بڑی مشکل سے لاہور اور پنجاب کی تاریخ سے دھیان ہٹا کر دوسرے موضوعات پر لکھتا ہوں‘اب موضوعات ہی کیا رہ گئے ہیں۔ کہنے کو کھیل پر بہترین لکھا جا سکتا ہے‘ قلم کے زوال پر بات ہو سکتی ہے۔ دوستوں کی محفلوں کی باتیں ہو سکتی ہیں‘ پودوں‘ پھولوں اور جانوروں پر لکھنا مشکل نہیں‘ ادبی موضوعات پر عرصہ ہوا بوجوہ لکھنا بند کیا تھا۔ اب دوست کہتے ہیں ادبی کالم ڈوب رہا ہے اسے بچائو‘ کیا کروں یہاں تو ہر شعبہ زندگی کی نبض ڈوب رہی ہے۔ خیر ان دنوں چونکہ تاریخی مواد ہر وقت زیر مطالعہ رہتا ہے لہٰذا مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ صاحب اقتدار اور بادشاہ لوگوں کی سفاکیت کے کچھ نمونے پیش کر دوں‘ سب لوگوں کی بات تو ایسے ہی قلم سے نکل گئی بات اورنگ زیب عالمگیر کی کرنا ہے۔ اورنگزیب کے خطوط کا ترجمہ میرے سامنے دھرا ہے۔ اسی سے دیکھ لیتے ہیں کہ اقتدار کی ہوس میں رشتوں اور انسانیت کا احترام باقی نہیں رہتا۔ ’’1658ء میں سمو گڑھ کے مقام پر جو جنگ لڑی گئی۔ اس نے کئی قسمتوں کا فیصلہ کر ڈالا۔ داراشکوہ‘ اس کے فرزند سلیمان شکوہ اور شہزادہ مراد بخش کا انجام تو تاریخ آپ کے سامنے دہرا چکی۔ شاہجہاں تخت سے معزول کر دیے گئے۔ ہر چند کہ انہوں نے ان لاکھوں احسانات کو جتایا اور انعامات کو گنوایا جن کی بارش ایام شاہزادگی سے اب تک محی الدین اورنگزیب بادشاہ غازی پر ہوتی رہی تھی لیکن اورنگزیب دوبارہ ایک ہی سوراخ سے ڈسے جانے پر آمادہ نہ تھے۔ اس لئے حضرت صاحبقراں ثانی شاہجہاں آگرے کے قلعہ میں بقیہ زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہو گئے۔‘‘ ’’افسوس کہ باپ کی موت پر کوئی شہزادہ آنسو بہانے والا موجود نہ تھا۔ ظل اللہ بقول صاحب عمل صالح امور سلطنت میں مصروف تھے۔ انہوں نے جہاں آرا بیگم کو تعزیت کے کلمات ایک مکتوب میں تحریر کرنا کافی سمجھا۔‘‘ بادشاہ شاہجہاں کے لئے اورنگزیب عام طور پر پیر دستگیر‘ اعلیٰ حضرت‘ قبلہ دو جہاں‘ قبلہ اہل عالم جیسے القابات سے خط شروع کرتا ہے۔ قندہار کی مہم ناکام ہونے پر جب شاہ جہاں نے کچھ ڈانٹا تو اورنگزیب نے لکھا ’’قبلہ و کعبہ! جب تقدیر سے بنے ہوئے کام بگڑ جائیں اور ان کاموں میں پیچ پڑ جائیں‘ موقع ہاتھ سے نکل جائے تو ایسی صورت میں اعتراف قصور کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ ہاں اس کے بعد جب کہ دوسرے فرزند پہلے انتظام کے ساتھ اس مہم کو دوبارہ شروع کر کے اس سے عہدہ برا ہوں گے تو اس وقت میری تقصیر آپ پر عیاں ہو جائے گی۔‘‘ اورنگزیب اپنے باپ بادشاہ شاہجہاں کو جو خطوط لکھتا ہے اس میں ایک چیز بہت واضح ہے کہ وہ بادشاہ کی بے حد خوشامد کرنے کے بعد اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنے کے بہانے ہر دوسرے خط میں لکھتا ہے۔ قندہار کی مہم‘ اٹک کے قریب دریا کا پل تیار کرنے اور بادشاہ کی جانب سے کچھ لوگوں کو منصبدار مقرر کرنے کے احکامات پر مہم پر نکلا ہوا اورنگ زیب حیل و حجت دکھاتا ہے‘ اپنے بھائیوں کی شکایت کرتا ہے۔ خطوط کا مطالعہ کرتے ہوئے اورنگزیب کچھ توہم پرست سا لگا۔ یہ اس کی شخصیت کے بالکل برعکس بات ہے۔ وہ کہتا ہے کہ: ’’چونکہ برہان پور پہنچنے کی ساعت قریب ہے‘ نجومی ربیع الاول کی پہلی تاریخ کو بہتر بتاتے ہیں۔ اس لئے اس نیازمند نے یہ طے کیا ہے کہ دو تین جگہ پر ضروری قیام کے بعد اکبر آباد سے دکن تک کا سفر بہت تیزی سے ساتھ کیا جائے گا…تاکہ مقررہ اور پسندیدہ ساعت میں برہان پور میں داخل ہو سکوں۔‘‘ اورنگزیب ایک خط میں شاہجہاں کو لکھتا ہے کہ دھولپور میں ندارا باری شکار گاہ میں ایک نایاب ابلق نیل گائے موجود ہے۔وہ اس نیل گائے کے جسم پر سفید دھاری کی تصویر کشی کرتا ہے ،اسی طرح وہ اس خط میں گوالیار کے قریب نایاب نسل کے چھوٹے پائوں والے خوبصورت ہرن ’’کوتاہ پاچہ‘‘ کا تحفہ ملنے کا بتاتا ہے۔ برہان پور پہنچنے پر شاہجہاں نے اورنگ زیب کو لکھا کہ: ’’جب آموں کی فصل آئے تو تم برابر آم بھیجتے رہنا اور انگور کے پودے بھی مجھے ارسال کرنا‘‘ ایک جگہ آموں کی قسم ’بادشاہ پسند‘‘ کا ذکر یوں کیا گیا ہے: ’’اس سال بادشاہ پسند آم کم ہونے کی وجہ سے کئی بار حضور میں عرض کر چکا ہوں ‘ اب پھر عرض کرتا ہوں کہ درخت میں صرف ایک شاخ ایسی رہ گئی ہے جس میں پھل لگتا ہے۔ دوسری شاخیں آندھی اور جھکڑ سے ٹوٹ گئیں‘‘۔ شاہجہاں سے جب شکایت پیدا ہوئی اور اورنگزیب کو خدشہ ہوا کہ دوسرے بھائی بادشاہ نہ بن جائیں تو وہ باپ کو لکھتا ہے: کئی مرتبہ سننے میں آئی کہ جناب والا جسمانی کمزوری کے باعث بہت ہی ضعیف اور کمزور ہو گئے ہیں اور بڑے بھائی داراشکوہ نے تمام امور سلطنت اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں‘ شاہی احکام آپ کے حضور میں عرض کئے بغیر صادر کر دیتے ہیں۔‘‘ ’’اب کچھ ایسا سننے میں آیا ہے کہ آنجناب بھی مجھے آستاں بوسی سے محروم رکھنا چاہتے ہیں اور جنگ کی آگ بھڑکانا آپ نے اپنا نصب العین بنا رکھا ہے۔‘‘ اورنگزیب اپنے والد شاہجہاں کے گرد موجود اپنی بہن جہاں آرا کو استعمال کرتا رہا۔محل کے اندر کی سیاست اور بادشاہ کے گرد اطلاعاتی گھیرا بنانے کے لئے یہ رابطہ اہم رہا لیکن باپ کی موت کے بعد دونوں بہن بھائیوں کے درمیان کسی مزید خط وکتابت کا ریکارڈ نہیں مل سکا،شاید مطلب نکل جانے کے بعد اس کی ضرورت نہ تھی۔: ایک خط میں اپنے بیٹے شہزادہ سلطان کو لکھتا ہے: ’’نواب جہاں آرا بیگم کی جانب سے مصلحتاً جھکائو زیادہ اہم ہے۔ ان کے پاس زیادہ حاضر ہوں اور وقت گزاریں۔ دوسروں پھوپھی روشن آرا بیگم سے اس سلسلہ میں عذر خواہی کر لیں۔ تم ان سے سوغات نہ لانے کی عذر خواہی اس طرح کرنا کہ وہ چونکہ میرا خیال تھا کہ میں اجمیر میں اعلیٰ حضرت کی آستاں بوسی سے مشرف ہو کر وہیں سے دکن کو لوٹ جائوں گا‘ اس لئے آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے تحائف نہ لا سکا۔‘‘ میں کوشش کر رہا ہوں کہ اورنگ زیب کے دور میں پنجاب میں پنجابی زبان میں لکھوائی گئی کتابوں کا ریکارڈ کہیں سے مل جائے۔سید نجیب اشرف ندوی کی ترتیب دی گئی یہ کتاب اس لئے بھی اہم ہے کہ اس میں اورنگ زیب کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے کسی کی زبانی روایت اور قصوں کے بنا بہت سا مواد مل جاتا ہے۔اورنگ زیب دکن اور بنگال کی طرف زیادہ رہا اس لئے پنجاب کا ذکر کم ہے۔ بس چند مقامات پر داراشکوہ کی جاگیر کے طور پر اس کا ذکر ہے۔یہ خطوط اورنگ زیب کے بادشاہ بننے سے پہلے کے ہیں اس لئے شائد ملا صالح کنبوہ کی تاریخ پڑھنا لازم ہو گا۔