آرایس ایس کے پیروکارابھارتی مسلمانوں کا کافیہ حیات تنگ کرتے اوران پرطرح طرح کے بے ہودہ الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔۔لو جہاد، کرونا جہاد، تھوک جہاد، یو پی ایس سی جہادکی طرح اب آسام کے مسلمانوں پر’’سبزی جہاد‘‘کا ا لزام لگایا جا رہا ہے۔انڈیامیں ٹماٹر ناپید ہیں مگر لال مسلمانوں کو کیا جارہا۔سبزی جہاد جیسی من گھڑت اصطلاحات کو آسام کے مسلمان سبزی فروشوں کے خلاف گالی اور دھمک کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ مسلمان معمولی سا کاروباربھی نہ کرسکیں۔ ویسے بھی پورے انڈیامیں کاروبارسے منسلک مسلمانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ اس لئے بھی کہ انہیں کبھی سراٹھاکرجینے نہیں دیا گیا جب انہیں ہر طرف سے گھیرے میں لیاگیا ہے تو وہ بے چارے کیا کاروبار کر یں گے ۔انڈیا مسلم دشمنی میں اس حد تک جاچکا ہے بقول اسد الدین اویسی کے کہ اگر ان کی بھینس دودھ دینا یا ان کی مرغی انڈے دینا بند کر دے تو وہ اس کا الزام بھی مسلمانوں کے سر دھر دیتے ہیں ۔ پورے دلائل وبراہین اورپھرانڈیا کی تاریخ کو دیکھ کوسامنے رکھتے ہوئے اس حقیقت کے اظہار میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ بھارت کے مسلمان کو1947سے ہی کھڈے لائن لگایاجاچکاہے۔ کانگریس سات پردوں کے پیچھے چھپ کراسلام اورمسلمان دشمنی کی مرتکب ہوئی لیکن 2014 جب سے مودی برسراقتدارہے توآستین میں چھپائے گئے تمام سانپ اوراژدھے باہر آچکے ہیں۔سیکولر ملک کہلانے والا انڈیا اب پوری طرح بے نقاب ہوچکاہے۔مودی اوربی جے پی کے دوراقتدارمیں حکومتی مناصب پر براجمان لوگ کھلے عام مسلمانوں کے خلاف اقدام کرکے اپنے ناپاک مشن کی تکمیل کررہے ہیں۔جس کے باعث عام ہندوکے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے اورتعلیم یافتہ ہندو طبقہ بھی مسلم دشمنی پراتر آیا ہے۔ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں تو وزرائے اعلیٰ کااولین کام ہی یہی ٹھرا ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی ریاستوں میں مسلمانوں کواس قدرکنارے لگارکھاہے اورانہیں اس قدر مطعون کررہے ہیں کہ ان کاروزگار کمانے کے لئے اپنے گھروں سے نکلنا بھی محال ہے۔اس کی تازہ ترین مثال آسام کے وزیر اعلیٰ نے یہ کہتے ہوئے کہ آسام میں ٹماٹرکی قیمتوں کے ذمہ دار آسام کے میاں لوگ یعنی آسام کے مسلمان ہیں مسلم دشمنی کا برملا اظہار ہے۔ حالانکہ اس وقت پورے انڈیا میں سبزیوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ جو سبزی پہلے کلو کے بھاؤ بک رہی تھی وہ اب گرام کے بھاؤ بک رہی ہے۔انڈیا میں بالخصوص ٹماٹر کی قیمت میں اس قدر ہوشربا اضافہ پایاجارہاہے کہ ایک خاتون نے دبئی سے ٹماٹر منگوا لیے۔بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی خاتون نے دبئی سے آنے والی بیٹی سے 10 کلو ٹماٹر لانے کی فرمائش کر دی، بیٹی ٹماٹروں سے بھرے سوٹ کیس لے کر بھارت پہنچ گئی۔خیال رہے کہ بھارت میں ٹماٹر کی قیمتوں میں اضافے کے بعد امریکی فوڈ چین نے بھی اپنے مینیو سے ٹماٹر نکال دیے اور شمالی انڈیا کے اپنے چند ریستوراں میں ٹماٹروں کے مہنگے ہونے اور کمی کے سبب اس کی فراہمی روک دی ہے۔ ان کے برگرز میں اب ٹماٹر نہیں ڈالے جاتے۔