سانپ ایک زہریلا جانور ہے۔ ایک ایسا انتہائی خطرناک رینگنے والا جانور ،جو دنیا میں سالانہ چون (54) لاکھ لوگوں کو کاٹتا ہے۔ جن میں تقریباً پچیس (25) لاکھ لوگوں کو سانپ کے کاٹنے سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ہر سال سوا سے ڈیڑھ لاکھ لوگ سانپ کے کا ٹنے سے مر جاتے ہیں جب کہ اس سے تین گنا یعنی تقریباً چار لاکھ لوگ کسی نہ کسی صورت میںکسی معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔دنیا میں سانپ کی تقریباًچار ہزار (4000)اقسام پائی جاتی ہیں۔ ان میں صرف چھ سو (600)اقسام زہریلے سانپوں کی ہیں اوران چھ سو میں دو سو اقسام کے سانپوں کا زہر انتہائی مہلک ہوتا ہے۔باقی سانپوں کا زہر کم مہلک ہوتا ہے۔مگر سانپ زہریلا ہو یا نہ ہو، یہ ڈر اور خوف کی علامت ہے۔لیکن دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو سانپ کو خوش بختی ، خوشحالی اور بہتری کی علامت سمجھتے اور بہت سے لوگ اس کی پوجا بھی کرتے ہیں جن میں ہندو بھی شامل ہیں جو سانپ کو اپنا دیوتا مانتے ہیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ برازیل کے جنگلات میں دس لاکھ سے زیادہ سانپ پائے جاتے ہیںاور دنیا میں سب سے زیادہ اقسام کے سانپ بھی برازیل کے د ریائے ایمیزن و الے علاقے رین فارسٹ (Rain Forest) میں پائے جاتے ہیںکیونکہ یہ دلدلی علاقہ سانپوں کی افزائش کے لئے بہترین اور بہت زرخیزہے۔یہاں چھوٹے چھوٹے بے ضرر سانپ بھی ہوتے ہیں اور دنیا کے انتہائی زہریلے سانپ بھی۔رین فارسٹ کے علاوہ برازیل کے صحرائوں، باغوں اور شہری علاقوں میں بھی بہت سی اقسام کے سانپوں کی بہتات ہے۔دنیا کے بہت سے علاقے ایسے بھی ہیں جہاں سانپ نہیں ہوتااور یہ علاقے ہیں آئر لینڈ(Iareland) ، آئس لینڈ(Iceland) ، گرین لینڈ(Green Land)، نیوزی لینڈ (New-Zeland) ، انٹار کٹکا (Antarcatca) اور بہت سے چھوٹے جزائرہیں۔ یہاں کوئی سانپ نہیں ہوتا۔ یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ نیوزی لینڈ کے قریب واقع آسٹریلیابے پناہ سانپوں کا مسکن ہے مگر نیوزی لینڈ سانپوں سے مکمل پاک ہے۔ سانپوں کے بارے میں مشہور ہے کہ سانپ اندھے اور بہرے ہوتے ہیںیہ نہ تو دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی سن سکتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ اس کی نظر کچھ کمزور ہوتی ہے مگر یہ اپنی زبان جب اندر باہر کرتا تو زبان کی حرکت اس کی بصارت کو بہتر کرنے میں معاون ہوتی ہے۔ زبان کی مدد سے بھی یہ بہت سی چیزوں کو محسوس کرتا اور ان کا سراغ لگاتا ہے۔سننے کے لئے اس کی جلد کام آتی ہے آواز کی لہریں زمین پر موجود اس کی جلد سے ٹکرا کر آواز کو اس تک پہنچاتی ہیں۔چنانچہ یہ ہر چیز سن لیتا ہے۔سانپ ایک رینگنے والا جانور ہے مگر ہر رینگنے والا جانور سانپ نہیں ہوتا۔چھپکلی کی سترہ (17) قسمیں ایسی ہیں جن کی ٹانگیں نہیں ہوتیں اورجو سانپ کی طرح رینگتی ہیں۔ دنیا کاسب سے بڑا سانپ گرین اینا کونڈاہے ۔یہ تیس (30) فٹ لمبا اور پانچ سو پچاس (550)پونڈ وزنی ہوتا ہے اور اس کی موٹائی ایک فٹ تک ہوتی ہے۔