ایک زمانہ تھا جب بادشاہ جلاوطن ہوتے تو پھر کسی دوست بادشاہ کی مدد سے اپنے لئے ایک فوج منظم کرتے یا پھر ملک سے لوٹی ہوئی دولت خرچ کر کے اپنے لئے وفاداروں کی ایک نئی سپاہ ترتیب دیتے اور حملہ آور ہو کر کھوئی ہوئی سلطنت واپس لے لیتے۔ قسمت ایسے بادشاہوں کی بھی یاوری کرتی جن کا نہ کوئی دوست حکمران ہوتا اور نہ ہی انہیں محل سے بھاگتے وقت دولت سمیٹنے کی مہلت میسر آئی ہوتی۔ ایسے بادشاہ دشمنوں سے چھپ کر کسی جنگل بیابان یا کسی خفیہ ٹھکانہ پر زندگی گزار رہے ہوتے کہ اچانک ان کے ملک میں کوئی وفادار شخص سپہ سالار بن جاتا اور تخت پر بیٹھے ہوئے بادشاہ کا سر قلم کرتا، قید خانے میں ڈالتا یا اس کی آنکھوں میں سلائیاں پھروا کر معذور کر دینے کے بعد اپنے پرانے بادشاہ کو محفوظ ٹھکانے سے ڈھونڈ نکالتا اور اسے تخت پر بٹھا دیتا۔ آج ایسا صرف تاریخ کی کتابوں میں ہی پڑھنے کو ملتا ہے، جسے پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے ظہیرالدین بابر جو ایک چھوٹی بستی فرغانہ کا حاکم تھا، اسقدر مجبور کر کے نکالا جاتا ہے کہ اس کی بہنیں اس کا دشمن شیبانی یرغمال کے طور پر رکھ لیتا ہے، بے سروسامان اور دربدر ہے لیکن ایک فوج اکٹھی کر لیتا ہے اور اسے منظم کر کے دنیا کے امیر ترین خطے ہندوستان پر حملہ آور ہو کر شہنشاہ ہندوستان بن جاتا ہے۔ اس کے بیٹے ہمایوں کا قصہ بھی کوئی کم دلچسپ نہیں، البتہ تھوڑا سا مختلف ضرور ہے۔ اسے پڑوسی سلطنت ایران کے بادشاہ شاہ طہماسپ کی مدد مل جاتی ہے جو بارہ ہزار گھڑ سوار، تین سو خصوصی جانباز اور مال و دولت فراہم کرتا ہے، اور یوں ہمایوں اپنا کھویا ہوا تخت واپس لے لیتا ہے۔ یونان، مصر، بابل اور ہندوستان کی دیومالائی داستانیں ایسے ہی قصے کہانیوں سے عبارت ہیں، جن میں بادشاہ تخت سے محروم ہوتے ہیں، کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں، دیوتا اور مافوق الفطرت قوتیں ان کی مدد کرتی ہیں اور بالآخر وہ واپس اپنے آبائی وطن کے تخت پر براجمان ہو جاتے ہیں۔ رام چندر کا بن باس، راون سے لڑائی، دیوتا ہنومان کی مدد، غرض کیا کچھ نہیں ہے جو بے سروسامان رام چندر کو واپس ایودھیا کے تخت پر بٹھانے کیلئے نہ کیا گیا ہو۔ یونانی دیو مالا کا کردار ایڈپس (Oedipus)جس کے کردار سے جدید نفسیات نے یہ تصور کشید کیا ہے کہ ہر بیٹا اپنی ماں سے اور ہر بیٹی اپنے باپ سے ایک گونا محبت کرتی ہے۔ اس کی کہانی بہت عجیب ہے کہ نجومیوں نے اس کی پیدائش پر پیش گوئی کی کہ یہ بڑا ہو کر اپنے باپ کو قتل کرے گا اور ماں سے شادی کرے گا۔ باپ نے اسے میلوں دُور کسی جنگل میں پھنکوا دیا، جسے وہاں پر رہنے والے لکڑہاروں نے پالا۔ شاہی خون نے اپنی جھلک دکھائی اور اس نے جوان ہوتے ہی ایک فوج منظم کی اور علاقے فتح کرتا ہوا، ایک دن ساری قوت جمع کر کے باپ کی سلطنت پر حملہ آور ہو گیا۔ لڑائی میں باپ مارا گیا، ایڈپس تخت نشیں ہوا تو ’’حسبِ روایاتِ شاہی‘‘ ملکۂ عالیہ جو اس کی حقیقی والدہ تھی وہ اس کی بیوی اور ملکہ قرار پائی۔ یوں لگتا ہے مملکتِ خداداد پاکستان پر شاید کسی آسیب کا سایہ ہے کہ ہم آج تک کئی ہزار سال پہلے کے اس دیومالائی دور سے باہر ہی نہیں نکل پا رہے۔ دیگر ملکوں میں گذشتہ دو صدیوں سے صرف شاہِ ایران رضا شاہ پہلوی کی ہی ایک مثال ملتی ہے جسے امریکہ نے جلاوطنی کے بعد واپس دوبارہ تخت پر لا بٹھایا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ شاہ کو جلاوطن کرنے والا محمد مصدق امریکہ مخالف نکلا اور امریکہ اس خطے میں اپنے وفاداروں کی بالادستی چاہتا تھا۔ امریکہ کے آج تک 72 رجیم چینج (Regime Change) تجربوں میں سے یہ پہلا تجربہ تھا۔ وزیر اعظم محمد مصدق کے چند اراکین پارلیمنٹ کو خرید کر ’’لوٹا‘‘ بنایا گیا، جب اس کی پارلیمنٹ میں اکثریت ختم ہوئی تو سی آئی اے نے سرمائے کے زور پر وہاں ہنگامے شروع کرائے اور آخر کار جنرل فضل اللہ زاہدی کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر کے مصدق کو ایک فوجی جیل میں ڈال کر روم میں جلاوطن رضا شاہ کو واپس بلا کر اس کے سر پر ایران کی بادشاہت کا تاج رکھ دیا گیا۔ یہ 19 اگست 1953ء کا واقعہ ہے اور اس وقت سے لے کر اب تک 69 سال کے عرصہ میں 72 ملکوں کے حکمران ایسے تھے جنہیں سی آئی اے اقتدار سے ہٹا کر اپنے وفادار تو لے کر آئی، مگر کسی جلاوطن کو دوبارہ تخت نہیں دیا گیا۔ عمران خان 73واں حکمران ہے جس کو ہٹانے کیلئے مبینہ طور پرمصدق والا طریقہ واردات ہی استعمال ہوا۔ آج یہ ایک خبر ہے لیکن اس حقیقت پر مہر تصدیق کچھ سال بعد شائع ہونے والے ’’ڈی کلاسیفائیڈ پیپرز‘‘ ازخود لگا دیں گے۔ مگر عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے چار دہائیاں پہلے سے ہی پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک بن چکا تھا جہاں دیومالائی داستانوں کے شہزادے اور شہزادیاں جلاوطن ہوتے، دنیا کی بڑی طاقتوں کے مہمان بنتے ہیں اور پھر انہی کی مدد اور آشیرباد سے واپس لوٹتے ہیں۔ زمانہ بدل چکا ہے، اس لئے اب تکنیک بھی مختلف ہے۔ اب کسی ’’ہمایوں‘‘ کو ’’شاہ طہماسپ‘‘ سے فوج لے کر اپنا ملک واپس فتح کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب تو امریکہ بہادر کا ایک اشارہ کافی ہوتا ہے اور اپریل 1986ء کو فرانس کے پُرتعیش علاقے میں زندگی گزارتی ہوئی بے نظیر لاہور کے پُرہجوم جلوس کی قیادت کرتی نظر آتی ہے۔ ایک بار پھر جلاوطن کر دی جاتی ہے لیکن امریکہ کے اشارۂ ابرو پر دبئی میں بااعتماد سپہ سالار سے معاہدہ طے پاتا ہے اور 18 اکتوبر 2007ء کو کراچی میں عوام اس کے منتظر ہوتے ہیں۔ عالمی طاقتوں کے دوسرے منظورِ نظر نواز شریف کو قید سے رہا کر کے آقا کے حکم پر جلا وطن کیا جاتا ہے۔ سرور پیلس جدہ سے ایون فیلڈ لندن تک ایسے آرام کے دن گزرتے ہیں کہ کاروبار بھی دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا ہے۔ پھر ایک دن اسے بے نظیر کے نقشِ قدم پر چلا کر لاہور واپس بھیجا جاتا ہے۔ بے نظیر کی وراثت زرداری کے ہاتھ آتی ہے اور پھر اگلے دس سال تک اس ملک کی بادشاہت کا تاج ان دونوں خاندانوں کی ہی میراث بنا دیا جاتا ہے۔ دوسری جلاوطنی 19 نومبر 2019ء کو اس ’’ناز و انداز‘‘ سے ہوئی کہ عدالت عالیہ بھی چشم براہ بن جاتی ہے، لیکن تین سالہ جلا وطنی کے بعد اب ’’بادشاہ‘‘ کے ہراوّل دستے کی صورت اسحاق ڈار صاحب واپس تشریف لا رہے ہیں۔ شاید ’’جلاوطن بادشاہ‘‘ کے تخت و تاج کی زیبائش و آرائش کا پہلے سے بندوبست کرنے کے لئے۔ المیہ یہ ہے کہ جس شخص کی آمد کے شادیانے بج رہے ہیں اس کا مقدمہ پاکستان کی پچھتر سالہ کرپشن کی تاریخ میں واحد مقدمہ ہے جس کے شواہد پر اگر تحقیق ہو جاتی تو لوگوں کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں۔ اسحاق ڈار صاحب نے ایک مجسٹریٹ کے سامنے دفعہ 164 کے تحت حلفیہ بیان دے کر بتایا تھا کہ انہوں نے کیسے اور کس طرح منی لانڈرنگ کی تھی۔ بیان کے ساتھ ثبوت لگائے گئے تھے لیکن گذشتہ 23 سال سے کسی نے انہیں دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی، تحقیق تو دُور کی بات ہے حدیبیہ پیپر مل کیس اپنی نوعیت کا واحد فوجداری مقدمہ ہے کہ جسے سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر بند کر دیا کہ زائدالمیعاد ہے۔ پاکستان کا پہلا فوجداری جرم جو زائدالمیعاد ہوا۔ یعنی قتل، زنا، چوری، ڈکیتی کا مقدمہ اگر ایک مدت تک عدالت میں نہ پیش ہو تو مقدمہ ختم … زائد المیعاد۔ مجسٹریٹ کے سامنے حلفیہ بیان کی پاکستانی نظامِ عدل میں اسقدر اہمیت ہے کہ لوگوں کو اس کی بنیاد پر پھانسیاں ہوئیں۔ لیکن اس کیس میں اسے ہنسی میں اڑا دیا گیا۔ ابھی بیان کی گونج جاری ہی تھی کہ ایک حکم نامہ آیا، جدہ منتقل ہو گئے، دوسرا آیا، واپس آ گئے، تیسرا آیا لندن منتقل ہو گئے، اب چوتھا آیا ہے اور واپس تشریف لا رہے ہیں۔ استقبال کرو، قمقمے لگائو، سلامیاں دو، کورنش بجالائو۔