ماحول گرم ہے البتہ بساط لپیٹی جا رہی معلوم ہوتی ہے۔ حریف پیشانی پر بل ڈالے،پلکیں جھپکے بغیر ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے چالیں چل رہے ہیں ، وزیر آگے بڑھائے اور پیادے پٹوائے جارہے ہیں کبھی یہاں سے چال پر وہ مارا کے نعرے بلند ہوتے ہیں اور کبھی اپوزیشن چال چل کر مونچھوں کو تاؤ دے رہی ہوتی ہے ۔صورتحال پل پل میں بدل رہی ہے وہ لوگ جو وزیر اعظم ہاؤس کی انتظار گاہ میں صوفہ پچکائے ملاقات کے اذن میں گھنٹوں بیٹھنے کے بعد نامراد واپس جاتے تھے جن سے ملنا وقت کا ضیاع سمجھا جاتا تھا آج ان کے گھروں کے راستے ناپے جارہے ہیں ، جی جان صدقے واری ہوا جارہا ہے ان کی ان خدمات کا بھی اعتراف کیا جارہا ہے جن سے وہ خود لاعلم ہیں، نرمی گرمی کا اظہار کیا جارہا ہے: ’’چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے ‘‘ کبھی کے راندہ ء درگاہ اور آج کے منحرف اراکین اسمبلی سے کہا جارہا ہے کہ واپس آجائیں کچھ نہیں کہا جائے گا، وزیر اعظم کے مصاحب خاص شیخ رشید احمد انہیں امام ضامن باندھ کر ضامن بننے کو بھی تیار ہیں ان باغی ارکان میں ڈاکٹر رمیش کمار بھی ہیں جن پر ’’شہ‘‘ کے ایک مشیر نے قوم کے سامنے ٹیلی وژن پر براہ راست پروگرام میں کینسر کی جعلی دوا رجسٹر کروانے کے لئے ملاقات کرنے اور سفارشیں کروانے کا الزام لگایا تھا سوال تب بھی یہی اٹھا تھا کہ تحریک انصاف کا تو نعرہ ہی کرپشن کے خلاف اعلان جنگ کا ہے انہوں نے کسی کرپٹ شخص کو اپنے درمیان کیسے برداشت کیااو ر کئے رکھا اسے تو نکال باہر کرنا ہی چاہئے تھااس کے ساتھ ساتھ یہ راز سینے سے لگائے رکھنے والے صاحب کو باہر کا راستہ دکھایاجاتا کہ اس نے تحریک انصاف سے نظریاتی انحراف کیا لیکن وہ آج بھی پارٹی کے ترجمانوں میں سے ہیں اور منہ میں تیزاب لئے جہاں سیاسی مخالف نظر آتا ہے پچکاری مار دیتے ہیں ان سوالوں کے جواب دینے کا وقت بھلا کس کے پاس ہے یہاں تو آپا دھاپی مچی ہوئی ہے ،منحرف ارکان کو رام کرنے کے لئے سو سو جتن کئے جارہے ہیں ان کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے ہوئے کورس میں گایا جارہا ہے کہ : چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاوربار چلے آجکل سیاست کی نوٹنکی میں وہ وہ کچھ ہورہا ہے کہ اب کسی بات پرحیرت نہیں ہورہی وہ سیاسی افرا تفری ہے کہ جوتوں میں دال بٹنے کو ہے کہنے کو جمہوریت ہے لیکن ایسی جمہوریت کہ جس میں کوئی اصول قاعدہ قانون نہیں بس ‘‘نمبروں ‘‘ کی سیاست ہے، نمبر پورے کرنے ہیں کھلا دنگل ہے جب ’’شہ‘‘ کی خاطر پنجاب کی وزارت اعلیٰ بھینٹ چڑھائی جاسکتی ہے تو کینسر کی اک دوا کی رجسٹریشن کون سا مشکل کام ہے یہ تو نوک قلم سے قرطاس پر بیٹھنے والی چند چڑیوں کی مار ہے۔۔۔ خیر جانے دیجئے قوم بھلا کب اپنی صحت کے لئے متفکر رہی ہے اسے نہ اپنی اخلاقی صحت کی پرواہ ہے نہ کردار کے حوالے سے کوئی پریشانی اسے بس اک ہی ’’کمزوری‘‘ کی فکر لاحق رہتی ہے شہروں کے در و دیوار دیکھ لیں اندازہ ہوجائے گا قوم کا ہدف اسی کمزوری کا خاتمہ ہے حکماء طبیب نبض شناس دن رات شاہی طلاء اور کشتے بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ حکومتی مشیر صاحب کی شعلہ بیانی کو جانے دیجئے ان کی توپوں کا رخ تو بس اک منحرف کی طرف تھا مجھے تو خوف ہے کہ حکومتی ترجمانوں میں سے ایک خاتون نے سندھ ہاؤس اور اس میں موجود اراکین کے لئے جن خیالات کا اظہار کیا گر وہ سچ ہیں تو کیا سندھ ہاؤس کے مہمان باغیوں کی واپسی پر حکومت کیا کہلائے گی ! محترمہ کوئی عام کارکن یا رکن قومی اسمبلی نہیں ہیں ان کے لئے پی ٹی آئی کی ویب سائیٹ پر تحریر ہے کہ ’’یہ تحریک انصاف کی سینئر لیڈران میں سے ایک ہیں جو پی ٹی آئی کی میڈیا پر نمائندگی کرتی ہیں اور عمران خان کا پیغام عام کرتی ہیں تخت لاہور پر شاہ نے اپنے پیادے کو پٹوا دیا کہ پیادے تو ہوتے ہی اس لئے ہیں۔ افسوس کہ نمبروں کے بے روح بے کردار کھیل میں حزب اختلاف بھی پیچھے نہیں حکومتی صفوں میں نقب لگانا اور اسے کپتان کے کھلاڑیوں کے ضمیر کا جاگنا قرار دینا وہ گھسا پٹا لطیفہ ہے جس سن کر سب کچھ آ سکتا ہے سوائے ہنسی کے۔پوزیشن نے نمبر گیم میں تمام اصولوں قاعدوں ضابطوں پر ٹریکٹر چلا دیا ہے۔ ان کے پاس ہر اس رکن پارلیمنٹ کے لئے سندھ ہاؤس میں مہمان نوازی ہے جو حکومت پر تبرا بھیج کر اپوزیشن کی طرف آجائے وہ انہیں سینے سے بھی لگائیں گے پہلو میں بھی بٹھائیں گے اور نظر اتار کر کالا ٹیکہ لگا کر سندھ ہاؤس یا کسی محفوظ مہمان خانے میںآؤ بھگت کے لئے بھجوا دیں گے۔ اپوزیشن کی اس یک نقاطی تحریک کی بدولت انہیں ان ان لوگوں کی میزبانی کا شرف حاصل ہو رہا ہے کہ جن میں کپتان سے بغاوت کے سوا کوئی قدر مشترک نہیں۔ سمجھ لیں یہ بھان متی کا وہ کنبہ ہے جسے جوڑنے کے لئے کہیں سے اینٹ لی ہے اور جانے کہاں سے روڑا۔ یہ سب دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں یہ جمہوریت کیا کیا کیا برگ وبار لانے کو ہے اس محنت کے بعد جو فصل جو کھیتی آئے گی قوم کے لئے اس کا سایہ ہو گا نہ پھل ہاں کچھ خاندانوں کے لئے اس کی شاخیں پھلوں سے لدی اور جھکی ہوئی ہوں گی اور یہ خوش قسمت کون ہوں گے اسے جاننے کے لئے کیا کہیں جانے کی ضرورت ہے !!