اس طرح کی مختلف نسلوں کے چھ بڑے سانپ زہریلے تو کن ہوتے ہیں مگر یہ اپنے شکار کو جکڑ کر اتنے زور سے دباتے ہیں کہ اس کا دم گھٹ جاتا ہے۔ خصوصاً شکار کے دماغ کو قابو کرکے اسے مکمل کچل دیتے ہیں۔دنیا کا سب سے چھوٹا سانپ باربودہ کے علاقے میں پایا جاتا ہے جس کی زیادہ سے زیادہ لمبائی فقط چار انچ ہوتی ہے۔دنیا کا سب سے خطرناک سانپ سا سکیلڈ واپر (Saw Scaled Viper) ہے۔یہ بہت سے سانپوں کی نسبت کم زہریلا ہے مگربہت متحرک اور بڑھ کر حملہ کرنے والا ہے۔اس کے پاس سے گزرنے والا اس سے بچ نہیں پاتا۔ یہ اپنے شکار پر بار بار حملہ کرتا اور اپنی جگہ جما رہتا ہے۔ اس کا زہر ایک وقت میں چھ آدمیوں کو مارنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہ آسٹریلیا میں عام پایا جاتا ہے۔ افریقہ کے علاقے میں ایک خطرناک سانپ پایا جاتا ہے جسے بوم سلانگ(Boom Slang) کہتے ہیں۔ بوم سلانگ کسی افریقی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے درختوں کا سانپ۔ یہ انتہائی زہریلا مگر ڈرپوک سانپ ہے۔ سبزی مائل کا یہ سانپ پرندوں کے گھونسلوں میں چھپ کر رہتا ہے۔ یہ اسقدر زہریلا سانپ ہے کہ اس کے کاٹنے سے انسانی خون کے سارے کلوٹ ختم ہو جاتے ہیںاور خون تیزی سے تمام انسانی سوراخوں سے خارج ہونا شروع ہو جاتا ہے جس سے انسان کی فوری موت ہو جاتی ہے۔اس کا رنگ چونکہ سبز ہوتا ہے اس لئے عام طور پر درختوں کی شاخوں اور پتوں میں اس کی موجودگی کا پتہ نہیں چلتا ۔اس لئے اس کا شکار پر حملہ آسان ہوتا ہے مگر بزدل ہونے کے سبب یہ شکار پر اسی وقت حملہ کرتا ہے جب اسے یقین ہو جائے کہ کوئی اسے مارنے یا نقصان پہنچانے لگا ہے۔ پاکستان میں بھی سانپوں کی ایک نسل بڑی وافر پائی جاتی ہے اور وہ ہیں آستین کے سانپ۔ ان سانپوں میں زیادہ تر سانپ سیاسی ہوتے ہیںاور ان کی خوبیوں سے واقف ہونے کے باوجود سیاسی پارٹیاں انہیں بڑی رغبت سے پالتی ہیں۔ جب کوئی پارٹی زوال پذیر ہو یا کسی مشکل کا شکار ہو تو اس وقت ان سانپوں کا زہر کھل کر سامنے آتا ہے ۔ یہ سانپ جس تھالی میں کھاتے رہے ہوتے ہیں ایسے حالات میں اپنے ڈنگ سے اسی تھالی کو چھیدو چھید کر دیتے ہیں۔یہ کئی سال ایک لیڈر کی قیادت میںکام کرنے ، اس کی تعریف میں سچ جھوٹ ایک کرنے اور اس سے اپنے مفادات اٹھانے کے بعد اس میں کیڑے نکالنے اور اپنا ہلکا ظرف ظاہر کرنے میں کچھ برا محسوس نہیں کرتے۔ان کے نئے سپیرے ان کے جوہر سے آشنا ہونے کے باوجود ان کی ایسی خوبیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مزے کی بات کہ سانپوں کی یہ نسل احساس سے بالکل پاک ہے، بالکل اسی طرح جس طرح نیوزی لینڈ سانپوں سے پاک ہے۔ چند سال پہلے میں نے بھارت کے شہر گورداسپور میں پنجابی کی ایک نظم پڑھی تھی جس کا ایک شعر ہے، سارے لیڈر سپ تے بچھو دیندے ہر دم دھوکے مینوں دعا ہے کہ پاکستان ہر طرح کے سانپوں سے محفوظ رہے۔ سانپ تو اپنا کام دکھا کر چلے جاتے ہیں مگر جو زہر کسی جسم میں سرایت کر جاتا ہے وہ اس جسم کو سالوں تک نقصان میں مبتلا رکھتا ہے۔