یہ محض خود اعتمادی ہے یا اپوزیشن کو عوام کے سامنے شرمسار کرنے کا سیاسی حربہ؟ حکومت جتنی جلد 2018ء کے عام انتخابات کے حوالے سے اپوزیشن کی شکایات کا ازالہ کرنے کے لیے کمشن سازی پر تیار ہوئی اتنی دیر میں آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف تو دوران اقتدار اپوزیشن کی بات سننے کے روادار نہ تھے ‘ماننا اور کوئی قدم اٹھانا تو دور کی بات ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کا شور مچا تو میاں نواز شریف نے سنی ان سنی کر دی‘ الزام صرف عمران خان نہیں لگا رہا تھا آصف علی زرداری نے اسے آر اوز کا الیکشن قرار دیا اور اے این پی سمیت دیگر جماعتوں نے ہاں میں ہائی ملائی۔ ایک سال بعد2014ء میں تحریک انصاف نے احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا تو میاں صاحب نے عدالتی کمشن کی پیشکش کی مگر یہ کمشن سانحہ پشاور کے بعد 2015ء میںبنا‘ حکومت نے کمشن کے لیے ٹی او آرز بنانے کی غرض سے کمیٹی کی تشکیل میں روڑے اٹکائے اور اپنی ایک حلیف جماعت کو اپوزیشن کے کوٹے سے نمائندگی دلوائی۔ یہی رویہ پانامہ سکینڈل آنے کے بعد عدالتی تحقیقات کے سلسلے میں روا رکھا گیا۔ سید خورشید شاہ کی تجویز پر تحریک انصاف عدالتی کے بجائے پارلیمانی کمشن کے ذریعے تحقیق پر راضی ہوئی تو معاملے نے اس قدر طول کھینچا کہ عمران خان کو مایوس ہو کر سڑکوں پر نکلنا پڑا اور بالآخر عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ جن لوگوں نے میاں نواز شریف کو تاخیری حربے آزمانے اور پارلیمانی کمشن کے بجائے عدالت عظمیٰ میں دودھ کا دودھ‘ پانی کا پانی کرنے کا مشورہ دیا ان کا تو کچھ نہ بگڑا مگر میاں صاحب اپنا بہت کچھ گنوا بیٹھے۔ اگر معاملہ پارلیمانی کمشن تک محدود رہتا تو آصف علی زرداری‘ سراج الحق اور فاروق ستار مل جل کر ان کے بچائو کا کوئی راستہ نکال لیتے ‘مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ میاں صاحب اگر پانامہ کی دلدل سے نکلنا چاہتے تو بآسانی نکل سکتے تھے‘ اگر کوئی جرأت مند سیاستدان ہوتاتو اِدھر اُدھر کی ہانکنے کے بجائے عام انتخابات کا اعلان کر دیتا۔ میاں صاحب اُن عوام سے رجوع کرتے جن کے سامنے انہوں نے ایوان اقتدار سے نکلنے کے بعد ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا رونا رویا۔ زیادہ سے زیادہ وہ الیکشن ہار جاتے مگر انہیں جے آئی ٹی کی تشکیل ‘ کرپشن کے ناقابل تردید الزامات اور عدالت عظمیٰ سے نااہلی کے علاوہ احتساب عدالت کی طرف سے سزائوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا‘ نقصان مایہ و شماتت ہمسایہ سے بچ جاتے مگر ان کے عقاب صفت مشیروں نے کہیں کا نہ چھوڑا اور ہونی ہو کر رہی۔ اب شائد وہ تنہائی میں سوچتے ہوں کہ کاش انہوں نے چودھری نثار علی خاں‘ میاں شہباز شریف اور دوسرے مفاہمت پسندوں کی بات مانی ہوتی مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ منیر نیازی کی ایک پنجابی نظم ہے ’’ہونی دے حیلے ‘‘ ؎ کس دا دوش سی‘ کس دا نئیں سی ایہہ گلاں ہُن کرن دیاں نئیں ویلے لنگھ گئے توبہ والے راتاں ہوکے بھرن دیاں نئیں جو ہویا ایہہ ہونا ای سی تے ہونی روکیاں‘ رُکدی نئیں اک واری جدوں شروع ہو جاوے گل فیر ایویں مکدی نئیں کجھ انج وی راہواں اوکھیاں سن کجھ گل وچ غماں دا طوق وی سی کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی عمران خان نے پارلیمانی کمشن کا مطالبہ مان کر اپوزیشن کو اس معاملے پر مزید شور مچانے کا موقع نہ دیا۔ شاید اس نے 1977ء اور 2013ء کے انتخابات کے بعد حکومت کی ضد اور ہٹ دھرمی کے مفسدانہ نتائج سے سبق سیکھا۔ بھٹو نے 1977ء میں حکومتی وسائل اور اختیارات سے انتخاب جیتا‘ اس قدر دھاندلی ہوئی کہ تین روز بعد ہونے والے صوبائی انتخابات میں عوام نے پولنگ سٹیشنوں پر آنا گوارا نہ کیا‘ ہر جگہ اُلّو بولتے رہے اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان کو برملا یہ کہنا پڑا’’ہم نے تو بڑی محنت سے دکان سجائی تھی اگر ڈاکہ پڑ جائے تو ہمارا کیا قصور؟