میں نے اپنے گذشتہ کالم میں اپوزیشن کی جانب سے بنائے گئے بیانیے کے کمزور پہلوئوں پر بات کی تھی اور عرض کیا تھا کہ تحریک انصاف بھی کمزور حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اتری ہے، خاص طور پر ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے کئی کمزور فیصلے کیے گئے ہیں،جس کے باعث کئی حلقوں میں پی ٹی آئی کے مختلف دھڑے ایک دوسرے کے سامنے آ چکے ہیں ۔ جس کا نتیجہ کچھ نشستوں کے نقصان کی صورت میں نکل سکتا ہے ۔ اس قسم کی صورتحال ہم پاکستان کے قومی اور ضمنی انتخابات میں دیکھ چکے ہیںجہاں نتیجہ تحریک انصاف کے لیے پریشان کن تھا۔ مثال کے طور پر حلقہ ایل اے 9 نکیال کو ہی دیکھ لیں یہاں پی ٹی آئی کے نعیم آرزو ٹکٹ کے پکے امیدوار تصور کیے جاتے تھے اور تب سے پی ٹی آئی میں تھے جب سے آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی وجود میں آئی ہے ۔ نعیم آرزو نے الیکشن لڑنے کے لیے اپنی حکمت عملی مکمل طور پر تیار کر رکھی تھی اور پانچ سال تک حلقے میں کافی متحرک رہے تھے ۔ لیکن ٹکٹ کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو ایک مقامی بزنس مین آصف کریلوی ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو گئے ، آصف کریلوی کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں ، نہ ہی کبھی انہوں نے کسی بھی سطح کا کوئی الیکشن لڑا۔ بہت سے لوگوں نے تو کبھی ان کا نام بھی نہیں سنا تھا۔نہ جانے کیسے علی امین گنڈاپور کا دل جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس صورتحال سے پی ٹی آئی کے دیرینہ کارکن نعیم آرزو اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔اب سنا ہے گذشتہ روز انہوں نے مسلم کانفرنس کا ٹکٹ تو سمجھانے بجھانے پر واپس کر دیا لیکن ابھی اپنی اگلی حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا۔یقینا اس صورتحال کا فائدہ پیپلز پارٹی کے تگڑے امیدوار جاوید بڈانوی اٹھائیں گے۔ ایل اے 32 مظفر آباد میں تو اس سے بڑھ کر ہوا ہے ۔ یہاںوزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کے مقابلے میں پی ٹی آئی نے ایک نوجوان ذیشان حیدر کو ٹکٹ دیا ہے جنہیں الیکشن لڑنے کا کوئی تجربہ نہیں اور پہلی دفعہ الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ چلیے اس میں بھی کوئی حرج نہیں ، مراد سعید ، علی محمد خان ، زرتاج گل اور فرخ حبیب سمیت کئی نوجوانوں نے سیاسی گرگوں کو شکست دی۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس حلقے میں ٹکٹ کے مضبوط امیدوار پی ٹی آئی کے پرانے کارکن اسحاق طاہر تھے، جب انہیں ٹکٹ نہ ملا تو ناراض ہو کرتحریک انصاف کے ضلعی جنرل سیکرٹری اور دیرینہ کارکن راجہ آصف لطیف اپنے پچاس سے زائد ساتھیوں اور عہدیداروں کو ساتھ لے کر راجہ فاروق حیدر کے ساتھ جا ملے اورن لیگ کے جلسے میں باقاعدہ شمولیت کا اعلان کر کے تحریک انصاف کی مخالفت میں جاندار تقریریں کیں جس سے حلقے کا توازن بری طرح متاثر ہوا۔ یہ صورتحال پی ٹی آئی کے امیدوار ذیشان حیدر کے لیے خاصی پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے ۔ ہو سکتا ہے اوپر بیان کی گئی صورتحال کا جواز تحریک انصاف یہ پیش کرے کہ ہم نوجوانوں کو موقع دینا چاہتے ہیںاس لیے مذکورہ افراد کو ٹکٹیں دی گئی ہیں مگر یہ درست نہیں کیونکہ کوٹلی کے حلقہ ایل اے 10 میں تحریک انصاف نے ملک یوسف کو ٹکٹ دیا ہے جو 2016 میں ن لیگ کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑے ، 2011 میں پیپلز پارٹی اور 2006 کا الیکشن پیپلزمسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے لڑے ۔یعنی پچھلے تین الیکشن تین مختلف پارٹیوں سے لڑے مگر کبھی نہیں جیتے اور ماضی کا سارا بوجھ اٹھا کر اب تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اسی طرح ایل اے 13 کوٹلی میں سابق وزیر محمد رفیق نیر ٹکٹ کے مضبوط امیدوار تھے لیکن یہاں ڈاکٹر انصر ابدالی کو ٹکٹ دے دیاگیاجو پہلی دفعہ الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ یعنی یہاں بھی حلقہ دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔وادی ٔنیلم میںایل اے 25 سے مسلم لیگ ن کے سپیکر شاہ غلام قادر الیکشن لڑ رہے ہیں ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی نے ایک ایسے بزرگ امیدوارسردار گل خنداں کو ٹکٹ دیا ہے جن کی شہرت تو اگرچہ بری نہیں لیکن وہ پچھلے بیس سال سے سیاست چھوڑ چکے ہیں ، عمر پچھتر کے لگ بھگ ہو گی، مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا کرتے تھے اب پی ٹی آئی میں آئے ہیں ۔ان کی انہی کمزوریوں کو شاہ غلام قادر سیاسی اور انتخابی فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیںاور کہتے پھرتے ہیں کہ اتنا بوڑھا آدمی تمہارے لیے کیا کرے گا۔ پھر ایک اور مسئلہ بھی ہے پاکستان تحریک انصاف کے کئی امیدوار خود کو نامزد وزیراعظم بتا کر ووٹ مانگ رہے ہیں ۔ سردار تنویر الیاس باغ سے مشتاق منہاس کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ حلقے میں تنویر الیاس وزیر اعظم کے نعرے لگ رہے ہیں یا یوں کہیے کہ یہ نعرے خود لگوائے جا رہے ہیں ۔ا س سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں اگر ہمارے حلقے کا آدمی وزیر اعظم بن رہاہے تو پھر اسے ہی ووٹ ڈالنا چاہیے یوں وزیر اعظم کے حلقے سے محرومیاں تو ضرور دور ہوں گی۔ یہی فائدہ میر پور میں بیرسٹر سلطان محمود بھی اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ان کے حلقے کے لوگ سمجھتے ہیں کہ سلطان محمود وزیر اعظم بننے والے ہیں اس لیے ان کے لیے وزیر اعظم کے نعرے لگا رہے ہیں ۔ بھمبر میں بھی چودھری انوار الحق خود کو وزیر اعظم بتا کر کیمپین کر رہے ہیں ۔ اس حکمت عملی کا ایک فائدہ تو تحریک انصاف کو ہو سکتا ہے کہ یہ تینوں امیدوار اپنے اپنے حلقے میں خود کو وزیر اعظم بتا کر سیٹ جیت جائیں مگر دوسری طرف اگر سلطان محمود پر نو وارد سردار تنویر الیاس کو ترجیح دے دی گئی تو نظریاتی کارکن کے شکوے بجا ہوں گے اور اگر سلطان محمود کو وزیر اعظم بنایا گیا تو خدشہ ہے کہ تنویر الیاس اسلام آباد میں ڈیرے ڈال لیں گے جہاں ان کا گھر اور کاروبار ہے ۔ یوں ان کا حلقہ شدید متاثر ہو گا جس کا نقصان اگلے الیکشن میں نظر آئے گا۔ صاف نظر آتا ہے کہ پی ٹی آئی اس سے بہتر انتخابی حکمت عملی بنا سکتی تھی لیکن معاملات علی امین گنڈاپور کے سپرد کر دیے گئے ، حکومت تو تحریک انصاف شاید اب بھی بنا لے گی، لیکن بہتر حکمت عملی کے ساتھ زیادہ نشستیں حاصل کی جا سکتی تھیں ۔