بھارت اور امریکہ کے مابین محبت کتنی گہری ہے یہ جنوب مشرقی ایشیا کے مستقبل کے لیئے اہم سوال ہے۔اس سوال کا جواب سب کے پاس ہے لیکن یہ جواب الگ الگ پیرائے میں آ رہے ہیں ۔اس محبت کی حقیقت یہ ہے کہ بھارت امریکہ کو داو لگانا چاہتا ہے ، امریکہ کی خلائی ٹیکنالوجی ، امریکی چھتری کے نیچے کشمیر جیسے تنازعات کا حل اپنی مرضی سے نکالنا اور عالمی تجارت میں اپنا حصہ بڑھانا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت اس کا اتحادی بن کر چین سے سینگ پھنسائے رکھے ، ممکن ہے کسی وقت بھارت کو کہے کہ وہ چین پر حملہ کر دے تاکہ چین کی ترقی کو روس کی طرح روکا جا سکے ۔یہ ایک بڑا مقصد ہے اور امریکہ اس کی خاطر بھارت کی بڑی سے بڑی خواہش پوری کر سکتا ہے، کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اسی سوچ کے تابع پچھلے سال بھارت نے چین کے ساتھ سرحدی علاقوں میں چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی۔سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ بھارت کیا امریکہ کا عالمی شراکت دار بننے کے تقاضے نبھا پائے گا ؟ بھارت کو اپنی ہی آبادی کے ایک حصے کے ساتھ بہت سے مسائل درپیش ہیں ۔ کشمیر ، گورکھا لینڈ ، آسام، جھاڑ کھنڈ ، میزو رام سمیت کئی علاقے ہیں جہاں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں ۔ علاوہ ازیںچین ، پاکستان اور سری لنکا جیسے پڑوسیوں کے ساتھ مسائل ۔ دنیا بھر میں خودمختاری اور قوم پرستی کو کمزور کرنے کا زیادہ تر عالمی لیفٹسٹ ایجنڈا یورپ اور امریکہ کے تھنک ٹینکس کی جانب سے آرہا ہے۔ بھارت جیسے ممالک کو یہ ایجنڈہ ایک چیلنج کے طور پر دیکھتا ہے،ان مسائل کو 'حل کرنے' کے لیے منصوبہ بندی پہیلیوں اور گلوبلسٹ حکومتوں تک محدود ہے۔ کینیڈا کے جسٹن ٹروڈو اور امریکہ کے جو بائیڈن وغیرہ نے اسکرپٹ پر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے انتخابی مہم میں وعدے کر رکھے ہیں۔ 2014 میں بر سر اقتدارآنے والی بھارتی قیادت پچھلے سربراہوں سے تھوڑی تیز تھی۔ وہ برسلز اور نیویارک کی پالیسی پر عمل کرنے کی بجائے جہنم میں حکومت کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور نسل کشی کے مظالم کو چھپانے کے لیئے بھارت میں کام کرنے والی زیادہ تر فاؤنڈیشنز اور تنظیموں کو باہر نکال دیا ۔ان تنظیموں نے امریکی جمہوریت ، معیشت اور معاشرے کو آزادی اور انسانی حقوق کے احترام کے حوالے سے بلند مقام پر پہنچا دیا ہے۔ انہوں نے بھارت میں بھی ایسا ہی کرنے کا ارادہ کیا۔ بی جے پی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے بھارتی سیاست میں مغربی مداخلت کو مؤثر طریقے سے روک دیا ہے۔ آج امریکی سیاست اور بیوروکریسی گلوبلسٹوں کے ہاتھ میں ہے اور فوج اور بین الاقوامی آرڈر نافذ کرنے والے ہتھیار ان کے لیے مسلز کا کام کرتے ہیں۔ اگرچہ امریکہ آزادی کی خواہش مند اقوام کی ہتھاروں سے مدد نہیں کر رہا ، پوری دنیا میں دہشت گرد تنظیموں کی مدد بھی نہیں کی جا رہی لیکن بھارت ایسا کر رہا ہے ،وہ قدامت پسند آبادی کو اپنے ہی قانون کی پاسداری کا کہہ کر نشانہ بنا رہا اور ان کی توہین کر رہا ہے ۔