ساون اتر آیا ہے۔تپتی زمین پر آسمان سے برستا ٹھنڈا پانی۔ موسلا دھار پانی بادل کی بالٹی میں ایک سا ہوتا ہے ،زمین پر کئی بستیوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔قدرت کی مفت میں ملنے والی نعمتیں جب انسان خود بانٹنے لگے تو ایسا ہی ہوتا ہے جو اب ہو رہا ہے۔ وہ زمانے چند عشروں پیچھے گم ہو چکے ہیں جب گھر کچے ہوتے تھے۔ ساون سے پہلے چھتیں لیپ دی جاتیں، پرنالہ درست کر لیا جاتا۔ کوئی دیوار کمزور ہوتی تو اسے مرمت کیا جاتا۔ کچے صحن کو ہموار کر لیا جاتا۔ خیال رکھا جاتا کہ پانی سہولت کے ساتھ باہر کو بہہ جائے۔ ایسے کئی منظر آنکھوں میں آباد ہیں، بارش ہو رہی ہے، صحن میں لگے درختوں کی شاخوں پر بھیگی ہوئی چڑیاں پناہ لئے بیٹھی ہیں۔ آم، نیم، دھریک، شرینہ، ٹاہلی اور کیکر کے درخت گھروں میں عام تھے۔ بارش برستی تو لوگ کمروں میں بیٹھنے کی بجائے کئی کاموں میں جت جاتے۔ کوئی ٹپکتی چھت کا مسئلہ حل کر رہا ہوتا، کوئی مویشیوں کو باڑے میں خشک جگہ باندھ رہا ہوتا۔ کوئی کسی کوکندھے پر رکھ کر کھیتوں کو دوڑ لگا دیتا کہ بارشی پانی کو مونجی کے لیے برت سکے۔ کسی کو بالن بھیگنے کا ڈر ہوتا۔ ننگ دھڑنگ بچے نہا رہے ہوتے، کچھ کو مائیں آواز دیتیں، بچے بے دھیان ہو کر ’’ککریاں، خربوزے لا، اللہ مینہ ہور پا‘‘ اور ’’کالیاں اٹاں کالے روڑ ،مینہ وسادے زورو زور ‘‘ گا رہے ہوتے۔ صحن کھلے تھے۔ ایک گھر کی آواز اور خوشبو دوسرے گھر تک چلی جاتی تھیں۔ پوڑے توے پر چھوڑے گھی میں پکتے تو اردگرد سب کو گڑ ،گھی اور آٹے کی ملی مہک کا پتہ چل جاتا۔ ساون کی یہ شکل اجتماعی مفادات رکھنے والے سماج کی تھی۔ آج کاا نسان سوچتا ہے اس نے بڑی ترقی کر لی ہے، میں بھی ایسا سوچتا ہوں ،باہر بارش برس رہی ہے اور میں موبائل فون پر کچے گھروں کے بھیگتے منظر گوگل کر رہا ہوں۔آج کا سوچنے والا تصور کرتا ہے کہ بارش ہو رہی ہو، وہ تنہا بیٹھا ہو، کھڑکی کے سامنے ایک درخت ہو جو بھیگ رہا ہو۔ ہاتھ میں چائے کا ایک کپ ہو۔ یہ منظر ہم میں سے اکثر لوگوں کے تخیل کا حصہ ہے۔ معلوم نہیں ہمارے ہاں ایسے ماہرین ہیں یا نہیں جو اس نوع کے خیالات کا تجزیہ کر کے سماج کی نفسیات کی پڑتال کرسکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کے لوگ تیزی کے ساتھ خوشیوں کو اجتماعی کی بجائے انفرادی احساس میں تبدیل کر رہے ہیں۔ ان کے خوش کن خیالات میں لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا اب کم ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ تنہا رہنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ معاشرہ ایک فرد جیسا ہوتا ہے۔ جس طرح فرد کا رویہ اس کے زندہ رہنے کی امید یا خود کشی کی طرف رجحان کو ظاہر کرتا ہے اسی طرح معاشرہ جب مر رہا ہو تو اس کے تخیل میں خوشی دوسرے کے ساتھ سانجھی کرنے کی بجائے تنہا کسی گوشے میں بیٹھ کر خلا میں گم کسی خارج کو گھورے جانے کے عمل سے جڑ جاتی ہے۔ ایک سوال اہم ہے کہ ہمارا سماج تیزی کے ساتھ تنہائی پسندوں میں کیوں بدلتا جا رہا ہے۔ جواب کئی ہو سکتے ہیں۔ آسان بات یوں کہی جا سکتی ہے کہ اجتماعی خوشی بہت مہنگی ہو گئی ہے۔ شادی، میلہ، احباب کی محفلیں، کہیں آنا جانا، مہمان نوازی، تواضع۔ یہ سب جیب پر بھاری پڑنے لگے ہیں۔ جب ہمارے ہاں ایک کماتا اور پورا گھر کھاتا تھا تو ایک آدمی مالی طور پر مضبوط تھا۔ اب ایک آدمی کماتا ہے اور سوچتا ہے خوشی کے لئے رقم کیسے بچائے۔ ایسے میں اس کا طرز زندگی بدلنے لگتا ہے۔ دفتر میں سب کے سامنے کھاتا ہے اور کسی کو جھوٹے منہ کھانے کی دعوت نہیں دیتا۔ چائے خانے پر جاتا ہے اور اپنا کپ لے کر ایک طرف بیٹھ جاتا ہے۔ اس کی سوچ میں خوشیوں کے پرندے نہیں اترتے، ضرورتوں کے سانپ پھنکارتے رہتے ہیں۔کبھی تو ڈس بھی لیتے ہیں ۔ ساون ہمارے تنہائی پسند اور معاشی طور پر پسے ہوئے سماج میں نظر اندازکیا جا رہا ہے۔ لوگ اسے اب ایک ماحولیاتی موضوع اور شہر میں پانی کی نکاسی کے مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔اس سے جڑے گیت کسی کو یاد نہیں آتے ۔ سیاست دان اور انتظامی افسران کے لگے بندھے اقدامات اور بیانات ہوتے ہیں۔ کوئی کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ جو ہو رہا ہے اسے ہونے دیا جا رہا ہے۔ میں کھڑکی کے پاس بیٹھا ہوں، بارش برس رہی ہے۔ کان میں چڑیوں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ وہ بدلتے انسانی سماج سے بے خبر اب تک ایک دوسرے کے ساتھ مل کر شور کر رہی ہیں۔ شاید کچھ اپنے ٹپکتے گھونسلوں سے نکل کر محفوظ جگہ آ رہی ہیں۔ ممکن ہے کچھ چڑیاں پکوان پر مشورے کر رہی ہوں۔ چڑیوں کے ننگ دھڑنگ بچے وقفے وقفے سے باہر جاتے ہوں، پانی میں کودتے ہوں، چھلانگیں لگاتے ہوں۔ ’’ککریاں خربوزے لا، اللہ مینہ ہور پا‘‘ گاتے ہوں۔ کمرہ تاریک ہے۔ کھڑکی سے باہر کی دنیا روشن ہے۔ اس دنیا میں رنگ ہیں۔ درختوں نے ہرے پتے اوڑھ رکھے ہیں۔ آسمان سے بادل برس رہے ہیں۔ میرا وجود 25کروڑ ٹکڑوں میں بٹ رہا ہے۔ ہر ٹکڑا باہر کی رونقوں کو جانے کیوں اب شور، آلودگی اور اضطراب پرور بھاگ دوڑ سمجھ بیٹھا ہے۔ 25کروڑ کھڑکیاں کھلتی ہیں۔ ہاں کھڑکیاں کھلی ہیں تو منظر بھی تو زندہ ہیں۔ روشنی بھی تو کثرت سے ہے۔ بارش کا لطف بھی تو سب کھڑکیوں کے راستے ہمارے صحرا بنے دلوں میں سبزہ اور ٹھنڈک بن کر اتر رہا ہے۔ سب ٹکڑوں کی مالی پریشانیاں مفت میسر ساون نے کچھ دیر کے لیے دور کر دی ہیں۔ کیا اتنا کافی نہیں ۔سجاد بلوچ کے بقول: چشم نم، شام خزاں، نہر کنارا اور میں زرد پتوں کی طرح دل ہے رواں پانی پر اب کے سیلاب نے وہ حال کیا بستی کا مجھ کو رکھنا پڑی بنیادِ مکاں پانی پر