سپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (سگر) نے حال ہی میں افغان سکیورٹی فورسز کی شکست کی وجوہات پر رپورٹ جاری کی ہے۔سگر افغانستان کی تعمیرنو کی نگرانی کا فریضہ انجام دینے والا ادارہ ہے جس کے دفاتر واشنگٹن میں ہیں۔افغانستان میں امریکی سرگرمیوں سے واقفیت کا یہ قابل اعتماد فورم ہے۔فروری 2023ء میں سگر نے جو رپورٹ جاری کی وہ بتاتی ہے کہ بھارت افغانستان میں طالبان مخالف جنگجو سرداروں کی مالی مدد کرتا رہا ہے۔ سگر رپورٹ بتاتی ہے کہ امریکہ کے دو صدور کی جانب سے افغانستان سے انخلا کے فیصلے نے امریکی حکومت کے تمام اداروں کے فیصلے تبدیل کر دیے۔اشرف غنی حکومت اور طالبان تک اس سے متاثر ہوئے 20سال کے دوران 90ارب ڈالر خرچ کر کے تیار کی گئی افغان نیشنل ڈیفنس سکیورٹی فورسز کو آزاد اور خود مختار ریاست کی حفاظت کا کام سونپا گیا۔افغان سکیورٹی فورسز امریکی افواج پر تکیہ کرتی تھیں۔ افغانستان سے فوجی انخلا کے امریکی فیصلے سے افغان فورسز کو حاصل اس مدد میں کمی آئی اور نتیجہ کے طور پر افغان افواج اور پولیس اپنا اعتماد کھو بیٹھیں۔افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کی تشکیل اور تربیت امریکی افواج کی طرز پر ہوئی تھیں۔افغان فورس اور اعلیٰ پیشہ وارانہ فوجی مہارت اور لیڈر شپ کی ضرورت تھی۔افغان فورسز میں ان خصوصیات کی کمی تھی اس لئے وہ امریکہ کی محتاج بن کر رہ گئیں۔ سگر رپورٹ کے مطابق فروری 2020ء میں جب امریکہ اور طالبان کے مابین معاہدہ ہوا اور اپریل 2021ء میں انخلا کا حتمی اعلان ہوا تو افغان فورسز کا حوصلہ ٹوٹ گیا تاہم امریکی حکام نے افغان فورسز کی مدد جاری رکھنے کا عندیہ دیا،معاہدے کے بعد امریکی فضائیہ کے طالبان پر حملوں میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔امریکی کارروائیوں میں کمی سے طالبان کو زیادہ آزادی کے ساتھ نقل و حرکت کا موقع ملا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس معاہدے کے متعلق افغان فورسز اور اشرف غنی انتظامیہ کے ساتھ کبھی سنجیدہ مشاورت نہیں کی گئی۔افغان سکیورٹی فورسز وسائل کے انتظام‘ دیکھ بھال اور قیادت کے لئے امریکی حکام کی جانب دیکھا کرتیں۔افغان سپیشل سکیورٹی فورسز دراصل کمانڈو جتھے تھے۔مشترکہ حکمت عملی‘ کارروائیوں کے لئے مستعد رہنے اور ذمہ داریاںانجام دینے کے لئے یہ بھی امریکی حکام کے محتاج تھے‘ اشرف غنی حکومت کے دوران افغان حکومت عام طور پر تین افراد پر مشتمل سمجھی جاتی تھی‘ صدر اشرف غنی ‘ ان کے مشیر قومی سلامتی حمد اللہ محب‘ صدر کے انتظامی دفتر کے سربراہ فضل محمود افضل۔اس دوران دیکھا گیا کہ افغانستان کا یکے بعد دیگرے ایک ایک صوبہ طالبان کے کنٹرول میں آنے لگا لیکن اشرف غنی اس معاملے پر توجہ دینے کی بجائے گھنٹوں تک نیشنل پروکیورمنٹ کونسل اور اربن پلاننگ کے اجلاس جاری رکھتے۔ 