رپورٹ کے مطابق میکڈونلڈز انڈیا-شمال مشرق کے ترجمان نے بتایا کہ ’اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ہمارے صارفین کو وہ بہترین معیار ملے جس کے لیے ہم جانے جاتے ہیں، ہم فی الحال برگرز میں ٹماٹر دینے سے قاصر ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ معیاری ٹماٹروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے انھوں نے ایسا فیصلہ کیا ہے۔ادھر بھارتی ریاست مہاراشٹرا کے ضلع پونے سے تعلق رکھنے والا کاشتکار تکا رام بھاگوجی اور اس کے خاندان نے ایک ماہ کے اندر ٹماٹر کے 13 ہزار سے زیادہ کریٹ فروخت کرکے ڈیڑھ کروڑ بھارتی روپے سے زیادہ کما لیے۔جبکہ بنگلور میں پولیس نے ٹماٹروں کی لوٹ مار کی واردات میں ملوث میاں بیوی کو گرفتار کر لیا ہے۔ لوٹ مار کی صورتحال یہ ہے کہ ٹماٹر فروشوں نے اپنی دکانوں پر مسلح گارڈ بٹھارکھے ہیں تاکہ ٹماٹر چوری نہ ہوں ۔خیال رہے کہ انڈیامیں ٹماٹر کی قیمت 200 روپے فی کلو ہے جو پاکستان کے 600روپے بنتے ہیں۔انڈیامیں ٹماٹر کی پیداوار میں قلت کے حوالے سے ٹائمز آف انڈیااپنی ایک رپورٹ میں لکھتاہے کہ مہاراشٹر کے علاقے ناسک میں سرکار کی طرف سے ڈیڑھ روپے کلو ٹماٹر کی قیمت مقررکی گئی جس کے خلاف کسانوں نے احتجاج کرتے ہوئے اپنے ٹماٹر سڑک پر پھینک ضائع کردئیے تھے۔ بہرکیف!انڈیامیںسبزیوں بالخصوص ٹماٹرکی قیمتوں میں ہوشربااضافے کے دوران آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے بیان داغا کہ آسام میں سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ سبزی کے کاروبار سے وابستہ ’’میاں‘‘ لوگوں یعنی مسلمانوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ متعصب ہندووزیراعلیٰ نے مسلمانوں پرالزام لگایا ہے کہ ریاست آسام کے مسلم سبزی فروش آسامی باشندوں کو مہنگی سبزی فروخت کر رہے ہیں مسلمانوں سے دشمنی رکھنے والے آسام کے وزیراعلیٰ کاکہناتھا کہ آسام میں سبزی کی آڑھت پر مسلمانوں کا قبضہ ہے۔ انھوں نے ہی سبزیوں کی قیمتیں آسمان پر پہنچائی ہیں۔خیال رہے کہ آسام میں میاں بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کو کہا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں آرایس ایس کے پیروکاروں ہندئووں کا دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان کے آبا و اجداد بنگلہ دیش سے ترک وطن کرکے آسام میں آئے تھے اس جھوٹ کو بنیاد بناکر ان کے ساتھ متعصبانہ سلوک کیا جاتا ہے ۔ان مسلمانوں کے بارے میں پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ وہ بہت متعصب ہیں اور آسام کی ثقافتی و لسانی شناخت مٹانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں کرتاکہ آسام کے مسلمان کئی نسلوں سے آسام میں آباد ہیں۔ہیمنت بسوا سرما نے پہلی بار مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان نہیں دیا ہے۔ وہ پہلے بھی ایسے بیانات دیتے رہے ہیں۔یہ دشمن اسلام آسام سے تمام مدرسے ختم کرنے کاعندیہ دے چکا ہے۔ اس نے کئی مدرسوں پر دہشت پر گردی کا الزام لگا کر ان کو منہدم کروا دیا ہے۔اپنے ناپاک ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے ہیمنت بسوا سرما نے سیکڑوں مدرسوں کی مذہبی حیثیت ختم کرکے انہیں سکولوں میں بدل دیا ہے۔ این آر سی کی آڑ میں مسلمانوں کو ریاست سے بھگانے کا سلسلہ تو پہلے ہی شروع کیا جا چکا ہے۔ واضح رہے کہ این آر سی کی جو مشق ہوئی تھی اس میں مسلمانوں نے اپنی شہریت ثابت کر دی تھی اور ہندوؤں کی بہت بڑی تعداد غیر ملکی ثابت ہوئی تھی۔ ورنہ اب تک بہت سے مسلمانوں کو ریاست بدر کیا جا چکا ہوتا۔