اللہ آباد ، دارالحکومت سے یونین کونسل تک ؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ سابق ریاست بہاولپور کا ابتدائی دارالحکومت ضلع رحیم یار خان کا قصبہ اللہ آباد تھا۔ ترقی معکوس کا سفر اللہ آباد کو دار الحکومت سے یونین کونسل تک لے آیا ہے۔ اللہ آباد کے جواں سال صحافی و ادیب طارق ملک کی کتاب ریاست اللہ آباد میں بہت سے تاریخی حقائق درج کئے گئے ہیں ۔ آج بھی اللہ آباد ادبی ثقافتی اور علمی سرگرمیوںکے مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے اور آج بھی وہاں بہت سے گھروں میں نجی کتب خانے قائم ہیں۔ کتاب کے مصنف طارق ملک کا شمار بھی کتاب دوست افراد میں ہوتا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ 1776ء میں امیر صادق محمد خان عباسی (اول) کی شکار پور (سندھ ) میں شہادت کے بعد ان کے بڑے بیٹے محمد بہاول خان عباسی (اول) ریاست اللہ آباد کے فرمانروا بنے۔ 1748ء میں جب ملتان کے صوبیدار نواب حیات اللہ خان قتل کر دئیے گئے تو دیوان کوڑا مل ملتان کے نئے صوبیدار مقرر ہوئے۔ امیر محمد بہاول خان عباسی (اول) نے 1748ء میں دیوان کوڑا مل سے ملاقات کر کے ان سے آدم واہن کا پٹہ استمرار حاصل کیا، اسی سال حاکم سیت پور نواب جان نثار خان نے دیوان کوڑا مل کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا اور محاصل بھی سرکار میں داخل نہ کرائے تو دیوان کوڑا مل کے کہنے پر امیر محمد بہاول خان عباسی (اول) خان بیلہ پر حملہ آور ہوئے اور انہوں نے نواب جاں نثار خان کو شکست دے کر خان بیلہ فتح کر لیا ۔ بعد ازاں انہوں نے خیر پور ٹامیوالی ، گوٹھ قائم رئیس، حاصل پور اور دیگر کئی علاقہ جات بھی اپنے قبضے میں کر لئے، امیر محمد بہاول خان عباسی (اول) نے علاقے کی آباد کاری کے لئے خیر پور ٹامیوالی کا علاقہ ڈیرہ محمد معروف خان ، گوٹھ قائم رئیس کا علاقہ قائم خان عربانی اور حاصل پور کا علاقہ حاصل خان گھمرانی کے سپرد کرتے ہوئے ان کا خراج مقرر کیا۔ اس تمام عرصے میں ریاست اللہ آباد طول و عرض میں دور دور تک پھیل چکی تھی ، لہٰذا ریاست کے جغرافیئے کو دیکھتے ہوئے اور مخالفین کے حملوں سے بچائو کی تدابیر پر قابو پانے کیلئے امیر محمد بہاول خان عباسی (اول) نے 1748ء میں اللہ آباد سے 100 کلو میٹر دور شمال مشرق میں دریائے ستلج سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر قائم ’’سوڈھا دی جھوک‘‘ نامی بستی جہاں آج ’’دار السرور بہاولپور‘‘ واقع ہے کے مقام پر ایک نیا شہر ’’بہاولپور ‘‘ آباد کر کے دارالحکومت اللہ آباد سے بہاولپور منتقل کر لیا جبکہ 20 سالہ (1728ء تا 1748ء ) ’’ریاست اللہ آباد‘‘ کو بھی ’’ریاست بہاولپور‘‘ کا نام دے دیا گیا، امیر محمد بہاول خان عباسی (اول ) نے بطور فرمانروا صرف تین سال حکومت کی جن میں سے پہلے دو سال اللہ آباد جبکہ آخری ایک سال بہاولپور میں گزارا ، وہ 1749ء میں بہاولپور میں فوت ہوئے اور انہیں وہیں سپرد خاک کیا گیا۔ اللہ آباد کے حوالے سے ہم نے کتب خانوں کا ذکر کیا تو یہ بھی حقیقت ہے کہ بہاولپور کا ایک ادارہ سنٹرل لائبریری بھی ہے جو کہ ایک وقت میں پورے ہندوستان میں اپنی مثال آپ تھی ، سنٹرل لائبریری بہاول پور کا شمار پاکستان کی بہترین لائبریریوں میں ہوتا ہے اور یہ نواب سر محمد صادق مرحوم کا وہ عظیم کارنامہ ہے جس سے ان کی ادب سے وابستگی اور دلچسپی کا عملی اظہار ہوتا ہے ۔ امور سے سلطنت کے علاوہ نواب مرحوم نے بہاول پور کے عوام کی تعلیمی پسماندگی کو بھی سامنے رکھا اور انہیں ادب سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اور ان کے ذوق کی تسکین کے لئے ایک عظیم الشان لائبریری قائم کر دی تاکہ آنے والی نسلیں اس عظیم سرمایہ سے مستفید ہو سکیں۔ 1924ء کا سال منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ امیر آف بہاول پور سر صادق محمد خاں کی رسم تاج پوشی اسی سال ادا کی گئی اور اسی موقع پر امیر نے اپنے وزراء اور عوام سے مشورہ کے بعد ایک عظیم لائبریری کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ نواب مرحوم نے عوام میں تعلیمی شعور بیدار کرنے کے لئے کتنی عملی دلچسپی لی ،اس کا اظہار لائبریری کے قیام سے ہوتا ہے، لائبریری کی تعمیر کے لئے جگہ درکار تھی، امیر آف بہاول پور نے وسیع زمین لائبریری کی عمارت کے لئے مختص کی ۔ امیر آف بہاول پور نے ذاتی دلچسپی سے اس لائبریری کا نقشہ بنوایا جو کہ قدیم وکٹورین طرز کا تھا ، اس نقشہ میں ملکی و غیر ملکی ماہر انجینئرز کی آراء لی گئی ، بالآخر اسے حتمی شکل دے کر نواب آف بہاول پور سے اس کی منظوری لی گئی۔ 8مارچ 1924ء کو اس وقت کے وائسرائے ہند سر روفس آئزک ارل آف ریڈنگ نے اس عمارت کا سنگ بنیاد رکھا ، اس لائبریری کا نام امیر آف بہاول پور اور وائسرائے ہند کے ناموں کی مطابقت سے ’’صادق ریڈنگ لائبریری‘‘ رکھا گیا ۔ سنٹرل لائبریری کی عمارت کی تعمیر کا کام 1924ء سے لے کر 1927ء تک جاری رہا ، بلدیہ بہاول پور نے لائبریری کی امارات کو1934ء میں مکمل کر لیا اور اسی میں اپنا دفتر قائم کر لیا ، بعد ازاں ریاست کی طرف سے فنڈز کی فراہمی پر یہ بڑی لائبریری بن گئی اور اس کا شمار ہندوستان کی بڑی لائبریوں میں ہونے لگا ۔ 1947ء میں قیام پاکستان سے چند ماہ قبل ریاست بہاول پور کے وزیر اعظم مشتاق احمد گورمانی نے بہاول پور میں ایک اعلیٰ قسم کی لائبریری کی کمی شدت سے محسوس کی اور ’’صادق ریڈنگ لائبریری‘‘ کی تمام تاریخ ان کے سامنے تھی ، لہٰذا باہمی مشورے اور کونسل کی مشاورت سے فیصلہ کیا گیا کہ بلدیہ بہاول پور کی لائبریری بمعہ فرنیچر کتب و دیگر لوازات تحویل میں لے کر عمارت ہذا میں سرکاری سطح پر ایک لائبریری کا اجراء کیاجائے جس کا نام سنٹرل لائبریری رکھا جائے اس فیصلے کے تحت عمارت ہذا کی بالائی منزل پر سنٹرل لائبریری کا اجراء کیا گیا ۔یہ لائبریری قیام پاکستان کے بعد صوبائی حکومت کے زیر کنٹرول آ گئی ، وقت اور ضرورت کے پیش نظر اسے قدیم اور جدید علوم کی کتب سے مزین کیا گیا اور قرآن پاک کے ایسے ایسے نادر نسخے لائے گئے جو اپنی مثال آپ ہیں۔