پاکستان ایک بار پھر افغان طالبان کو نئے حالات سے ہم آہنگ ہونے اور بین الاقوامی برادری کے خدشات سے آگاہ کرنے کے لئے سرگرم ہوا ہے۔وزیر داخلہ خواجہ آصف اور انٹیلی جنس چیف لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم دیگر رفقا کے ساتھ کابل پہنچے، طالبان قیادت نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔دونوں ہمسایہ برادر ملکوں کے پاس اتفاقی طور پر ایسی بہت سی چیزیں جمع ہو گئی ہیں جو ان کے باہمی تعلقات کو مضبوط تر بنا سکتی ہیں۔ دونوں سکیورٹی ‘ علاقائی تجارت اور بین الاقوامی امن کے سلسلے میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام سکتے ہیں بات کئی حوالوں میں پھیلانے کی بجائے اگر صرف ایک نکتے میں سمیٹ دی جائے تو جان لینا چاہیے کہ معاملہ نہایت سنجیدہ اور اہم ہے۔اتنا اہم کہ پاکستان فیصلہ کن بات کرنے کے لئے کابل سے رابطے کر رہا ہے ۔ ان ملاقاتوں کے بے نتیجہ رہنے سے سکیورٹی کے نئے چیلنج لاحق ہو سکتے ہیں۔ پاکستان نے طالبان حکام کے سامنے انسداد دہشت گردی اور ٹی ٹی پی کی جانب سے افغان سرزمین استعمال کرنے کا معاملہ اٹھایا۔پاکستان نے بتایا کہ اسے ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں سے اپنی سرزمین پر بد امنی کے خطرات کا احساس ہو رہا ہے۔طالبان حکام کو باور کرایا گیا کہ ٹی ٹی پی فکری اعتبار سے خود کو تحریک طالبان افغانستان کے ساتھ جوڑتی ہے اور بقائے باہمی کے لئے طالبان کی پیروی کرتی ہے۔طالبان حکام کو بتایا گیا کہ تحریک طالبان پاکستان نے افغانستان میں پناہ گاہیں اور خفیہ ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔پاکستانی وفد نے واضح کیا کہ جوابدہی نہ ہونے اور ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو گنجائش فراہم کر کے غلط حکمت عملی استوار کی جا رہی ہے۔ ملاقات کی تفصیلات سے واقف ذرائع بتاتے ہیں کہ افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی (جی ڈی آئی) نے پاکستانی وفد کی شکایات پر اعتراف کیا کہ افغان سرزمین پر دہشت گردی کا مسئلہ موجود ہے۔ایجنسی نے پاکستانی حکام کو اس سلسلے میں بریفنگ دی۔جی ڈی آئی کی طرف سے دہشت گردی کے انسداد کے متعلق کچھ تجاویز پیش کی گئیں لیکن ان تجاویز میں کئی خامیاں ہیں۔پھر یہ تجاویز پاکستان کے خدشات دور نہیں کرتیں اس لئے پاکستان کے لئے تسلی بخش نہیں۔دوسری طرف پاکستان کی پریمئر انٹیلی جنس ایجنسی نے افغان حکام کے سامنے اس بات کے ٹھوس شواہد رکھے کہ پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث تحریک طالبان پاکستان کی قیادت افغانستان میں موجود ہے‘ بلکہ ٹی ٹی پی قیادت کے ٹھکانے کی نشاندہی تک کر دی۔اس کے بعد ٹی ٹی پی کیخلاف کارروائی نہ کرنے کا جواز باقی نہیں رہتا ۔ یہ امر اپنی جگہ مسلم ہے کہ پاکستان افغان سرزمیں پر اپنے ہاں بد امنی پھیلانے والے عناصر کے خلاف کارروائی کی استعداد رکھتا ہے لیکن وہ ایسا کر کے افغان طالبان کی مشکلات بڑھانے کا ارادہ نہیں رکھتا ۔ پاکستانی وفد نے برادرانہ محبت برقرار رکھتے ہوئے افغان حکام کو باور کرایا ہے کہ ان کی جانب سے خیر سگالی کے مظاہرے کو کسی کمزوری پر محمول نہ کیا جائے۔