یہ اردو مشاعروں پر بہار کا سماں تھا۔شاعر ایک مشاعرے سے فارغ ہوتے تو اگلے کے لئے رختِ سفر باندھ رہے ہوتے۔کچھ تو ایسے تھے کہ جنہوں نے اسی شاعری کے بل بوتے پر ابن بطوطہ سے زیادہ جہاں گردی کر رکھی تھی۔ایسا ہی ایک جہاں گرد‘ میرا یار امجد اسلام امجد بھی تھا جو نہ جانے کتنے برس شاعری کرتا رہا لیکن جیسے ہی وہ ٹیلی ویژن ڈرامے کے اکھاڑے میں اترا تو بڑے بڑوں کو پچھاڑ دیا اور یوں لوگ اس کی شاعری سے بھی آشنا ہونے لگے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ اپنی نظم مشاعرے میں سناتا تو پورا ہال اس کے ساتھ ہم آواز ہو کر اس کی نظمیں پڑھنے لگ جاتا۔ یہ کیفیت بہت کم شاعروں کو میسر آتی ہے۔انہی مشاعروں کے عالم بہار کا تذکرہ ہے کہ ضمیر جعفری صاحب بھی ان میں شریک ہوتے بلکہ اکثر صدر مشاعرہ ہوتے۔اپنی پر مزاح شاعری میں وہ یکتائے روزگار تھے۔انہوں نے امجد کے بارے میں ایک شعر اسی دور میں کہا تھا اور اکثر مشاعروں میں پڑھتے تھے۔یہ دراصل حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے ان کی نظم کا آخری شعر تھا: اللہ کے کاموں کی نسبت‘ اللہ کا نام زیادہ ہے اسلام تو کم ہے ٹی و ی میں‘ امجد اسلام زیادہ ہے امجد ہم سے چند برس سینئر تھے مگر عمر کا یہ تفاوت کبھی بھی پچاس سالہ دوستی اور تعلق میں محسوس تک نہ ہو سکا۔میں انہیں امجد صاحب کہتا اور وہ مجھے اوریا کہہ کر پکارتے۔ پتہ نہیں کیوں مجھے آج ان کے جانے کے بعد انہیں امجد کہہ کر مخاطب کرنے کو جی چاہ رہا ہے،اس لئے کہ ہماری دوستی کی بے تکلفی کا تقاضا یہی تھا۔ہم چھوٹے شہر کے رہنے والوں کے لئے کسی بڑے ادیب یا شاعر کی آمد ایک واقعہ ہوا کرتی ہے۔ایسا ہی ایک واقعہ 1972ء میں گجرات میں پیش آیا جب عطاء الحق قاسمی کے فن پر کنگ لائبریری میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس کی صدارت احمد ندیم قاسمی صاحب نے کی۔امجد اسلام امجد‘ گلزار وفا چوہدری اور خالد احمد ہمراہ تھے۔عطاء الحق قاسمی پر امجد کے مضمون کا آغاز ایک شاندار مزاحیہ فقرے سے تھا۔تقریب کے اختتام پر ہم سب لوگ پیدل چلتے ہوئے قاسمی صاحب اور دیگر احباب کو جی ٹی روڈ پر لاہور والی بس پر سوار کرانے گئے تو راستہ بھر شاعری تو کسی کو خاک یاد رہتی کہ ہر کوئی خوبصورت لطیفے سنانے میں کمال رکھتا تھا اور فقرے بازی تو برابر چل رہی تھی۔میری امجد اور عطاء الحق قاسمی سے دوستی کا آغاز اسی بزلہ سنجی اور لطیفہ گوئی سے ہوا اور پچاس سال کے دوران اس معاملے میں تھوڑی سی بھی کمی نہ آئی۔امجد اسلام امجد انتہائی شاندار حسِ مزاح کا مالک شخص تھا۔ایسے شخص کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ خود پر لگنے والے فقرے کا بھی لطف لیتا ہے ، امجد تو ایسے فقروں کو بار بار دہراتا تھا۔ایک واقعہ وہ اکثر سنایا کرتا کہ ’’مجھ سے ایک نوجوان نے کنگھی مانگی‘ میں نے اس سے پوچھا تم نے مجھ سے ہی کیوں مانگی۔اس نے جواب دیا‘ آپ جیسے کم بالوں والے کے پاس کنگھی ہوتی بھی ہے اور صاف بھی ہوتی ہے‘‘ اس کی پٹاری میں لطیفے اور فقرہ بازی ہی نہیں بلکہ زندگی کی محفلوں سے کشید کیے ایسے لاتعداد واقعات تھے جن میں وہ اکثر مزاح کا عنصر ڈھونڈ نکالتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ اس کا عام سا بیان کردہ واقعہ بھی مدتوں یاد رہتا۔ وہ بلا کا رومانی شاعر تھا لیکن اپنے کسی رویے سے وہ ایک دل پھینک انسان نہیں لگتا تھا۔شاعروں کی ایک ایسی محدود قسم سے تعلق رکھتا تھا جو شراب و شباب تو دور کی بات سگریٹ سے بھی کوسوں دور رہتی ہے۔جس طرح اس کی شاعری پر کالج کی لڑکیاں فریفتہ ہوتی تھیں‘ اسے بھی کسی ایک آدھ پر جواباً فریفتہ ہو جانا چاہیے تھا لیکن وہ ایسا نہ کر سکا۔