25جون 2021 ء کو صدر بائیڈن کے ساتھ ملاقات میں صدر اشرف غنی نے اصرار کیا کہ ان کی حکومت کو مزید چھ ماہ تک مالی و دفاعی مدد فراہم کی جائے۔اس صورتحال میں طالبان نے اپنی فوجی حکمت عملی کو عمدگی کے ساتھ استعمال کیا۔طالبان کی حکمت عملی نے افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کو تنہا اور بے بس کر دیا۔طالبان نے اپنے 5ہزار ساتھیوں کو اپنی تحویل میں موجود ایک ہزار سرکاری اہلکاروں کے بدلے رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ سگر رپورٹ کا وہ حصہ خطے میں بدامنی کی وجوہات تلاش کرنے کے حوالے سے اہم ہے جس میں افغان وا رلارڈز کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے بھارتی اقدامات کا ذکر ہے۔سابق افغان جنرل ہبت اللہ علیزئی کے بقول عطا محمد نور اور عبدالرشید دوستم بھارت گئے اور شمالی افغانستان میں مزاحمت کو منظم کرنے کے لئے بھارتی حکام سے رقم وصول کی۔شمالی افغانستان وہی علاقہ ہے جو روائتی طور پر طالبان مخالف بتایا جاتا ہے ۔جنرل ہبت اللہ کہتے ہیں کہ وہ مسلسل افغان حکومت سے آپریشن اور سپلائی کے لئے فنڈز جاری کرنے کی درخواست کرتے رہے مگر ناکام رہے دوسری طرف دوستم اور نور نے آسانی کے ساتھ بھارت سے فنڈز حاصل کر لئے۔یاد رہے بھارت نے ایک ماہ گزرنے کے باوجود اس رپورٹ پر ردعمل نہیں دیا۔ بھارت کی جانب سے شمالی اتحاد کی حمایت کی تاریخ ہے۔بھارت افغانستان میں طالبان مخالف قوتوں کو مضبوط کرنے کا خواہاں رہا ہے۔1996ء سے اکتوبر 2001ء کے طالبان اقتدار میں بھی بھارت نے اپنی یہ حکمت عملی جاری رکھی تھی۔بھارت خطے کی ترقی کو روکنے کے لئے ایک تخریبی کردار ادا کرتا آیا ہے۔وہ ایسی لڑرائیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو بھارتی مقاصد کی تکمیل کریں۔بھارت افغانستان کو ہمیشہ پاکستان کے مفادات پر ضرب لگانے کے لئے استعمال کرتا آیا ہے۔ وہ پاکستان کے مغربی بارڈر کو گرم رکھنے کی منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے۔طالبان کا اقتدار میں آنا بھارت کے لئے صدمے کا باعث بنا ہے۔وہ اسے اپنا سٹریٹجک نقصان تصور کر رہا ہے۔دوسری طرف افغان طالبان بھارت کے سابق کردار سے بخوبی آگاہ ہیں اس لئے بھارت جب کبھی تعاون کی آڑ میں اپنا سٹریٹجک نقصان کم کرنے کی کوشش کرتا ہے طالبان حکام اس کے عزائم سے واقف رہتے ہیں۔ پچھلے دو عشروں سے بھارت بین الاقوامی برادری کو بے وقوف بنانے کے لئے رنگ رنگ کے بیانیے متعارف کراتا رہا ہے۔اس نے افغان سرزمین کو خطے میں دہشت گردی پھیلانے کے لئے استعمال کیا ہے۔افغان سرزمین پر ٹھکانے بنا کر پاکستان میں بدامنی کی سازشیں کی ہیں۔بھارت افغانستان کے ساتھ تعاون کی آڑ میں ایک بار پھر اپنا تخریبی کردار بڑھانا چاہتا ہے۔