پاکستان ٹی ٹی پی کے خلاف سخت کارروائی کر سکتا ہے۔کچھ مدت سے سرحد پر افغان فورسز کی اشتعال انگیز کارروائیاں تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ پاکستانی وفد نے اس پر اپنی تشویش افغان حکام کے روبرو رکھی ہے۔افغان حکام نے سرحد پر اپنے شہریوں کے ساتھ سختی اور بدانتظامی کی شکایت کی تو پاکستانی حکام نے اسے سختی سے مسترد کر دیا۔افغان حکام کو بتایا گیا کہ سرحد کے آرپار جانے کے کچھ بین الاقوامی اور دو طرفہ طے شدہ ضابطے ہیں۔پاکستان پہلے ہی افغان شہریوں کے لئے کئی امور میں نرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور قانونی طور پر پاکستان داخل ہونے والوں کی ہر ممکن مدد کر رہا ہے۔ افغان سرحد کے پار ہمارے بھائی رہتے ہیں۔پاکستان مسلسل بدامنی ،جنگ اور خانہ جنگی میں مبتلا افغان بھائیوں کی اپنے وسائل ناکافی ہونے کے باوجود مدد کرتا آیا ہے۔پاکستانی سماج میں بہت سے مسائل افغان شہریوں کے غیر قانونی داخلے اور غیر قانونی سرگرمیوں سے پیدا ہوئے ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ اس سارے ایثار کے باوجود افغان حکومتیں پاکستان کے متعلق دوستانہ اور برادرانہ جذبات کا کھل کر اظہار نہیں کرتیں۔ جو لوگ پاکستان سے گلہ کرتے ہیں ان کے لئے تاریخ کی تصویر کو الٹا کر کے دیکھ لیتے ہیں۔تصور کریں کہ سوویت قبضے کے دوران پاکستان افغانستان کے معاملات سے الگ تھلگ رہتا‘ اپنی سرحدوں کو مہاجرین کے لئے بند کر دیتا۔ادویات‘ خوراک‘ دفاعی سامان اور انٹیلی جنس کے شعبوں میں کوئی مدد نہ کرتا تو اس جنگ کا انجام کیا ہوتا۔ایک تخیلی خاکہ بنا کر دیکھیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہونے پر پاکستان ایک بار پھر سرحدوں کو بند کر دیتا۔نہ کوئی کوئٹہ آ سکتا نہ اسے پشاور میں پناہ ملتی۔ جو علاقائی ممالک تعمیر نو کے نام پر کچھ رقم دے رہے تھے وہ پناہ گزین قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔خیر پاکستان نے جو کیا اس سے افغان طالبان اور سابق افغان حکومت واقف ہے۔مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ افغان طالبان ابھی تک نظریاتی دھوکہ دینے والے عسکریت پسند گروہوں کو اپنا فکری اتحادی سمجھ رہے ہیں۔افغان طالبان نے پہلے بھی غلطی کی اور پاکستان کے مشورے نظرانداز کر کے نقصان اٹھایا‘ اب ایک بار پھر یہی غلطی کی جا رہی ہے۔ میں افغان ایشو کو اس وقت سے بغور دیکھ رہا ہوں جب جنرل باجوہ آرمی چیف بنے اور انہوں نے انٹیلی جنس چیف کے ہمراہ افغان اور امریکی حکام سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔ان مذاکرات سے افغان تنازع کا حل بات چیت سے نکالنے کا راستہ برآمد ہوا۔ طالبان اور افغان فورسز نے جب ایک دوسرے کے خلاف فائر بندی کا اعلان کیا تو یہ پاکستان کی کوشش تھی۔پھر امریکہ کا انخلا جس طرح ممکن ہوا اس میں پاکستان کا کردار بنیادی تھا۔ پاکستان کی معاشی ترقی میں بدامنی ایک بڑی رکاوٹ بن کر ابھری ہے۔ بدامنی پھیلانے والی قوتیں کوئی بھی ہوں ان کا انسداد ضروری ہو چکا ہے۔ پاکستان نے افغان طالبان کے سامنے مکمل صورت حال رکھ دی ہے۔ایک دوسرے سے تعاون ہی امن بحال کرنے کا راستہ کھول سکتا ہے۔