علم دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے علم حاصل کرنا ہر انسان کے لیے ضروری ہے اسلامی نقطہ نظر سے بھی علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ جناب رسالت مآب ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین تک ہی کیوں نہ جانے پڑے۔ اِس حدیث مبارکہ سے علم کی عظمت اور فضلیت کا پتہ چلتا ہے کہ علم حاصل کرنا مسلمانوں کے لیے بھی کتنا ضروری ہے۔ علم کے زور پرماضی میں مسلمانوں نے زبردست کارنامے سر انجام دیئے مسلمانوں نے جب تک علم کے ساتھ تحقیق کا عمل جاری رکھا تو یورپ بھی مسلمانوں سے علم کا فیض حاصل کرتا رہا لیکن جب ہم نے علم کے ساتھ عمل اور تحقیق کو چھوڑ دیا تو دوسروں کے دست نگر بن گئے علم حاصل کرنے کا سلسلہ پوری دنیا میں جاری ہے اور یہ سلسلہ انسانیت کی بقا اور فلاح کے لیے بہت ہی ضروری ہے ۔ہمارا ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے یہاں پر علم کے بڑے بڑے مراکز ہیں جن میں اسلامی مدارس کے ساتھ مخلوط تعلیم یعنی مردوں اور عورتوں کی اکٹھے تعلیم حاصل کرنے کے بھی بڑے بڑے تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ جامعہ پنجاب گذشتہ ایک سو سال سے تعلیمی انقلاب برپا کر نے میں اپنا ایک نام رکھتی ہے۔ اسی طرح سے اعلیٰ تعلیم کے لیے ملک میں درجنوں یونیورسٹیاں موجود ہیں جو ہمارے طلباء کو علم کے زیور سے آراستہ کر رہی ہیں جبکہ جنوبی پنجاب میں ملتان کے اندر بہاو الدین زکریا یونیورسٹی اور بہاول پور میں اسلامیہ یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے بڑی خدمات ہیں ۔نواب صادق محمد خان عباسی نے 1925ء میں اِس شاندارتعلیمی در س گاہ کی بنیاد رکھی تھی تا کہ بہاول پور سمیت پورے جنوبی پنجاب خصوصاً سرائیکی علاقوں کی پسماندگی کو ختم کرنے کیلئے اُنہوں نے اِس یونیورسٹی کی بنیاد رکھی تھی جو ابتک لاکھوں طلباء و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کر چکی ہے۔ اسلام میں مرداور عورت دونوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے لیکن اِس کے تقاضے مختلف ہیں، عورتوں کی تعلیم کے لیے عورتیں اور مردوں کی تعلیم کے لیے مرد لیکن ہم نے چونکہ دیگر ترقی یافتہ ممالک کی تقلید اور ہاں میں ہاں ملانی ہے اس لیے ہم نے اِس نقطہ کو سمجھا ہی نہیں کہ اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں کم از کم خواتین کے لیے کچھ تو علیحدہ اعلیٰ تعلیمی ادارے بنا دیتے ۔حضرت جنید بغدادی ؒ سے کسی نے سوال کیا تھا کہ کیا مرد استاد عورت کو پڑھا سکتا ہے تو حضرت جنید بغدادی ؒ نے اُس وقت جو جواب دیا تھا وہ قیامت تک کے انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے حضرت جنید بغدادی ؒ نے فرمایا کہ اگر تعلیم دینے والا اُستاد حضرت با یزید بسطامی ؒ ہو اور تعلیم حاصل کرنے والی خاتون حضرت رابعہ بصری ہو اور جہاں پر لیکچر دیا جائے وہ خانہ کعبہ کا صحن مطاف ہو تو پھر بھی یہ جائز نہیں۔ اللہ اکبر یہ ہے بڑے لوگوں کی بڑی باتیں لیکن ہم نے انگریز بننے کے چکر میں اپنی تمام روایات کو فراموش کر دیا ہے اور اب اِن باتوں کو تنگ نظری سمجھتے ہیں اس لیے تو ہمارا ملک 75 برس گزر جانے کے باوجود ترقی نہیں کر سکا ہم ہر شعبے میں زوال پذیر ہو چکے ہیں۔ اسلام کے احکامات نہ ماننے کے نتائج بھی اب تیزی کے ساتھ ہمارے سامنے آرہے ہیں ۔اب جو کچھ اسلامیہ یونیورسٹی میںہوا اور جس طرح سے یونیورسٹی کے چیف سیکورٹی آٖفیسر اعجاز شاہ تسلیم کر رہا ہے کہ دو پروفیسرز حضرات یونیورسٹی میں جو کچھ کرتے رہے ہیں اُس سے انسانیت بھی شرما جائے اور پھر جو انکوائری پروفیسر ڈاکٹر اصغر ہاشمی اور میجر ثاقب نے کی تھی اور اپنی انکوائری رپورٹ وائس چانسلر کو جمع کرائی تھی۔ اُس رپورٹ میں بھی ایک پروفیسر ڈاکٹرابو بکر کے بارے میں انکشافات کئے گئے تھے۔ جو کچھ انہوں نے اپنی انکوائری میں لکھا وہ میں تحریر نہیں کر سکتا لیکن اُس رپورٹ پر بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اور معاملے کو دبائے رکھا گیا ۔اب سوشل میڈیا پر یونیورسٹی کے سابق ٹرانسپورٹ انچارج محمد عبداللہ جس طرح یونیورسٹی کے حالات کا ذکر کر رہا ہے اس کی تحقیقت بھی جانی چاہیے لیکن وائس چانسلرڈاکٹر اطہر محبوب اِن تمام واقعات کی نفی کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف پولیس نے نازیبا ویڈیوز اعجاز شاہ سے برآمد کی ہیں ۔ بہر حال یہ تمام واقعات بڑے افسوس ناک ہیں۔ اُستاد جو روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے اگر وہی غلط راستہ اختیار کر لے تو و الدین اپنی عفت مآب بیٹیوں کو کہاں لے جا کر تعلیم دلوائیں۔ گورنر پنجاب میاں بلیغ الرحمن کا تعلق بھی بہاول پور سے ہے، ہم پہلے بھی اپنے کالم میں اپنے ہی ضلع کی ایک اور یونیورسٹی کے بارے میں بھی اُن کا آگاہ کر چکے ہیں کہ خدارا یونیورسٹیوں میں پروفیسر سے پیپرز بنانے اور پیپر چیک کر کے نمبر دینے کا اختیار ختم کیا جائے۔ یونیورسٹیوں میں علیحدہ بورڈز بنائے جائیں اور ایک یونیورسٹی کے پرچے دوسری یونیورسٹی میں چیک کرائے جائیں۔ اِس قسم کے سینکڑوں واقعات رونما ہو چکے ۔یہ ’’زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشمین‘‘ کے مترادف ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی کی اخلاقی طور پرتباہی میں جتنے بھی بڑے اور اعلیٰ پروفیسر ملوث پائے جائیں اُن کو نہ صرف بر طرف کیا جائے بلکہ ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے تا کہ آئندہ دوسروں کے لیے یہ عبرت کا بعث بن سکے۔ اگر اِس معاملے کو ایسے دبا دیا گیا تو پھر آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کر یں گی۔