‘‘ عوامی مقبولیت کے زعم میں بھٹو صاحب نے قومی اتحاد کی بات سنی نہ سڑکوں پر نکلنے والے لاکھوں عوام کی اور نہ فوج کی‘ جو انہیں سیاسی تصفیے اور دوبارہ انتخابات کا مشورہ دے رہی تھی۔ قومی اتحاد سے معاہدہ کر کے مکر گئے اور آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کو وہ سردار شوکت حیات کے انجام سے دوچار کرنے کی دھمکیاں دینے لگے۔ سردار شوکت حیات نے پارلیمانی اجلاس میں مشورہ دیا کہ بھٹو صاحب مذاکرات کو طول دینے کے بجائے نئے انتخابات کرائیں تو قائد عوام نے بزرگ سیاستدان کو پارٹی سے نکال دیا اور جب ایک رپورٹر نے اُن سے سوال کیا کہ سنا ہے فوج کا سربراہ آپ کو یہی مشورہ دے رہا ہے تو جواب دیا کہ کیا اُسے شوکت حیات کا انجام یاد نہیں۔ اس متکبرانہ طرز عمل کا جو نتیجہ نکلا وہ تاریخ ہے۔ المناک تاریخ۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد نواز شریف حکومت بھی ہوا کے گھوڑے پر سوار نہ ہوتی اور پانامہ سکینڈل پر سنبھل جاتی تو شریف خاندان بہت سی مشکلات کا شکار نہ ہوتا مگر قدرت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔ موجودہ حکومت نے وعدے کے مطابق پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے کر مولانا فضل الرحمن کی خواہشات پر پانی پھیر دیا ہے جو 25جولائی کے بعد 1977ء طرز کی تحریک کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ پارلیمانی کمیٹی معاملے کو کتنا طول دیتی ہے فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ ہمارے ہاں کمیٹیاں تشکیل ہی معاملے کو لٹکانے کے لیے دی جاتی ہیں یہ سرکاری اداروں اور حکومتوں کا آزمودہ نسخہ ہے شائد کسی کمیٹی اور کمشن کی تشکیل کا سن کر شاد عظیم آبادی پکارے تھے۔ ؎ کہاں سے لائوں صبرِ حضرت ایوب ؑ اے ساقی خم آئے گا‘ صراحی آئیگی تب جام آئیگا مگر موجودہ حکومت تبدیلی کی علمبردار ہے۔ تاخیری حربے اختیار نہ کرے۔ پاکستان میں آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخاب قومی ضرورت ہے اور حکومت کی اخلاقی ساکھ کی بنیاد۔ دھاندلی زدہ انتخابات کے نتیجے میں اقتدار سنبھالنے والی کوئی حکومت اپوزیشن کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کر سکتی ہے نہ مُنہ زور اداروں کے دبائو کا سامنا اور نہ بیرونی قوتوں کے ناجائز مطالبات کو رد کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ موجودہ حکومت نے اپوزیشن کا مطالبہ مان کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی اخلاقی ساکھ کے حوالے سے کافی حساس ہے اور موجودہ حکمران صرف اقتدار کے مزے لینے نہیں بلکہ واقعی ملک و قوم کے لیے کچھ کرنے آئے ہیں اور جانتے ہیں کہ اخلاقی ساکھ اور عوامی اعتماد سے محروم کوئی حکومت لوٹ مار بے شک کرے‘ ملک و قوم کا بھلا نہیںکر سکتی۔ کمیٹی کی تشکیل کے بعد اپوزیشن کی طرف سے دھاندلی کا شور سینہ زوری ہے اور کمیٹی کو دبائو میں رکھنے کی سعی۔ عوام کو حکومت کے خلاف اکسانے اور عدالتی مقدمات اور نیب میں چلنے والی انکوائریوں سے توجہ ہٹانے کے لیے اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ ن‘ کے پاس کوئی ایشو نہیںرہا۔ توہین آمیز خاکوں سے لے کر بھارتی متکبرانہ رویے اور کشمیریوں کی تحریک آزادی سمیت ہر معاملے میں حکومت دفاع کے بجائے جارحیت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ مودی کی کہہ مکرنی کا جو جواب عمران خان نے دیا اور بھارتی آرمی چیف کی یاوہ گوئی پر جو موقف حکومت اور فوج نے مل کر اختیار کیا‘ وہ پاکستانی عوام کے لیے حوصلہ افزا تجربہ ہے ورنہ ہمارے حکمران تو کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کو بھی ایجنسیوں کا ڈرامہ قرار دے کر بھارت کی ہاں میں ہاں ملانے کے عادی تھے اور عوام بزدلانہ حکومتی پالیسی کے سامنے بے بس‘ زیادہ سے زیادہ کڑھنے پر مجبور۔روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں۔