بھارت خطے میں دہشت گردی کا نیٹ ورک رکھنے والی کئی تنظیموں کا سرپرست ہے ۔ وہ خود دہشت گردی کا ارتکاب کرتا ہے اور پھر اس کا الزام پاکستان جیسے پڑوسیوں پر لگا دیتا ہے ۔ یہ امریکہ اور بھارت کی الگ الگ سمتوں کا اظہار ہے ۔ بھارت میں اب صرف انتہا پسند دایاں بازو ہے دائیں اور بائیں ایک ہی قسم کی اسٹیبلشمنٹ کا کم و بیش حصہ ہیں۔ کم نظر، خود پسند ،احمق۔ امریکہ جنوبی ایشیا میں پاکستان جیسا آزمودہ اتحادی رکھتا ہے ۔دونوں نے نئے ورلڈ آرڈر پر اتفاق کیا اور اسے نافذ کیا، یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان تنازعات کے بعد دنیا بھر میں پر امن تعلقات کو مضبوط کرنے کا علمبردار ہے ۔دنیا مانے یا نہ مانے مستقبل کی سفارتکاری و بین الاقوامی تعلقات تجارتی توازن و امن کے ساتھ جڑ جائیں گے ۔جو ملک کم تنازعات میں گھرا ہو گا اس کا اثر و رسوخ بڑھے گا،بھارت داخلی تنازعات کو کم نہیں کر رہا ،جبر سے وہ آوازیں دبا رہا ہے ،مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ کرٹ کیمبل، امریکہ کے انڈو پیسیفک کوآرڈینیٹر برائے نیشنل سلامتی کونسل ہیں، ان کا کہناہے کہ بھارت امریکہ کا اتحادی نہیں ہے اور ایسا کبھی نہیں ہوگاتاہم ایک قریبی پارٹنر ہے۔ بھارت امریکہ کا قریبی ساتھی بھی نہیں ہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ بھارت کبھی بھی امریکہ کا قریبی پارٹنر نہیں ہو سکتا کیونکہ اسے صرف اپنے مفاد سے غرض ہے۔ بھارت دوسرے ممالک میں جاسوسی اور دہشت گردی جیسی گھنائونی وارداتوں میں ملوث ہے، ایسا ملک کسی کا اتحادی کیسے ہو سکتا ہے؟ بھارت نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تمام قراردادوں کی کشمیر میں اور بھارتی پنجاب میں خلاف ورزی کی ہے، اتنی خلاف ورزیاں کرنے والا ملک امریکہ کا اتحادی بن کر امریکہ کی مشکلات بڑھا سکتا ہے۔ بھارت نے اپنے ملک میں مقیم اقلیتوں، بلخصوص مسلمانوں اور سکھوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ بھارت گرگٹ کی طرح اپنا ڈپلومیٹک بلاک تبدیل کرتا رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ بھروسے کے قابل نہیں۔ اگر امریکہ کی بات کی جائے تو بھارت کی سکیمنگ سے امریکیوں کو کروڑوں ڈالرز کا نقصان ہوا ہے ۔ امریکی میڈیا بھارت میں غیر جمہوری طریقوں، اقلیت مخالف اقدامات، پریس کی آزادی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات کر رہا ہے۔ ان مسائل پر امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت امریکہ کا قابل اعتماد اتحادی نہیں۔ایسے ماحول میں چند بڑے اداروں نے بھارت میں اپنا کاروبار شروع کیا ہے جسے بھارت کی کامیابی بتایا جا رہا ہے ۔معاشی مشکلات میں گھرا پاکستان یہ پیشرفت دیکھ رہا ہے ۔یہ صورتحال جلد کروٹ لیتی نظر آ سکتی ہے ۔ بہت جلد امریکی پالیسی ساز بھی ان ایشوز پر بھارت کے خلاف بولنا شروع کر دیں گے۔