ماہ مقدس رمضان المبارک میں بھی فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر مسلمان ممالک کوئی واضح موقف اختیار کرنے سے قاصر ہیں۔ اہل اسلام کی صفوں میں شدید غم و غضہ پایا جاتا ہے، جس سے اس تلخ حقیقت کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عالم اسلام نہیں بلکہ عالم اسلام کے حکمران کسی کٹھ پتلی سے زیادہ کا درجہ نہیں رکھتے۔کسی بھی اسلامی ریاست کے داخلی معاملات کے صفحات پلٹ لیجیے ایک ہی مرض وبا کی شکل میں سامنے آئے گا یا تو او آئی سی میں شامل تمام مسلمان ممالک کے سربراہان کمزور ہونگے یا عیش و عشرت کے مزے لوٹنے کے سوا انھیں کسی کام کی فرصت نہیں۔ اہل اسلام نے اب کی بار البتہ اسرائیلی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے صیہونیوں کو ناکوں چنے ضرور چبوانے ہیں، یہ بات خوش آئند ہے کہ مسلمان بچے اور خواتین خصوصی طور پر اسرائیلی کمپنیوں کی مصنوعات کی خریداری کے بائیکاٹ میں پیش پیش ہیں۔ پوری دنیا میں نہتے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے پر شدید غم و غضہ اور بے چینی پائی جاتی ہے، سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو نہ کرنے کے امریکی عمل کے پشت پر بھی کچھ ایسے ہی محرکات ہیں۔ ایک جانب امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے کہہ دیا ہے کہ امریکا "واضح’’ ہے؛ رفح میں آپریشن اور فوجی کارروائی ایک "بڑی غلطی’’ ہوگی، انھوں نے کہا: میں نے نقشوں کا مطالعہ کیا ہے، ان لوگوں کے جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور ہم رفح میں تقریباً ڈیڑھ ملین لوگوں کو دیکھ رہے ہیں جو وہاں موجود ہیں کیونکہ انہیں وہاں جانے کے لیے کہا گیا تھا، انہوں نے کہا کہ ہم بالکل واضح ہیں کہ کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی کے ساتھ رفح میں جانا ایک غلطی ہوگی، جبکہ دوسری جانب امریکیوں کی اکثریت غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کو ناپسند کر رہی ہے۔ امریکا میں مقیم پولسٹر گیلپ کے ایک نئے سروے کے مطابق 55 فیصد امریکی غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائی کی مخالفت کرتے ہیں۔ گیلپ نے نتیجہ اخذ کیا کہ نومبر کے بعد سے یہ ایک بڑی تبدیلی ہے جب نصف امریکیوں نے غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کی منظوری دی تھی اور اس وقت 45 فیصد نے نامنظور کیا تھا، امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امریکی پچھلے چار مہینوں کے دوران اسرائیل کی کارروائیوں پر زیادہ تنقید کر رہے ہیں، پولز کے مطابق ڈیموکریٹس کے درمیان اسرائیل کے اقدامات کی منظوری میں 18 فیصد کمی آئی ہے جبکہ ریپبلکنز کی منظوری میں 7 فیصد کمی آئی ہے۔ امریکی رائے عامہ میں یہ تبدیلی اس وقت آئی ہے جب امریکی حکومت اپنے اتحادی اسرائیل کے ساتھ اپنی مایوسی کا کھل کر اظہار کر رہی ہے۔درحقیقت اسرائیلی بربریت نے پوری دنیا پر سکتہ طاری کر دیا ہے، عام لوگ بھی فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر شدید سیخ پا ہیں۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندے فرانسسکا البانیس نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی میں نسل کشی کر رہا ہے؛ اس پر یقین کرنے کی "مناسب بنیادیں’’ موجود ہیں، جنیوا میں نتائج پیش کرتے ہوئے البانی نے کہا ہے کہ 25,000 ٹن دھماکا خیز مواد جو دو ایٹم بموں کے برابر ہے کو غزہ کے پورے علاقوں کا صفایا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے، جس سے تقریباً تمام شہری بنیادی ڈھانچے اور زرعی اراضی، زیادہ تر گھروں، صحت کی سہولیات کو شدید نقصان پہنچا ہے، 6 ماہ سے بھی کم عرصے میں اسرائیل نے غزہ کو تباہ کر دیا ہے، ساتھ ساتھ ٹیلی کمیونیکیشن انفراسٹرکچر، ہر یونیورسٹی، زیادہ تر تعلیمی سہولیات اور بے شمار ثقافتی ورثے کے مقامات کو بھی نقصان ہوا۔ البانی کا کہنا ہے کہ اس کی رپورٹ میں یہ یقین کرنے کے لیے "مناسب بنیادیں’’ ملی ہیں کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کی ہے، اسرائیل نے نسل کشی کی تین کارروائیوں کا ارتکاب کیا ہے، جس سے گروپ کے ارکان کو شدید جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچایا گیا ہے، جان بوجھ کر ایسے اقدامات مسلط کیے گئے جن کا مقصد بچوں کی پیدائش کو روکنا ہے۔ اسرائیلی جرائم اتنے سنگین اور انسانیت کو شرما دینے والے ہیں کہ یونین آف میڈیکل کیئر اینڈ ریلیف آرگنائزیشنز کی ڈاکٹر عالیہ خان نے انکشاف کیا کہ اسرائیلی فوجیوں نے ہسپتالوں میں خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا، الخیر ہسپتال میں اسرائیلی فوجی 1 خاتون کو 2 دن تک زیادتی کا نشانہ بناتے رہے، اسرائیلی فوجیوں نے نصیر ہسپتال میں ایک خاتون کو اس کے بھائی اور شوہر کے سامنے برہنہ کیا، بھائی اور شوہر نے اپنے کپڑوں سے ڈھانپنے کی کوشش کی تو اسرائیلی فورسز نے دونوں بھائیوں کو فائرنگ کر کے شہید کردیا۔ فی الوقت دنیا اور اسلامی ممالک کی خاموشی کے باعث سلامتی کونسل کی جانب سے جنگ بندی کی قرارداد مظلوم فلسطینیوں کے مسائل کا جزوی حل ہوسکتا ہے کیونکہ جنگ بندی کی قرارداد ویٹو نہ کرنے کے باوجود امریکہ کی اسرائیل کو ہتھیاروں کی سپلائی جاری ہے حالانکہ حماس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کا خیر مقدم کیا ہے لیکن ساتھ ہی اپنے موقف پر بھی زور دیا ہے جو اس نے جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی پر بات چیت کے دوران رکھی ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ ہم ایک مستقل جنگ بندی تک پہنچنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جو غزہ کی پٹی سے تمام اسرائیلی افواج کے انخلاء اور بے گھر افراد کی اپنے گھروں کو واپسی کا باعث بنے گی، ہم فوری طور پر قیدیوں کے تبادلے کے عمل میں شامل ہونے کے لیے اپنی تیاری کی تصدیق کرتے ہیں جس سے دونوں طرف کے قیدیوں کی رہائی ممکن ہو سکے لیکن اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اعلیٰ معاونین کے واشنگٹن کا دورہ منسوخ کرنے کا مقصد حماس کو ظاہر کرنا تھا کہ اسرائیل غزہ میں جنگ روکنے کے لیے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کے سامنے نہیں جھکے گا۔ اسرائیلی اقدامات بالخصوص رفح کے محاذ پر فوجی کارروائی کی غلطی البتہ نام نہاد ناجائز اسرائیلی ریاست کے نست و نابود ہونے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