کیا آپ کے علم میں ہے کہ حکومت نے جو الیکشن کے التواء کو بنیاد بنا کر کہا ہے کہ انتخابات کے لیے پیسے نہیں ہیں، تو آئیے اندازہ لگاتے ہیں کل کتنے پیسے اس نیک کام کے لیے درکار ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کروانے کیلئے تقریباً بیس ارب پچاس کروڑ روپے کا بجٹ درکار ہے۔ اگر قومی اسمبلی کی 93سیٹوں پر بھی ضمنی انتخابات کروانا ہوں تو مزید پانچ ارب روپے کی ضرورت ہو گی۔ اس طرح انتخابات کیلئے تقریباً پچیس ارب پچاس کروڑ روپے درکار ہیں۔ یہ رقم ٹوٹل بجٹ کا صرف 0.18فیصد ہے۔ اگر ٹوٹل بجٹ میں سے صرف 0.18فیصد خرچ کرنے سے مالی بحران شدید ہونے کا خطرہ ہے تو یقینا حکومت غلط بیانی سے کام لے رہی ہے۔ جبکہ ایک طرف سرکار نوجوانوں کیلئے ایک سو پچاس ارب روپے کا ڈویلپمنٹ بجٹ منظور کر رہی ہے اور دوسری طرف یہ عذر پیش کیا جا رہا ہے کہ انتخابات کروانے کیلئے اس کے پاس ساڑھے پچیس ارب روپے نہیں ہیں۔پھر رمضان ریلیف پیکج کے نام پر صرف پنجاب میں 60ارب روپے کا مفت آٹا تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، اگر حکومت انتخابات کروانے کیلئے سنجیدہ ہو تو نوجوانوں کیلئے مختص کیے گئے ایک سو پچاس ارب روپوں میں سے ہی ساڑھے پچیس ارب روپے انتخابات کیلئے الگ کیے جا سکتے ہیں اور نوجوانوں کو بہتر مستقبل دینے کیلئے ایک سو پچیس ارب روپوں سے بھی بہترین منصوبے شروع ہو سکتے ہیںیا آٹا پیکج میں سے آدھی رقم جو مبینہ طور پر کرپشن کی زد میں جانی ہے اُسے الیکشن کے لیے اگر استعمال کر لیا جائے تو یہی ملکی استحکام کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہی نہیں بلکہ حکومت نے حال ہی میں ایک تیل کمپنی کو ادائیگی کرنے کیلئے ستائیس ارب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری دی ہے لیکن انتخابات کے لیے اس کے پاس فنڈز نہیں۔ اس کے علاوہ اگر پچاسی رکنی کابینہ کے اخراجات اور پروٹوکول کو ہی کنٹرول کر لیا جائے تو انتخابات کے لیے فنڈز باآسانی نکل سکتے ہیں۔ بیوروکریسی کی شاہ خرچیوں میں کمی کرنے سے بھی انتخابات کیلئے فنڈز نکالے جا سکتے ہیں۔ ملک بھر کے سرکاری ملازمین کی صرف تین دن کی تنخواہ کاٹنے سے الیکشن بجٹ سے زیادہ فنڈز اکٹھے ہو سکتے ہیں لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت کی الیکشن کروانے کی نیت بھی ہو۔ پھر انتخابات ملتوی کرنے کی ایک وجہ الیکشن کمیشن نے امن و امان کی خراب صورتحال کو بھی قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں دہشت گردی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن مکمل ہونے میں 5ماہ لگیں گے۔ صرف پنجاب میں اس وقت 3لاکھ 86ہزار623پولیس اہلکاروں کی کمی ہے اور صرف فوج اور رینجرز کی الیکشن میں تعیناتی سے ہی یہ کمی پوری ہو سکتی ہے لیکن وزارتِ داخلہ کے مطابق سول و آرمڈ فورسز سٹیٹک ڈیوٹی کیلئے دستیاب نہیں۔ وزارتِ داخلہ کے مطابق فوج سرحدوں‘ اندرونی سکیورٹی‘ اہم تنصیبات کے تحفظ اور غیرملکیوں کی سکیورٹی پر مامور ہے۔ سیاسی رہنما دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں‘ سیاسی رہنماؤں کو الیکشن مہم میں نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب 2013ء کے انتخابات تھے‘ اس وقت ملک میں دہشت گردی عروج پر تھی۔ انتخابات سے قبل سیاسی رہنماؤں پر خود کش حملے بھی ہوئے۔ کچھ سیاستدان جان کی بازی بھی ہار گئے۔ اس کے باوجود انتخابات میں تاخیر نہیں ہوئی تھی۔ آج دہشت گردی کے حالات ماضی کی نسبت بہت بہتر ہیں۔ اس لیے سکیورٹی کو وجہ بنا کر انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ مناسب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ حکومت یہ بھی بتائے کہ کس وقت سیاستدانوں کی جان کو خطرہ نہیں ہوتا۔ ان کو سکیورٹی تھریٹ جاری ہونا ایک معمول کی کارروائی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہو سکتا کہ ملکی آئین کی پاسداری نہ کی جائے۔ سیاستدانوں کے آئین سے انحراف کی وجہ سے ہی نظام انصاف کو آئینی معاملات بھی دیکھنا پڑتے ہیں۔لہٰذاان حالات میں اگر الیکشن بروقت نہ ہوئے تو لوگوں کا قانون، انصاف اور اداروں سے لوگوں کا یقین اُٹھ جائے گا۔ بلکہ یہ لوگ خود کہتے رہے ہیں کہ اگر الیکشن میں دیر ہوئی تو یہ آئین سے بغاوت ہوگی۔ آپ نوازشریف کے سابقہ بیانات کو دیکھ لیں، موصوف خود فرماتے رہے ہیں کہ ہم الیکشن کو ایک مہینہ کیا ، ایک دن بھی آگے نہیں جانے دیں گے۔ لیکن اس وقت موجودہ صورتحال کے مطاق یہ لوگ اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل ہر آنے والا دن جس طرح عمران خان کی مقبولیت کا تختہ کر رہا تھا اور عمران خان کی غیرمقبولیت میں اضافہ کر رہا تھا اب ہر آنے والا دن عمران خان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ کر رہا ہے۔ یعنی سائیکل بالکل ہی الٹا چل پڑا ہے۔ ان حالات میں منصوبہ سازوں اور فیصلہ سازوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ چکے ہیں اور حواس مختل ہیں۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ انہوں نے کیا کر دیا ہے اور اس سے زیادہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اب وہ کیا کریں؟ ان کی ساری تدبیریں ان کیلئے مصیبت بن چکی ہیں اور جس طرح ان دنوں عمران خان کی ہر الٹی بات اور غلط تدبیر ان کیلئے مقبولیت کا نیا در وا کرتی ہے‘ اسی طرح منصوبہ سازوں کا ہر منصوبہ اور ہر تدبیر ان کے گلے پڑ رہی ہے۔ حکومت الیکشن سے گھبرائی ہوئی تھی اور اسے کسی نہ کسی بہانے ملتوی کرنے میں لگی ہوئی تھی اور بالآخر وہ اسے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ملتوی کرنے میں (فی الحال) کامیاب بھی ہو گئی ہے ۔اس حکومت کا ہر آنے والا دن اس کیلئے برا ثابت ہو رہا ہے اور وہ ناپسندیدہ تر سے ناپسندیدہ ترین کے درجے کی طرف رواں ہے۔ ایسے میں الیکشن کا التوا بہرحال ان کیلئے کسی قسم کا کوئی سیاسی ریلیف یا بہتری کی صورت پیدا نہیں کر سکے گا۔ حل یہی ہے کہ الیکشن کرواد یں گے تو کم از کم 5سال تک ملک میں سکون ہوجائے گا۔ اور پھر جو حکومت خان صاحب پر کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہے وہ بھی بچائے جا سکیں گے۔ مثلاََ پچھلی دفعہ جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں پیشی پر پولیس کا ڈھائی کروڑ روپے کا بل آگیا۔ پھر دیگر رہنمائوں کی پیشیاں، حسان خان نیازی کو دیکھ لیں، پہلے پنجاب پولیس پھر کوئٹہ پھر دیگر اضلاع ۔ مطلب ماسوائے عوام کے پیسے کے ضیاع کے حکمران کچھ حاصل نہیں کر پا رہے۔ اور پھر جو تحریک انصاف کا جلسہ روکنے یا زمان پارک کے راستے بند کرنے کے لیے سینکڑوں کنٹینر لگائے جاتے ہیں، ان پر کروڑوں روپے کے اخراجات ہوتے ہیں، ان کا کون ذمہ دار ہے؟ اور پھر اگر عمران خان کو کھلا جلسہ کرنے دیا جاتا توبہتر تھا۔ پھر رانا ثناء اللہ کے بیانات جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں۔ کیا ایسے بیانات دینے کی ضرورت ہے کہ یا تو عمران خان سیاست کرے گا یا ہم کریں گے۔ اب تو مریم نواز نے بھی یہی کہنا شروع کردیا ہے کہ الیکشن کے علاوہ مسائل کا کوئی حل نہیں، ہر 5 سال بعد انتخابات ہونے چاہئیں۔ انتخابات ہی ملکی مسائل کا حل ہیں، وغیرہ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر دیر کس بات کی ہے؟ حکومت اور اپوزیشن الیکشن کا اعلان کر دیں اللہ اللہ خیر صلہ !