی گمشدگی کا پوچھا، کہنے لگا، انسان ہیں تھک کر سونے چلے گئے ہیں ۔اب باری باری ایک گھنٹا ڈیوٹی دیں گے،باقی نیند پوری کریں گے۔ نرسیں ہی عملاً پوری وارڈ کی دیکھ بھال کرتی ہیں اور کریں گی۔کوئی ایمرجنسی ہوئی تو فوری اطلاع دے کر ڈاکٹرز کوبلا لیں گے ۔ ڈاکٹروں کو پتہ ہے کہ اتنی رات گئے کوئی باہر سے نہیں چیکنگ کرنے نہیں آتا، اس لئے سکون سے سو گئے ہیں۔اب میری طبیعت بہتر تھی،دل پر جو دبائو تھا ختم ہو چکا تھا اور صبح تک علاج یا کسی ڈاکٹر کی توجہ کی کوئی امید نہ تھی،میں نے ہنستے ہوئے اس چڑیا گھر جیسی ایمرجنسی کو خدا حافظ کہا اور گھر واپس آ گیا۔ اس کے مقابلے میں پرائیویٹ ہسپتال میں ڈاکٹرز کے اس طرح اکٹھے بیٹھ کر چائے پینے کا کلچر ہی نہیں تھا۔ڈاکٹر بڑی سنجیدگی سے مریضوں کے علاج میں مصروف تھے۔میرے پہنچتے ہی دو ڈاکٹر میرے دائیں بائیں موجود تھے۔ انہوں نے میرا نام پتہ اور مرض کے بارے بری تفصیل سے پوچھا اور لمحوں میں علاج شروع ہو گیا۔ مجھے یاد آیا۔ جب 1974 میں لیکچرر شپ جائن کرتے ہوئے ہمیں ایسے ہی حالات سے گزرنا پڑا ۔ ڈاکٹر ہاتھ میں چھڑیاںلئے ہمارے پورے جسم سے کھیل رہے تھے۔ ایک امیدوار کو پیچھے سے دیکھتے ہوئے ڈاکٹر نے نعرہ لگایا ، ’’آپ سگریٹ پیتے ہیں‘‘۔ امیدوار نے ہنس کر کہا کہ کیا کوئی دھواں نکلتا نظر آ رہا ہے۔‘‘ اس بات پر ساری محفل ہنسنے لگی۔ویسے جب بھی میڈیکل ٹیسٹ ہوتا ہے یا علاج کے سلسلے میں ڈاکتر سے پالا پڑتا ہے تو ایسے سانحات پیش آتے ہی ہیں، بڑے لطائف بھی جنم لیتے ہیں۔ بہر حال میں پرائیویٹ ہسپتال کے علاج سے بہت مطمئن ہوں کہ انہوں نے انتہائی برے حالات کے باوجود آٹھ دس گھنٹوں میں مجھے توانا کرکے گھر بھیج دیا۔ کاش ہمارے سرکاری ہسپتال بھی کسی اچھے معیار پر آجائیں تو بہت سوں کا بھلا ہو جائے۔ پرائیویٹ علاج تو ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