یہ نہیں کہ اسے محبت کا اظہار کرنا نہیں آتا تھا۔وہ خود سنایا کرتا تھا کہ اس کی منگنی اپنی تایا زاد سے ہو چکی تھی لیکن ’’شاعر اور فقط استاد‘‘ ہونے کی وجہ سے گھر والے لیت و لعل سے کام لے رہے تھے کہ ہو سکتا ہے وہ یہ سب چھوڑ چھاڑ کر اپنے آبائی کاروبار کے لئے برانڈرتھ روڈ پر جا بیٹھے مگر کاروبارتو اس کے مزاج میں ہی نہیں تھا۔اس کی کتاب ’’برزخ‘‘ آئی تو اس نے کتاب کا انتساب اپنی منگیتر فردوس کے نام کر دیا(جس نے امجد کے گھر کو جنت بنا دیا)۔ اس طرح کے اظہار سے اس کے خاندان والے اب تک ناآشنا تھا۔اس لئے فوراً شادی کر دی گئی۔امجد اسلام امجد مجھے ڈرامہ لکھنے پر مجبور کرنے والوں میں سے تھا۔ میری شاعری کی کتاب ’’قامت‘‘ کی تقریب رونمائی میں اس نے مضمون پڑھتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ڈرامائی شاعری ہے ‘ اس میں ایک سکرین پلے اور ڈائیلاگ ہے۔اسلئے ڈرامہ لکھنا چاہیے۔پھر کیا تھا ٹیلی ویژن والے مجھ پر پل پڑے اور میں ڈرامہ لکھنے لگ گیا۔میرے لئے یہ بھی کم اعزاز کا باعث نہیں ہے کہ جب مجھے 2007ء کے پاکستان ٹیلی ویژن کے بہترین ڈرامہ نگار کا ایوارڈ ملا تو میں بوجوہ کراچی کی تقریب میں موجود نہ تھا اور کمپیئر نے امجد کو میرا دوست جانتے ہوئے اسے میرا ایوارڈ وصول کرنے کے لئے بلایا۔ امجد کی شاعری میری تنہائیوں کی ساتھی رہی ہے اور اس کی لطیفہ بازی میری محفلوں کی رفیق۔ لیکن ایک نظم میں اس سے ہمیشہ سنانے کی فرمائش کرتا تھا‘ اس کا ابتدائی حصہ پڑھیے اور جانیے کہ اس میں جو اداسی ہے وہی میری اور امجد دونوں کی اندرونی اداسی کا اظہار ہے۔ تو چل اے موسمِ گر یہ پھر اب کی بار بھی ہم ہی تری انگلی پکڑتے ہیں تجھے گھر لے کے چلتے ہیں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ امجد اسلام امجد جیسا ہنس مکھ اور مرنجا مرنج انسان اکثر چند دوستوں کے درمیان بہت دکھی ہو جاتا تھا۔اس کے دکھ ہرگز ذاتی نہیں ہوتے تھے‘ آفاقی تھے۔دنیا سے جانے سے کچھ عرصہ پہلے کراچی سے قاسم جلالی تشریف لائے تو سجاد احمد نے دعوت کی۔اس محفل کے دوران اسے اس وطن کی فکر کھائے جا رہی تھی جس سے اس نے پچھہتر سال محبت کی تھی۔اس کے ڈرامے میں پاکستان کا عام انسان جھلکتا تھا۔وہ قصور وار تھا کہ اس نے اس وطن کی مٹی سے محبت کی۔ اس نے ڈرامے کی مصنوعی زندگی کو ’’وارث‘‘ کے گائوں میں لاکھڑا کیا۔وہ کالم لکھنے لگا تو اس میں بھی وطن کے حالات نے ایک غمگین امجد اسلام امجد کو نمایاں کر دیا۔اس کے کالموں کی کتاب آئی تو اس نے اس کا انتساب میرے نام کیا۔میں کتاب لینے خود حاضر ہوا تو اظہار تشکر سے آنسو آ گئے۔گلے لگا کر کہنے لگا‘ میں کتاب میں جھوٹ بول سکتا ہوں‘ انتساب میں نہیں۔ گجرات کی کنگز لائبریری کی تقریب سے پاک ٹی ہائوس کی میزوں پر گرما گرم گفتگو سے فلیمنگ روڈ‘ گڑھی شاہو اور پھر ڈیفنس کے گھر تک اس کے ساتھ ایک لمبی رفاقت ہے۔ہر دروازے پر اس کے کشادہ بازو اور مسکراتے لفظ میرا استقبال کرتے تھے۔میرے لئے دو کام بہت مشکل ہیں‘ ایک کسی پیارے کا موت کے بعد چہرہ دیکھنا اور دوسرا جہاں اور جس جگہ اس کی یادیں وابستہ ہوں وہاں جانا۔چہرہ دیکھنے سے تو میں گریز کر لیتا ہوں لیکن وہاں جہاں امجد کے ساتھ عمر گزری ہے وہ کیسے جا سکوں گا۔لگتا ہے اس کے گھر گیا تو ایسا ہو گا کہ کسی یادوں کی طویل غار میں داخل ہو جائوں گا جہاں سے واپسی کا رستہ معلوم نہیں۔آخر میں امجد کی ہنسی کے نام پر اس پر لکھے ہوئے ضمیر جعفری کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں: بوجھو بچو! بوجھو بچو! کیا ہے اس کا نام آگے امجد‘ پیچھے امجد‘بیچ پھنسا اسلام