ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عام انتخابات سیاسی استحکام کا باعث بنتے اور معاشی ترقی کا زینہ۔ لیکن ایک منقسم مینڈیٹ ملا ہے۔ کوئی بھی پارٹی اتنی اکثریت نہیں رکھتی کہ تنِ تنہا حکومت بنالے۔ جیتنے والوں کو بھی شکایت ہے اور ہارنے والوں کو بھی گلا کہ ہاتھ ہوگیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر تمام سیاسی پارٹیوں کو کھلا اور صاف انتخابی میدان ملتا۔ نہ کوئی لاڈلا ہوتا اور نہ ہی کوئی مظلوم۔ لیکن عدل کے معاملات کو درمیان میں چھوڑ، نتائج کی پرواہ کیے بغیر، قوم کو انتخابات کی بھٹی میں جھونک دیا گیا۔ تحریک انصاف کو انتخابی میدان سے باہر کرنے سے لیکر انتخابات کے دن مسلط کی گئی دھند اور نتائج میں غیر معمولی تاخیر نے بدگمانیاں جنم دی ہیں۔ جہاں موبائل فون کی بندش اور پولنگ ایجنٹوں کو دیے گئے اور مجموعی نتائج میں فرق نے الیکشن کمیشن کی ساکھ کو داغدار کیا ہے وہیں پر سیاسی پارٹیاں ، جنہیں مل بیٹھ کر لیٹی معیشت کو پیروں پر کھڑا کرنا اور عام آدمی کو بیروزگاری ، مہنگائی اور بیماری کے چنگل سے نکالنا تھا، ایک دوسرے کو ہی کوسنے دے رہی ہیں۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار اکثریت سے جیتے ہیں لیکن قانونی الجھنیں ایسی ہیں کہ حکومت سازی کا بوجھ دوسری سب سے بڑی پارٹی ، ن لیگ پر آن پڑا ہے۔ کیا یہ اتفاق ہے؟ تحریک انصاف اس کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں تو گیند پیپلز پارٹی کی کورٹ میں چلی گئی ہے جو حکومت سازی میں تعاون تو کرنا چاہتی ہے لیکن اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر۔ سینٹ چئیرمین اور سپیکر قومی اسمبلی کے عہدوں پر اسکی نظر ہے۔ پنجاب سے حصہ وصول کرنا چاہتی ہے جہاں اس کی سیٹیں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہیں۔ اب تو ن لیگ کے سینئر قائدین برملا کہنے لگے ہیں کہ وفاق میں حکومت سے دستبردار ہوجائیں تو اچھا ہے۔ میاں نواز شریف، جنہیں دیگر پارٹیوں نے دوران انتخابات نے لاڈلے کا خطاب دیا تھا، وہ بھی وفاق میں حکومت سازی کا بوجھ اٹھانے کو تیا ر نہیں اور انہوں نے میاں شہباز شریف کو قربانی کا بکرا بنا یا ہے۔ ن لیگ کی ایک اور حلیف پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمان) نے حکومت سازی میں تعاون تو کجا، اسے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کی دعوت دے ڈالی ہے۔ اس نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے اپنی راہیں جدا کرنے کے لیے جو منطق اپنائی ہے اس سے تحریک انصاف کے اْس بیانیے کو تقویت ملی ہے کہ پاکستان میں حکومتی تبدیلی اور بعد ازاں اس پارٹی کے مصائب کے پیچھے ایک سازش کارفرما تھی اور دو بڑی سیاسی جماعتیں مہرے کے طور پر استعمال ہوئیں۔ اب جبکہ تحریک انصاف ایک اکثریتی پارٹی کے طور پر پارلیمان میں ،کم وبیش پہلی طاقت کے ساتھ، واپس لوٹ آئی ہے تو اسکا منطقی نتیجہ جمعیت نے یہی نکالا ہے کہ حالیہ انتخابات ایک ریفرنڈم تھے اور یہ کہ تحریک انصاف کو پارلیمانی سیاست سے دور رکھنے کے لیے غیر آئینی حربے استعمال کیے گئے جن کا فائدہ مخصوص سیاسی پارٹیوں کو ہوا ہے۔ اب جب وہ احتجاج کے راستے پر نکل کھڑے ہیں تو سیاست میں اداروں کی مداخلت انکا ہدف ہے۔ ماضی کی نسبت اس بار ان کے بیانیہ واضح اور غیر لچکدار ہے۔ یوں پاکستان کی سیاست ایک بحرانی کیفیت سے ہوتی ہوئی بھونچال کے نظر ہوگئی ہے۔ وفاق میں ن لیگ کی حکومت بننے کا فوری رد عمل تحریک انصاف اور جمعیت کے درمیان ا تحاد کی صورت میں نکلے گا۔ چونکہ دونوں جماعتوں کے پاس سٹریٹ پاور ہے ان کا احتجاجی سیاست کو اپنانے کا مطلب یہ ہے کہ ن لیگ کے لیے اقتدار کانٹوں کی سیج بن جائیگا۔ پاکستان کی قوم پرست جماعتیں بھی اس کھیل کا حصہ بنیں گی اور انکا اینٹی اسٹیبلشمنٹ رویہ ایک حقیقت ہے۔ سندھ میں پیرپگارا صاحب نے الیکشن کے نتائج کو ہی مسترد نہیں کیا بلکہ عمران خان کی سزا اور انکی پارٹٰی کو انتخابی میدان سے باہر کیے جانے کو بھی تنقید کا نشانہ بنا یا ہے۔ یہ بات مدنظر رہے کہ وہ ایک روحانی پیشوا ہیں۔ انکی پارٹی ، مسلم لیگ فنکشنل تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ تھی۔ سندھ کی قوم پرست پارٹیوں کے علاوہ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) اس وقت انکی قیادت میں متحد ہیں۔ مقتدرہ اب کیا کریگی؟ اگر نو مئی کے واقعات کو اس نے انتشار کی نوید کے ضمرے میں لیا تھا تو اس حوالے سے اسکی طرف سے کی گئی تمام احتیاطی تدابیر ناکام ہی نہیں ْالٹا گلے پڑ گئی ہیں۔ انتشار ، جو کہ اس وقت عالمی طاقتوں کی جانب سے سے ہتھیارکے طور پر استعمال ہورہا ہے، وہ اب بھیانک حقیقت بن کر سامنے آگیا ہے۔ سیاسی استحکام ، نتیجتاً معاشی ترقی، عدل کے تقاضوں پر چلنے سے آئیگا نہ کہ دھونس اور دھاندلی کے ذریعے۔ ماضی کو پس پشت ڈالنا اور نئی شروعات کرنا ہیں تو پاکستان ایک نئے سماجی معاہدے کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔تجربے بہت ہوگئے ، ذرا بانی پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی سے خطاب پر نظر ڈال لیں جس میں انہوں نے ملکی مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے ان کا آئینی حل تجویز کیا ہے۔ ان سے روگردانی ہی ہمیں اس حال میں لائی ہے۔ کہاں ہم نے مساوات کے ابدی اصولوں پر شہریت کا عالمی تصور اپنانا، صوبائیت پرستی کی حوصلہ شکنی اور قانون کی بالادستی قائم کرنا تھی اور کہاں ہم فرقہ واریت اور نسل پرستی کے چنگل میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ تیزی سے بڑھتی آبادی، شہر غلاظت سے اٹے، ہر سو غربت اور بیماری کا راج اور جمہوریت امیر طبقے کی لونڈی۔ کیوں نا موجودہ اسمبلی ایک قومی حکومت کی موجودگی میں آئین ساز اسمبلی کے طور پر کام کرے اور مخصوص مدت میں اپنا کام کر کے واقعتاً صاف و شفاف انتخابات کرادے ؟