وہ شخص کس قدر سفاک ہو گا ، اس میں انسانیت کی کوئی رمق بھی نہیں ہو گی، مسلمان ہونا تو دور کی بات ہے۔اس نے جو کیا وہ سفاکی ہے، بربریت ہے ، انتہائے ظلم ہے۔انسانیت کے خلاف ہے۔ 55 سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کر دینا اور 80 سے زائد کو زخمی کر دینا،افسوسناک ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے۔ وہ شخص یقیناً ایک درندہ تھا۔ انسان تو ایسی سوچ رکھ ہی نہیں سکتا۔باجوڑ کے علاقے تحصیل خار میںجمعیت علمائے اسلام (ف)کے کنونشن میں جب جلسہ ہو رہا تھا، اس وقت اس شخص نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جس کے نتیجے میں یہ ہلاکتیں ہوئیں اور جمعیت کے کچھ مرکزی رہنما بھی اس دھماکے کے نتیجے میں جان سے گئے۔ اس سانحہ سے ڈیڑھ سو سے زیادہ خاندان عملی طور پر بے آسرا ہو گئے ہیں۔ ان کی مشکلوں اور ان کے کرب کو کوئی دوسرا جان ہی نہیں سکتا۔بیوہ عورتوں کا کیا مستقل ہو گا، چھوٹے چھوٹے بچے جو ہتیم ہو گئے ان کا کون والی وارث ہو گا۔کوئی نہیں جانتا۔ایک چھوٹا بچہ جو چپس بیچ رہا تھا وہ بھی اس حادثے کا شکار ہوا۔ اس کے گھر میں کس قدر غربت ہو گی کہ ایک ایسا بچہ جس کے پڑھنے اور کھیلنے کے دن تھے ، مشقت میں مصروف تھا مگر گھر کے مکین اس سہارے سے بھی محروم ہو گئے۔ سیاستدانوں کے وقتی بیانات آرہے ہیںجو ہمیشہ کی طرح روایتی ہیں کہ دہشت گردی کا قلع قمع کیا جائے گا، تخریب کاروں سے آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے گا۔مگر جن پر بیتتی ہے وہی حالات کا جبر جھیلتے ہیں، کون کسی کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے۔چند دن میں سب اس حادثے کو فراموش کر دیں گے، ماسوائے ان کے جن کے پیارے ان سے بچھڑ گئے۔پولیس کے کئی جوان بھی یقیناً اس حادثے میں نشانہ بنے ۔میں نے ایک ڈی ایس پی کو سوشل میڈیا پر روتے ہوئے دیکھا۔ اپنے پیاروں اور ساتھیوں کی ہلاکت بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ ایسے حادثے روز ہوتے ہیں مگر افسوس کہ کوئی سوچتا ہی نہیں کہ ان سانحات کی وجہ کیا ہے اور وہ جو اس درندگی کا اظہار کرتے ہیں ،ان کے اندر اس نظام کے خلاف اس قدر نفرت کیوں ہوتی ہے۔سیاست بڑی سفاک ہے اور یہ سب کچھ کیا دھرا سیاست ہی کا ہے۔ اپنے ذاتی مفادات کے لئے سیاست دانوں کے ایک گروہ کے لوگ دوسروں کے مفادات قربان کر دیتے ہیں۔ جن کے مفادات کو ضرب پہنچتی ہے اور انہیں اظہار کا کوئی وسیلہ نظر نہیں آتا وہ نفرت کا اظہار کرتے اور بعض اس نفرت کے ہاتھوں بڑی دور نکل جاتے ہیں۔ اخبارات میں روز دیکھتا ہوںخبر وہی ہوتی ہے۔ صرف افراد کے نام مختلف ہوتے ہیں،دھماکے کا مقام مختلف ہو جاتا ہے، دہشت گردی اور دہشت گردوں سے لڑائی یا مقابلے کا مقام بدل جاتا ہے۔کہیں میرے پولیس کے جوان جان دیتے ہیں، کہیںمیری فوج کے اور کہیں رینجر کے ۔روز میری قوم کے چار پانچ جوان، میرے بیٹے، میرے بھائی، کسی مقابلے میں شہید ہو جاتے ہیں، مارے جاتے ہیں۔کوئی میجر تھا، کوئی کیپٹن تھا، کوئی سینئر تھا اور کوئی سپاہی یا چھوٹے رینک کا عہدیدار تھا، کوئی پولیس کا عہدیدار تھا۔مگر سبھی اس قوم کے بیٹے تھے۔میرے بیٹے تھے، میرے بھائی تھے۔ ان کے مرنے کا دکھ میرا دکھ ہے ، میں روز جیتا اور روز مرتا ہوں مگر یہ وحشت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ میرے یہ جوان ہر طرح سے جوان ، عمر کے لحاظ سے بھی اورجذبوں کے پیمانے سے بھی ۔ابھی ان کی مرنے کی عمر تو نہیں تھی۔ کسی دوسرے دشمن ملک سے بھی ان کا سامنا نہیںتھا۔کتنے چائوسے ماں باپ اور دیگر عزیزوں نے اسے فوج میں بھیجا تھا، پولیس میں بھرتی کرایا تھاکہ سرحدوں کی حفاظت کریں،ملک میں نظم ونسق کو کنٹرول کریں، مگر یہ سرحد سے بہت اندر ، اپنی ہی پناہ گاہ میں اپنوں ہی سے لڑتے جام شہادت نوش کر گئے۔مارنے والے اور مرنے والے دونوں اسی مٹی کے تھے۔مرنے والے جیسے بھی تھے ہمارے اپنے ہی بیٹے تھے۔خود کش حملوں میں جو مارے جاتے ہیں ان کا کیا قصور ہوتا ہے جو ان کی جان اس طرح ضائع ہو جاتی ہے۔ مگر کیا کیا جائے نفرتیں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ نفرت کے اس دریا کو عبور کرنا اب محال نظر آتا ہے۔مگر کب تک۔ آخر ایک دن ہمیں سوچنا ہو گا کہ ان نفرتوں کے دریا کو پاٹ دیا جائے تو سب کے حق میں بہتر ہے اور یہ سوچنا اس قوم کے حکمرانوں کو ہو گا۔جو اس صورت حال کے اصل ذمہ دار ہیں۔انہیں احساس ہی نہیں کہ اصل ظلم توفوج ،رینجر اور پولیس کے ساتھ ہو رہا ہے۔ وہ سبھی اک نہ چاہے دشمنوں کے خلاف مجبوری میں بر سر پیکار ہیں۔ ہماری غلطیوں کی قیمت انہیں چکانی پڑ رہی ہے۔ نفرت کی اس خلیج کو ختم کرنے کے لئے پہلا قدم حکومت کو اٹھانا ہوتا ہے مگر اس حکومت میں وہ فہم اور ادراک ہی نہیں ۔ دوسرے یہ حکمران تو بدلے کی آگ سے تپ رہے ہیں۔ انہیں فقط اپنے خلاف کیسوں کو ختم کرنے کی جلدی ہے۔ انہیں اس ملک کے مستقبل سے کوئی غرض نہیں۔ وہ تو دورے پر پاکستان آتے ہیں اگر اقتدار ان کے پاس ہو تو سرکاری خرچ پرپاکستان میںٹھہرنا تھوڑا زیادہ ہوتا ہے کیونکہ سرکاری اخراجات پر موجیں اڑانا تو ہمارے حکمرانوں کا وطیرہ ہے۔ یہ موجیں کسی دوسرے ملک کے حکمرانوں کو میسر نہیں۔ ہاں جب کبھی یہ اقتدار میں نہیں ہوتے اور انہیںپاکستان ذاتی خرچ پر آنا پڑ تا ہے تو بس چھ ماہ میں ایک آدھ چکرلگاتے ہیں، چھوٹے چھوٹے مفادات کی نگہبانی ہو جاتی ہے اور عوام سے رابطہ سا بھی کسی حد تک رہ جاتا ہے۔اگلے الیکشن تک لوگوں کو نظر نہ آنے کا گلہ بھی نہیں رہتا۔بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے ۔ وہ کوئی موقع کبھی ہاتھ سے جانے نہین دیتا۔ ہماری اندرونی جنگ ہمیں کمزور کر رہی ہے۔ فوج اور عوام کا رابطہ بہتر نہیں رہا۔ حال ہی میں بھارت کی سازش کے نتیجے میں ٹوئٹر انتظامیہ نے گلگت بلتستان کو مقبوضہ کشمیر کا حصہ ظاہر کیا گیا ہے۔بتایا جا رہا ہے کہ گلگت بلتستان کی لوکیشن سے کی جانے والی ٹویٹس کو مقبوضہ کشمیر میں ظاہر کیا جا رہا ہے۔حالانکہ کشمیر میں ایک عرصے سے انٹر نیٹ پر پابندی ہے۔گلگت بلتستان میں حکومت پاکستان کے آفیشل ٹوئٹر اکائونٹ تک رسائی بھی ختم کر دی گئی ہے اور صارفین کی لوکیشن مقبوضہ کشمیر میں دکھائی جا رہی ہے۔صارفین کا کہنا ہے کہ بھارت کے اثرو رسوخ کے باعث توئٹر نے مبینہ طور پر گلگت بلتستان کی جیو ٹیکنگ میں تبدیلی کی ہے۔کاش ہمارے صاحبان اقتدار حالات کو سمجھ کر بہتری کا کوئی قدم اٹھائیں۔