رواں مہینے پیش آنے والے دو واقعات نے پاکستان کے تعلیمی نظام پر ایک بار پھر سوال کھڑا کیا ہے۔ ایک واقعہ اسلام آباد میں ویکسین سینٹر پر پیش آیا، جہاں ویکسین کی عدم دستیابی پر لوگوں نے مشتعل ہو کر سنٹر پر حملہ کر دیا اور مار دھاڑ کی۔ دوسرا واقعہ وحدت روڈ لاہور کے سائنس کالج میں پیش آیا جہاں طالب علموں کے ایک گروہ نے دوسرے کو کالج میں بے راہ روی پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے تشدد کا نشانہ بنایا ۔ ایسا کیوں ہے کہ جب مخصوص لوگوں کی مرضی کے مطابق انتظام نہیں چلایا جاتا تو افہام وتفہم کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے وہ تشدد کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم پر امن مظاہرہ کر سکتے ہیں نہ احتجاج۔ وکلا تک نے حکومتی یا مخالفین کی مزاحمت کا جواب بہیمانہ تشدد سے دیا۔ ڈاکٹرزبھی اسی قسم کی بے حسی اور جلد بازی کا شکار نظر آتے ہیں۔ دینی جماعتیں بھی اپنی بات منوانے کے لیے تشدد کو ترجیح دیتی ہیں۔ابھی کچھ ہی عرصہ قبل ایک کالعدم دینی جماعت نے تین روز تک ملک کو یرغمال بنائے رکھا۔ ہر ادارہ اپنے آپ کو ریاست سمجھتا ہے۔ طاقت کے استعمالکا کلی اختیار صرف ریاست کے پاس ہوتا ہے۔ کوئی ادارہ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر معاشرے کی اصلاح نہیں کر سکتا۔ نہ ہی جبرا لوگوں کو کسی بات کا پابند بنایا جاسکتا ہے ۔ ان واقعات سے ثابت ہو ا کہ دہشت گردی پر ہم نے تقریباً قابو پا لیا ہے لیکن شدت پسندی اپنی جگہ جوں کی توں قائم ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ اس میدان میں کام ہی نہیں ہو رہا تو شائد غلط نہ ہوگا۔ پرانی روش کو برقرار رکھتے ہوئے سب کو اجازت ہے کہ اپنی اپنی پالیسی چلائیں جس کا قومی بیانیے سے منسلک ہونا ضروری نہیں۔ اس اجازت کی ایک وجہ شائد یہ بھی ہو کہ ہمارا قومی بیانیہ کوئی ہے بھی نہیں۔ آج کل وزیر اعظم عمران خان قومی بیانیے کو شکل دینے کی کوشش میں ہیں لیکن وہ بھی سطحی اعمال کا مجموعہ معلوم ہوتا ہے جس میں لوگوں کے ظاہری خدوخال پر زیادہ زور ہے۔ ذہن سازی جیسے مشکل محاذ پر ابھی شائد انکی نظر نہیں یا وہ اس جانب کسی بھی پیش رفت سے اٹھنے والے نتائج سے نمٹنے کو تیار نہیں۔ ایک بیانیہ ہم نے بنایا تھا، آجکل اس سے جان چھڑانے کی کوشش بھی ہے کیونکہ عالمی برادری میں اس بیانیے کے خلاف شدید رد عمل ہے۔ پاکستان کے گلے کی ہڈی بنا فیٹف بھی اسی بیانیے کا تنیجہ ہے۔ عالمی مالیاتی نظام کی اصلاح کیلیے بنائے گئے اس ادارے نے اپنے حالیہ اجلاس میں پاکستان کی مجموعی کارکردگی کی تعریف کی ہے لیکں گرے لسٹ سے نکلنے کا راستہ ابھی بھی ایک شق کی کمی کی بنا پر مسدود ہے جسے ہمیں چھ مختلف شرائط کی تکمیل سے پورا کرنا ہوگا۔ اس نا مکمل ستائسویں شق کی تکمیل کے لیے ہمیں اقوام متحدہ کی نامزد کردہ دہشت گرد تنظیموں کے اہلکاروں اور سہولت کاروں کے خلاف نہ صرف قانونی کاروائی کرنی ہو گی بلکہ ان پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے انہیں سزائیں بھی دینا پڑیں گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا قانونی نظام اس درجہ منظم ، خود مختار اور اہل ہے کہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچا سکے۔ عالمی برادری نہ صرف ہمارے عدالتی نظام کے اس سقم سے خائف ہے بلکہ انہیں اعتبار ہی نہیں ہے کہ ہم ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ جس کی بنیادی وجہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی ہے جو کسی بھی سطح پر جا کر دہشت گردی کی صورت اختیار کر سکتی ہے یا دہشت گردی کی پشت پناہی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ جب فرانس کے سفیر کو نکالنے کے حوالے سے مظاہرے ہوئے تھیتو تین دن لاہور یر غمال بنا رہا اور پولیس کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، تب یورپی یونین نے اسی انتہا پسندی یا دوسرے لفظوں میں دینی جماعتوں کا قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی روش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پاکستان کو دیے گئے جی ایس پی پلس سٹیٹس کو ریویو کرنے کی بات کی تھی۔ یورپی یونین اور مغربی اداروں کا خیال ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق محفوظ نہیں کیونکہ ریاست کمزور ہے۔ جس نہج کا بیانیہ ہو اسی انداز کی پالیسی سازی کی جاتی ہے۔ پاکستان کو بحثیت ریاست اپنے دو ہمسایہ ممالک بھارت اور افغانستان سے شدید خطرات لاحق تھے اس لیے قومی سلامتی ہماری صف اول کی پالیسی ٹھہری۔اسی طرح قومی یکجہتی کے لیے ہم نے اسلام کو استعمال کیا۔ یوں اسلامی نظریات کی ترویج ہماری دوسری اہم پالیسی بن گئی۔ ان دونوں پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے تعلیم اور درسگاہوں کے نظام میں تبدیلی لائی گئی۔ اس سلسے میں سب سے زیادہ کام جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں ہوا۔ یہ ہی وہ زمانہ تھا جب پنجاب یونیورسٹی میں بائیں بازو کی سیاست ختم کرنے کی غرض سے جماعت اسلامی کی اسلامی جمعیت طلبہ کے تصرف کو بڑھایا گیا اور انہیں من مانی کرنے کی کھلی اجازت دی گئی۔ دوسری طرف کراچی یونیورسٹی میں ایم کیو ایم , جو کہ لسانی بنیادوں پر بننے والی جماعت تھی, کوبھی اپنے نظریات کی اشاعت کی کھلی چھٹی دی گئی تاکہ پیپلز پارٹی ،جو کہ لیفٹ کی پارٹی مانی جاتی تھی ،کے نظریات مٹائے جا سکیں۔ دوسرے صوبے بھی اسی طرح مادر پدر آزاد روش پر اپنی اپنی درسگاہوں میں تبدیلی لاتے رہے۔ ان تمام تنظیموں نے تشدد اور خوف کی نفسیات کے ذریعے تبدیلی لانے کی کوشش کی۔ حبس کے اس ماحول میں فنون لطیفہ، ادب، شاعری ، موسیقی جیسی صحت مند سرگرمیاں درسگاہوں سے مفقود ہوتی چلی گئیں۔ نتیجہ کیا نکلا نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ،پاکستان ایک استحصالی معاشرہ بن کر رہ گیا ۔ انتہا پسند معاشروں کے تعلیمی نظام میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ وہ لوگوں کو باعزت یا پر وقار زندگی کی گارنٹی دے سکے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں غربت اور استحصالی نظام کی وجہ سے جسم فروشی بڑھ گئی ہے. اسی طرح پاکستان میں ہنر مند لوگوں کی کمی ہے۔ خاقان عباسی نے درست کہا ہے کہ پاکستان کو بھارت اور افغانستان سے زیادہ اپنے تعلیمی اورمعاشی نظام سے خطرہ ہے۔