اکرام عارفی سے تعارف تب ہوا جب مجھے انٹرنیشنل ڈیسک پر ٹرینی سب ایڈیٹر کے طورپر کام دیا گیا۔ انچارج گوہر بٹ تھے۔ فوزیہ گُل تھیں‘ اکرام عارفی تھے اور میں۔ میرے ذمہ انگریزی میگزینوں سے لی گئی خبروں و معلومات کا ترجمہ تھا۔ کمپیوٹر سیکشن کے چکر لگانا بھی میری ذمہ داری تھی۔ اکرام عارفی ترجمہ کرنے کے ساتھ کاپی تیار کراتے۔ وہ بابا ظہیر کاشمیری کی طرح عجیب و غریب شرٹس پہنتا۔ بات نہایت نستعلیق لہجے میں کرتا۔ نیوز روم میں اس کے بے تکلف احباب فرصت میں شعر سنانے کی فرمائش کرتے۔ دودھ پینے اور سیب کھانے والے اشعار کی زیادہ فرمائش ہوتی۔ شروع میں وہ عجیب سا معلوم ہوا‘ پھر دوستی ہو گئی۔ معلوم ہوا چونیاں سے تعلق ہے۔ ایم ایس سی ایگریکلچر میں کر رکھی ہے۔ 1997ء کی بات کر رہا ہوں۔ تب سب ایڈیٹر کی تنخواہ ساڑھے تین ہزار روپے ماہوار تھی۔ اکرام عارفی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں 25 ہزار کی ملازمت کر رہا تھا‘ کار دی گئی تھی۔ سب چھوڑ کر سب ایڈیٹر بھرتی ہو گیا۔ کہا کرتا: نوٹ گننے سے زیادہ تحریر و حرف سے تعلق عزیز ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ جو ادارے افرادی قوت کو صرف کام نمٹانے کے پہلو سے ملازمت دیتے ہیں جو تخلیقی بہائو سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ادارے میں مالی مسائل آئے تو اکرام عارفی سے معذرت کرلی گئی۔ اس کا گھر میری رہائش سے دور نہیں تھا۔ آتے جاتے ملنے چلا جاتا۔ کشادہ گھر کا ایک حصہ کرائے پر دیا تھا دوسرے میں اکرام عارفی اور اس کا بھائی رہتے تھے۔ دوستوں کا آنا جانا لگا رہتا۔ عارفی اچھا گا لیتا تھا لیکن اسی زمانے میں اس نے اپنی شاعری کو ترنم کے ساتھ پیش کرنے کی مشق کا آغاز کیا۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ وہ جدید شاعری کے نام پر سطحی موضوعات سے نکل آیا۔ اس کا ترنم کلاسیکل رنگ کا ہے۔ یوں معلوم پڑتا ہے عہد رفتہ کے لکھنو کا کوئی استاد غزل سرا ہے۔ اس رنگ میں روایت شامل ہونے لگی۔ ہمارے عہد کا شعری المیہ یہی ہے کہ نئے موضوعات ہمیشہ تازہ رہنے والی شعری روایت سے ہمیں دور لے گئے۔ اکرام عارفی نے کمال یہ کیا کہ نئے دکھوں کو روایت کا اسلوب دے کر سامنے کر دیا۔ سچ پوچھیں تو مجھے اکرام عارفی‘ احمد فرید‘ سجاد بلوچ اور افکار علوی اپنے عہد کے نمائندہ اردو شاعر محسوس ہوتے ہیں۔ اکرام عا رفی کے ساتھ بے تکلف ملاقاتوں کی تعداد یاد نہیں۔سرد رات کے دو بجے علی اکبر ناطق اور سید حسنین شاہ کے ساتھ ہم ایک بار چھانگا مانگا جنگل میں کھو گئے ،دھند میں کچھ نظر نہ آ رہا تھا ۔یہ سفر بھی یاد میں ہے ۔ وہ اس قدر محبت اور احترام دیتا ہے کہ آدمی شرمسار ہونے لگتا ہے۔ مجھے یاد نہیں اس کی کبھی کسی سے لڑائی ہوئی ہو۔ وہ جھگڑا کرنے والا بندہ نہیں۔ ایک روز معلوم ہوا کہ عارفی نے شادی کرلی۔ دوستی اور بات ہے عارفی جیسے ہمہ وقت شاعر کے ساتھ شادی نبھانا مشکل کام ہے۔ بہرحال اس مشکل نے کام دکھایا۔ وہ کتنا ہی عرصہ پریشان رہا۔ گھر فروخت کیا اور کالج روڈ پر نیا مکان لے لیا۔ کوئی ڈیڑھ سال پہلے کی بات ہے دوبئی میں مقیم ریحان صدیقی اور ان کی باذوق اہلیہ شازیہ نے اکرام عارفی کو مدعو کیا۔ ریحان صدیقی کے مشاعروں میں بھارت اور پاکستان سے منتخب شاعروں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ سامعین کا تانتا بندھا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں مشاعروں میں صرف شاعروں کا ہجوم ہوتا ہے جو اپنے اشعارسنا کر نکلتے جاتے ہیں۔ دوبئی میں ’’انداز بیاں‘‘ مشاعرے بے مثال حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ عارفی نے ہزاروں سامعین کے سامنے جب ترنم کے لیے گلا کھولا تو داد کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ شادماں شادکام دل تو نہیں آپ سے ہم کلام دل تو نہیں تری آنکھوں کا نام آنکھیں ہیں تری آنکھوں کا نام دل تو نہیں ہے اک دھماچوکڑی ہے سینے میں یہ کہیں بے لگام دل تو نہیں اس کا ہر مصرع پذیرائی پا رہا تھا۔ ترنم نے روایت کی دلہن سجا دی تھی۔ اس مشاعرے کی ویڈیو یوٹیوب پر ڈالی جاتی ہے۔ عارفی کی ویڈیو آئی تو دھڑا دھڑ لائکس اور شیئر شروع ہو گئے۔ ابھی کل ہی اس نے خبر دی کہ اس کی ایک ویڈیو کو دس لاکھ لوگ دیکھ چکے ہیں۔ یہ وہ اکرام عارفی ہے جو ہمارے اردگرد رہا اور ادبی گروہوں نے کبھی اس کے ہنر پر بات کی نہ اسے کسی ایوارڈ کا مستحق جانا۔ کوئی بیٹھا رہا شباب سمیت اور میں سو گیا کتاب سمیت ملنے آ یا ہے کوئی جان_غزل میر صاحب کے انتخاب سمیت اسلم کولسری کے بعد وہ میرے دوستوں میں سے دوسرا شاعر ہے جسے نام نہاد ادبی لوگ نظر انداز کر رہے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ صاحب نے میرے بارے لکھا ہے کہ میں عمارتوں ہی نہیں شخصیات کو بھی گرد سے باہر نکال لاتا ہوں۔ تارڑ صاحب کے الفاظ میرے لیے ایک اعزاز ہیں اور مجھے اس اعزاز کا احترام کرنا ہے۔ اکرام عارفی کی شکل میں ایک نایاب اسلوب کا شاعر ہمارے درمیان ہے۔ ایسا شاعر کہ وہ جس مشاعرے میں شریک ہو وہاں صرف وہی رہ جاتا ہے۔ ہم ہی مرے تھے اہلِ محبت کی جنگ میں جب گنتیاں ہوئیں تو مرے اور لوگ تھے ……… وہ لڑکا بے نیاز گلی سے گزر گیا وہ لڑکی انتظار کی چھت پر کھڑی رہی ……… شریک جام نہیں ہوں مگر یہ سوچتا ہوں ترا بھرا ہوا برتن کہاں سے آتا ہے