تصوف اور اہل تصوف سے متعلق اہل علم میں موجود ابہام کی حقیقت خواہ کچھ بھی ہو مگر اس سے انکار ممکن نہیں کہ صوفیاء کی محافل اور آستانوں نے ہندوستان کے طول و عرض میں اسلامی تعلیمات کے پھیلائو میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ہندوستان پر حکومت کرنے والے حکمرانوں کی قبریں ویران اور اجاڑ ہیں یا نامعلوم مگر صوفیاء کے مزارات آج بھی مراکز فیض عام و خاص ہیں۔اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سماجی شعور کے فقدان اور دینی تقاضوں سے عدم واقفیت کی مجموعی کیفیت کے باعث ان مزارات اور خانقاہوں پر اب جو کچھ نظر آنے لگا ہے ان کا صاحب مزار کی تعلیمات اور کردار سے کوئی تعلق نہیں۔ تصوف تربیت ذات اور تزکیہ نفس کی مشق و مشقت کا ایک روحانی نصاب ہے جس کے تکمیلی مراحل انسان کو خالق حقیقی سے قریب تر کر دیتے ہیں۔ ہر ز مانے میں اور ہر مذاہب کے ماننے والوں میں تصوف کی مختلف شکلیں ،انداز اور کیفیات تجربہ گاہ ء زیست کا حصہ بنتی رہی ہیں۔اسلام میں تصوف کی تمام شکلیں شریعت کی تعلیمات کے تابع ہیں۔ اللہ سے قربت اورسولﷺ سے محبت کا کوئی دعویٰ اس وقت تک معتبر نہیں جب تک وہ شریعت کے مطابق نہ ہو ۔اس ضمن میں حضرت ادب گلشن آبادی کی مساعی جمیلہ لائق تحسین اور قابل تقلید ہیں ۔نام تو سلطان جیلانی تھا مگر ہر خاص و عام میں وہ ادب صاحب کے نام سے ہی جانے پہچانے جاتے تھے۔چہرے پر جلال ،آنکھوں میں عبادت شب کی علامات، آواز میں کرختگی ،لہجہ مگر دلنشیں، بود و باش سادہ مگر سادگی میں تمکنت،معاشرت میںتواضح، مذہب،تصوف، شریعت اورادب گفتگو کے موضوعات۔فارسی کے استاد ، ادیب و شاعر ،شعلہ بیاں خطیب،صوفی با صفا ،عالم با عمل نقشبندیہ سلسلے سے وابستہ اور حب رسولﷺ سے سرشار ، اس کے سوا ان کا تعارف اور کیا ممکن ہو سکتا ہے۔ وہ آدمیوں کے ہجوم میں ایک تھے جو فی زمانہ کمیاب ہی نہیں نایاب ہو گئے ہیں۔غالب کیا خوب کہہ گئے ہیں: بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا آدمی سے انساں ہونے تک کا سفر طویل بھی ہے او ر صبر آزما بھی۔یہ علم اور عمل کا متقاضی ہے۔ یہ اعلی اخلاق کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ تربیت ذات کے مسلسل مجاہدہ سے ہی ممکن ہے۔ اس معیار پر ادب گلشن آبادی کو پورے تیقن سے رکھاجا سکتا ہے۔آپ کا تعلق ایک صوفی گھرانے سے تھا ۔ آپ کے والد حضرت غلام حید ر نقشبندی مجددی ایک صاحب علم اور با عمل صوفی تھے جن کا مزار اور آستانہ مدھیہ پردیش ( بھارت ) کی ریاست جاورہ میں ، جو اب گلشن آباد کے نام سے موسوم ہے ، آج بھی دینی شعائر کے فروغ کی شمع جلائے ہوئے ہے۔ اس گھرانے کا یہ امتیاز رہا ہے کہ روایتی صوفیانہ طریقت پر اصرارکے بجائے اتباع شریعت کی تلقین ،قرآن فہمی اور عشق رسول ﷺ کے حقیقی تقاضوں پر ہمیشہ زور دیا ہے۔حضرت ادب صاحب نے اپنی تمام زندگی ان ہی مقاصد کی تکمیل کے لئے وقف کر رکھی تھی ۔عروس کی محافل ہوں یا میلاد النبی کی تقریبات ہر موقع پرقرآنی فکر کے فروغ کے لئے کوشاں رہے اور بڑی حد تک کامیاب بھی رہے۔مطالعہ بڑا وسیع تھا ۔آپ کے کتب خانہ میں قرآن و حدیث،فقہ، سیرت رسول ﷺ، تاریخ و سوانح ، طب، تصوف، فلسفہ،سائنس پر بے شمار کتب موجود تھیں ۔ آپ کی محفل میں جو بھی آیا حسب مقدور مستفید ہوا۔آپ کے تربیتی اعجاز کا ذکر ہندوستان کے معروف ادیب اور تنقید نگار جناب شمس الرحمن فاروقی نے بھی کیا ۔ انہوں اپنے شہرہ آفاق ناول ’’کئی چاند تھے سر آسماں ‘‘ میں معروف ادیب و شاعر سلیم جعفر کے ضمن میں ادب صاحب کی تربیتی وصف کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا: ’’ میر پور خاص میں سلیم جعفر کو ادب گلشن آبادی کی صحبت میسر آئی جس سے ان کی شخصیت میں اور زیادہ نکھار آیا ۔‘‘ شاعری بالخصوص نعتیہ شاعری سے گہرا لگائو تھا۔حریم اسری اور صحیفہ ء ادب کے نام سے ان کے دو شعری مجموعے ان کی شہادت کے بعد شائع ہوئے۔حب رسولﷺ سے تعلق اس قدر گہرا تھا کہ جب 1990میں عمرے کی غرض سے سعودی عرب جانے لگے تو احباب اور متعلقین سوال کرتے کہ واپسی کب ہوگی تو فرمایا ’’جانے کی بات کرو واپسی کی نہیں ‘‘ اور یہی ہوا ۔ عمرے کے بعد انہوں نے اپنا قیام حج کی ادائیگی تک بڑھا دیا ۔حج کے دوران منی میں موجود سرنگ میں بھگدڑ کا جو حادثہ ہوا تھا اور سینکڑوں حجاج شہید ہوئے ان میں حضرت ادب صاحب بھی شامل تھے اور یوں وہ جو واپسی کی بات کرنے سے پہلو تہی کر رہے تھے وہ واقعہ بن گئی۔اس ضمن میں ایک اور حیرت انگیز بات جو ان کے ایک مکتوب سے معلوم ہوئی جو انہوں نے جاورہ میں مقیم اپنے والد محترم کو ، جن سے وہ بیعت بھی تھے ، 1957 میں تحریر کیا تھا اور جس میں انہوں نے اپنے ایک خواب کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی موت کی منظر کشی کی تھی کہ ایک روشن اور پر ہجوم تنگ جگہ ہے جہاں فرشتہ ء اجل سے ان کی ملاقات ہو رہی ہے اور وہ خوشی کے عالم میں اس کے ساتھ چلے جا رہے ہیں اور یوں1957 میں دیکھا جانے والا خواب حقیقت بن گیا ۔اور ان کی وہ آرزو پوری ہوئی جس کا اظہار وہ اپنے نعتیہ اشعار میں اکثر کرتے رہے تھے۔ اس سلسلے میںکچھ منتخب اشعار ملاحظہ ہوں : ہے وہ خاک عرش وقار جو ہوئی پائمال شہ زمن وہی خاک گنج مزار ہو وہی خاک میرا بنے کفن یہی بندگی کا کمال ہے یہی زنگی کا مآل ہو میں فنائے عشق نبی رہوں خاک پائے شہ زمن تمنا ہے تو بس یہ ہے کہ اس صورت سے دم نکلے ادب کا سر تمھارا آستاں ہو یا رسول اللہ