اْمّتِ مسلمہ کو درپیش چیلنجز میں سے اہم ترین معاشی، سیاسی، ذہنی اور فکری تحدیات اور بحران ہیں، جس سے عہدہ برا ہونے کے لیے لازم ہے کہ ایسی عبقری اور نابِغہ شخصیات کے افکار و احوال کی ترویج ہو، جنہوں نے ملت اسلامیہ میں باہمی اتحاد و یگانگت اور اتفاق و اخوت کی ترویج کو لازم کیا۔ اس حوالے سے بر صغیر میں حضرت شاہ ولی اللہ دھلویؒ کو یہ تفوق اور امتیاز میسر ہے کہ یہاں کے مختلف النوع فکر ی اور مذہبی ماحول کے باوجود بھی جملہ مکاتب فکر اور دبستان ِ علم ان سے اکتساب فیض کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ برصغیر کی یہ رفیع الشان ہستی 1114ھ بمطابق 1703ء دہلی میں پیدا ہوئی، آپ کے والد ِ گرامی شاہ عبدالرحیم ایک عظیم المرتبت عالم، صوفی بزرگ اور معتبر فقہہ تھے، انہیں سے منسوب " مدرسہ رحیمیہ "خدمات ِ جلیلہ کا حامل ہوا، جہاں سے حضرت شاہ ولی اللہؒ نے بھی اکتساب علم کیا اور اپنے والد گرامی کے جانشین قرار پائے۔ 1143ء میں آپ کا سفر حج اور حجازمقدس میں قیام تاریخ اور خطے کے لیے حیات آفریں ثابت ہوا۔ آپ کے افکار کی تدوین اٹھارویں صدی عیسویں میں ایسے حالات میں ہوئی، جب برصغیر میں مسلمان سات صدیوں کی حکومت و سطوت کے بعد زوال کا شکار تھے۔ شاہ صاحب نے اس مشکل وقت میں اْمت کی دستگیری کی۔ تاریخی بادشاہی سے متصل اوقاف علماء اکیڈمی کے افسر ِ مطبوعات نے گزشتہ روز حضرت شاہ صاحب کی تصنیف ِ لطیف "الانصاف فی بیان سبب الاختلاف" پیش کرتے ہوئے فرمائش کی کہ حضرت شاہ صاحب کی اس کتاب کے پانچویں ایڈیشن کی طباعت کا مرحلہ درپیش ہے۔ جس میں حسب ِ روایت ادارے کے سربراہ کی طرف سے دیباچہ درکار ہے، چنانچہ اس ذمہ داری سے عہدہ براہ ہوں تاکہ کتاب زیور طباعت سے آراستہ ہوکر قارئین و محققین تک رسائی پاسکے۔ بالعموم ایسے حرفِ آغاز،دیباچے اور مقدمے۔۔۔ متعلقہ افسر ِ طباعت ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ افسر اعلیٰ اور سربراہ ِ والا کی طرف سے خود ہی قلمبند کر لے اور پھر ان کی جَلی مہر اور نمایاں اسم گرامی کے ساتھ اس کو طبع کروا کے، کتاب ان کی خدمت میں پیش کرے۔ کیونکہ اب یہ امر کسی بڑے صاحب منصب کے شایان نہیں کہ وہ کسی اچھی تحریر کا خالق یا اعلیٰ فکر اور ندرت بیان کے ہنر سے آراستہ ہو،ماضی قریب میں تو ایسے اوصاف لازم تھے، مگر اب صورتحال یہ ہے کہ کتاب بینی سے شغف اگر ہو بھی تو اس کو ذرا چھپایا جاتا ہے کہ ایسے خصائل انتظامی افسرکے شایانِ شان نہیں۔ بہر حال یہ تو جملہ معترضہ تھا، اصل موضوع تو حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کی زیر نظر تصنیف ہے، جس کا اردو ترجمہ نصف صدی قبل علماء اکیڈمی ہی کے ایک ریسرچ سکالر مولانا محمد عبید اللہ بن خوشی محمد نے اکیڈمی کورس میں، تھیسز ورک کے طور پر " فقہی اختلافات کی اصلیت " کے عنوان سے کیا۔ ترجمہ اس قدر سْبک، عمدہ اور معیاری تھاکہ ادارے نے اسے 1981ء میں شائع کردیا اور پھر یہ مسلسل اشاعت پذیر رہا۔ تحقیق و تفحص دراصل ایک ذوق ہے، جس کے لیے راہوار ِشوق اسے مسلسل اْبھارتا اور آگے بڑھنے کا جذیہ فراواں کرتا ہے، یہی سبب ہے کہ فاضل مترجم نے اپنی ذمہ داری سے قدرے متجاوز ہو تے ہوئے، حسب ضرورت، کتاب کو مفید حواشی، اٰیات، احادیث، کتابیات، شخصیات کی تخریج سے بھی آراستہ کرڈالا۔ اس وقت ہماری جدید جامعات اور دانشگاہوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی بہتات ہے، جس کے سبب موضوعات ڈھونڈنے میں دشواری ہے، بنا بریں ایسے ایسے موضوعات پر اعلیٰ ڈگریاں تفویض ہورہی ہیں، جس میں سوسائٹی اور متعلقہ علمی حلقے کی افادیت کا کوئی پہلو موجود نہیں۔ گزشتہ دنوں ایک معروف یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے ایک تھیسز کے شفوی امتحان(viva voce) کے لیے جانے کا اتفاق ہوا، موضوع ِ تحقیق امام کرمانی کی شرح بخاری بعنوان " الکواکب الدراری" تھا۔ ریسرچ سکالر جو کہ درسیات کے بھی فاضل تھے، پوری تگ و دو کے بعد بھی،امام محمد بن اسمعیل بخاری، جس کی الجامع الصحیح پر لکھی گئی شرح کے سبب وہ پی ایچ ڈی سے سرفراز ہورہے تھے، کی بابت چند جملے نہ کہہ سکے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ تحقیقی میعار میں ابتری ہے، اصل مسئلہ ذوقِ طلب و جستجو کا ہے۔ دینی مدارس کو جدید جامعات تک رسائی کا بہت زیادہ حامی ہوں، اس سے علمی اور ذہنی سطح میں وسعت اور دوسروں کے افکار وخیالات سننے کا داعیہ اور جذبہ پیدا ہوتا۔ اس کے ساتھ متعلقہ ایڈمنسٹریٹوڈیپارٹمنٹ کے افسران کوبھی یونیورسٹیوں کے ریسرچ اور علمی رجحانات سے استفادہ کے لیے ایسے اداروں سے ربطہ رکھنا چاہیے تاکہ ان کی شخصیات بنجر اور ویران ہونے سے محفوظ رہ سکے۔ بیوروکریٹ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ خود کو ایک خول میں بند کرلیں، کتاب اور علم کے بغیر طبیعت میں نرمی اور گداز ممکن نہیں اور نہ ہی قومی مسائل کا ادراک اور ان کے حل کا شعور عطا ہوسکتا ہے۔ پی ایچ ڈی ریسرچ ہی سے یاد آیا کہ گزشتہ دنوں جی سی یونیورسٹی کے قائمقام وائس چانسلر ڈاکٹر سلطان شاہ کی سپرویژن میں عمدہ موضوعات بھی دیکھنے میں آئے جیسے " واقدی کی کتاب المغازی اور مستشرقین:ایک تنقیدی جائزہ " اسی طرح ایم فل کے لیے "A Critical Study of Muhammad and the Origins of Islam by F.E Peters" اسی طرح ایک تھیسز A Critical Analysis of ContemporaryMuslim Scholarship of the issue of Euthanasia" مزید یہ کہ پی ایچ ڈی کے لیے لکھا گیا حسب ذیل مقالہ جانچنے کی ذمہ داری بھی تفویض تھی، "Paradigm Shifit in the Sirah Wirting of Orientalists from Confrontation to Reconciliation" مغربی محققین اور مستشرقین نے سیرت طیبہ اور مجموعہ ہائے مغازی پر بہت کام کیا ہے، ان میں تین طرح کے لوگ زیادہ نمایاں تھے کچھ تو پادری اور پریسٹ تھے، ان میں مذہبی تعصب کا ہونا ایک فطری بات تھی،جس کا انہوں نے دل کھول کر خوب اظہار کیا۔ اسی طرح یورپین ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ نے مسلمانوں کو ان کے مرکز محبت و مودت سے دور کرنے کی بڑی کوشش کی، انہوں نے مسلم سوسائٹی کی تھوڑ پھوڑ اور ان کے ایجوکیشن سسٹم کو ویسٹرائنز کرنے کے لیے کئی تحریکیں لانچ کیں۔ ان میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو خالص علمی تحقیقی ذوق کے سبب آگے بڑھا اور انہوں نے سیرت طبیہ پہ بہت کام کیا، اور بعض عمدہ تحریریں بھی سامنے آئی۔