کوئی ریونیو افسر کتاب کا تحفہ پیش کرے، تو آدمی ذرا متحیر تو ہوتا ہے ، گزشتہ دنوں ہمارے اوقاف کے ایک افسرتیز رفتاری سے آفس میںوارد ہوئے اور انتہائی سُرخ ٹائیٹل سے آراستہ دو کتابیں مجھے تھماتے ہوئے ، فوری اجازت کے خواہاں ہو ئے ۔کتاب دراصل جرمنی ، فرانس اور بیلجیئم کا سفر نامہ تھا ، جواس افسرکے برادرِکلاں ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا کو درپیش ہوا اور ان سفری یادداشتوں کو انہوں نے’’یورپ تیرے رُوپ ہزار‘‘ کے نام سے جمع کردیا ۔ مَیں نے جَستہ جَستہ کتاب کو دیکھنا شروع کیا تو جرمنی کے ساتھ اپنے خطّے کی پرانی یادیں تازہ ہونے لگیں ۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کو کافی نقصان کا سامنا ہوا، جس کی تعمیر نو میں پاکستان نے بھی حصہ ڈالا اور 1963ء میں ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کا چیک پیش کیا، جو کہ ابتدائی طور پر قرض ، لیکن بعد میں جرمن عوام کے لیے اسے تحفہ میں تبدیل کردیا ، جس سے جرمنی کو، اپنے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مدد ملی ، کیا وقت تھا جب وطن ِ عزیز امداد دینے والے ملکوں میں شامل تھا ،ہم خود کفیل تھے،ہم اتنی گندم اور چاول اُگاتے تھے کہ غریب ممالک کو امداد میں یہ اجناس بکثرت فراہم کرتے ، میرا اپنا آبائی علاقہ چاول کی کاشت کے اعتبار سے معروف ہے اور چاول بھی ایسا کہ چولہے پہ چڑھے توخوشبو اردگر د ہمسائیوں تک جائے، ہماری حویلی اور خانقاہ میں ہر آنے جانے والے کے لیے،یہ ایک مستقل تحفہ تھا،اسی طرح دال مسور جو شاید اب تین سو روپیہ فی کلو ہے ،ہمارے محلے میں کسی کوخرید کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی تھی ، یعنی اردگر د میں اس کی ترسیل ، ہمارے گھر سے بکثرت ہوتی ۔ ہمارے شاعر ِ مشرق کو جرمنی سے خصوصی شغف تھا ۔ علامہ اقبال ؒ نے جرمنی میں ہائیڈل برگ کی شہرۂ آفاق میونخ یونیورسٹی سے’’ایران میںفلسفہ مابعد الطبیعات کاارتقائ‘‘کے موضوع پرپی ایچ ڈی کی ۔ یہ جولائی 1907ء کا واقعہ ہے، جب علامہ اقبال ؒ لندن سے ہائیڈل برگ گئے ، ان کو جرمن زبان سیکھنے میں دلچسپی تھی تاکہ وہ اپنے پی ایچ ڈی مقالے کا زبانی امتحان جرمن زبان میں دے سکیں ۔اسی دوران جرمنی شعر و ادب اور فلسفے سے کچھ جذباتی و روحانی وابستگی بھی پیدا ہوگئی ، جس میں ایما ویگے ناست کا بڑا رول تھا ، جو اقبال ؒ کی تقریبا ً ہم عمر تھی ، اقبال ؒ نے انہی سے جرمن زبان سیکھی اور جرمن شاعری اور ادب سے شنا سائی حاصل کی ، مابعد حضرت علامہ ؒ کی اس خاتون سے خط و کتابت کم و بیش چالیس خطوط پہ محیط ہے ، جو ایک الگ سے موضوع ہے ۔ اس شفوی امتحان(VIVA) کے بعد 05 نومبرکو، وہ واپس لند ن پہنچ کر بیرسٹری کے فائنل امتحان کی تیاری میں مصروف ہوگئے اور جولائی 1908ء کو بیرسٹری کی تکمیل کے فوراً بعد وطن واپس روانہ ہوگئے ۔ اس عرصہ میں اقبال ؒ لندن یونیورسٹی میں چھ ماہ کے لیے پروفیسر آرنلڈ کی رخصت کے دوران عارضی طور پر عربی کے پروفیسر بھی رہے ۔ اس عارضی پروفیسری کے سبب ان کی مالی حالت نسبت بہتر ہوگئی ۔ ویسے ان کی تعلیم اور رہائش کے زیادہ تر اخراجات ان کے بھائی شیخ عطا محمد برداشت کرتے تھے۔ اقبال ؒ خود کہتے ہیں کہ گریجوایشن کے بعد میرے برادرِ کلاں میرے وطن واپسی کے خواہاں تھے ، تاہم مَیں نے انہیں لکھا کہ کچھ رقم بھیجئے تاکہ جرمنی جاکر ڈاکٹر ی کی سند لے لوں ۔ ہائیڈل برگ میں اقبال ؒ کی رہائش58 نیو ہائمز لینڈ سٹرا سے پر تھی ، جرمن حکومت نے اقبالؒ کے نام کی تختی اس مکان کی دیوار پر نصب کر رکھی ہے اور دریائے نیکر کادوسرا کنارہ شاہراہِ اقبالؒ کے نام سے منسوب ہے ، یہیں ایک باغ میں پتھر کی ایک بڑی سی سل پر اقبالؒ کی نظم ـ"ایک شام، دریائے نیکر کے کنارے پر " کا جرمن زبان میں ترجمہ کندہ ،جو ایک جواں سال شاعر کے دلی جذبات سے آراستہ ہے ۔ مزید یہ کہ وہ جرمن فلاسفر اور شاعرگوئٹے سے بھی متاثر اور "پیامِ مشرق" میں جس کی تاثیر کہیں کہیں نمایاں ہے ۔ہائیڈل برگ کے سائوتھ ایشین انسٹی ٹیوٹ میں " اقبال چیئر" بھی قائم ہے ۔ جرمن میں اقبالؒ کو پی ایچ ڈی کورسز میں کچھ رعائیت میسررہی ، گمان غالب ہے کہ پروفیسر آرنلڈ سے دوستانہ مراسم کے سبب ،وہ میونخ یونیورسٹی میںان سہولیات سے بہرہ مند ہوئے ۔کیمبرج میں بھی رہائش کے سلسلے میں آرنلڈ نے اقبالؒ کی بڑی مدد کی۔ ایک بڑا مسئلہ ذبیحہ گوشت کا تھا ۔ اس حوالے سے ،اقبالؒ بیان کرتے ہیں :۔ " یورپ میں صرف یہودی اس بات کا خاص طور پر خیال رکھتے ہیں کہ صرف اپنا ذبیحہ کھائیں ۔ چنانچہ ایک اچھے یہودی کے گھر میں میری رہائش کا انتظام کروادیا گیا ۔ ان لوگوں میں بہت سی خوبیاں تھیں ۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد میرا دل ان لوگوں کی طرف سے کھٹا ہوگیا ۔ مجھے معلوم ہوا کہ ہر چیز، جس کی مجھے ضرورت ہوتی تھی اور جس کو میں ان کے ذریعے منگواتا تھا ، یہ لوگ دکانداروں سے کمیشن لیا کرتے تھے ۔ ان کی اسی ایک عادت نے ان کی تمام خوبیوں پر پانی پھیر دیا ۔اقبال ؒ ، یورپ میں بھی طہارت کے لیے پانی استعمال کرنے کی خاطر اپنا لوٹا اپنے ساتھ رکھتے ،چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں :۔"مَیں جب طالب علمی میں انگلستان گیا تو میرا لوٹا میرے ساتھ تھا ۔ مَیں جب کبھی رفع حاجت کے لیے غسل خانے جاتا تو میرا لوٹا میرے ساتھ ہوتا۔میر ی میزبان یعنی مالکہ ٔمکان سے نہ رہا گیا ،مجھ سے پوچھنے لگیں ، یہ چیزتم غسل خانے میں کیوں لے جاتے ہو ؟مَیں نے کہا ، اسلامی طہارت کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ قضائے حاجت کے بعد صرف کاغذ یا مٹی کے ڈھیلے کا استعمال کافی نہیں ہے بلکہ پانی سے استنجا کرنا ضروری ہے ، چنانچہ اس موضوع پر گفتگو شروع ہوئی ، مَیں نے اس کے سامنے طہارت اور غسل کے اسلامی اصول بیان کیے ۔ " لند ن میں اقبال ؒ کا معمول تھا کہ وہ شہر سے اپنی رہائش گاہ تک پہنچنے کے لیے ریل کا سفر کرتے تھے ۔ اس قسم کے ایک سفرکے متعلق وہ بیان کرتے ہیں :۔"انگلستان میں طالب علمی کے زمانے میں مجھے ہر روز شام کے وقت اپنی قیام گاہ کی طرف ریل گاڑی میں سفر کرنا پڑتا۔ ریل کا یہ ٹریک ،ایک جگہ ختم ہو جاتا اور سب مسافروں کو سامنے والے پلیٹ فارم پر دوسری گاڑی میں سوار ہونا پڑتا ۔ گاڑی جب اسٹیشن پر پہنچتی تو گارڈ بلند آواز سے پکارتا "آل چینج" یعنی سب بدلو ۔ ایک روز مَیں حسب معمول گاڑی میں بیٹھا تھا کہ میرے اردگرد اخبار بین مسافر آپس میں بُدھ مذہب کے متعلق باتیں کرنے لگے ۔ ایک صاحب نے میری طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ صاحب غالباً ایشیائی ہیں ، ان سے بدھ مذہب کے متعلق پوچھنا چاہیے۔ چنانچہ مجھ سے پوچھا گیا مَیں نے کہا ، ابھی جواب دیتا ہوں ۔ یہ کہہ کر مَیں چپ رہا ، چند منٹوں کے بعد انہوں نے مجھ سے دوبارہ پوچھا ۔ مَیں نے کہا ، ہاں ۔ اس دوران میں اسٹیشن آگیا ۔ گارڈ "آل چینج" پکارنے لگا ۔ مَیں نے کہا، بس یہی بدھ مذہب ہے ۔"اور اسی کی اس وقت ہمیں اور ہماری قوم کو ضرورت ہے ۔