بعد از تہوار کے یہ دن بھی عجیب ہوتے ہے۔جیسے یاد کیے جانے اور فراموش کردئیے جانے کی درمیان کی کوئی کیفیت ہو، جیسے کوئی آکے چلا بھی جائے اور اس کا انتظار باقی رہے! عید کی سرکاری اعلان شدہ چھٹیوں کا طویل ویک اینڈ بھی ختم ہوا اور آج پاکستانی قوم پھر سے کام پر ہے۔ اخبار کی بات اور ہے یہاں اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا ,کا کلیہ صادق آتا ہے۔سرکار کے کارندے پانچ دن چھٹیاں مناتے ہیں وہاں عید پر بھی اخباری صنعت سے وابستہ کارکنوں کو صرف دو چھٹیاں ملتی ہیں۔ ان دنوں میں جب ابھی تہوار کے خمار میں گم لوگ عید کے میل ملاپ اور کھانے پینے کی سرگرمیوں میں مصروف ہوتے ہیں ،عین انہی دنوں میں اخباری صنعت اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ افراد دفتری فرائض کے لیے اپنے اپنے مورچے سنبھال چکے ہوتے ہیں۔ کالم نگار کے بھی اپنے ہی مسائل ہیں۔ ایک دن پہلے سرکاری چھٹیوں والے مزے کرتے ہیں اور ہم اپنے مقرر کردہ دن کے حساب سے آس پاس کے ہلے گلے سے بے خبر کالم لکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔اس بار معاملہ مختلف رہا۔ عید ہفتے کو آن پڑی اور ہمیں بھی طویل ویک اینڈ ملا۔ اس طرح کچھ ٹھہراؤ نصیب ہوا۔ٹھہراو اگر کہیں موجود نہیں تو وہ ہمارا سیاسی منظر نامہ ہے جہاں پر سیاستدان ،عدلیہ اور پارلیمان سمیت تمام سٹیک ہولڈرز ایک دوسرے کی گرد اڑانے میں مصروف ہیں ایسے بہت سے ایشوز کی گرد میں اٹے ہوئے تہوار کے بعد کے دن ہیں! مگر سر دست ہم نے سماج میں دراڑیں ڈالتی بدصورت سیاست اور خدشات سے بھری بیان بازی پر بات نہیں کرنی ۔ فی الحال تو ہمیں اس اداسی کا سامنا ہے جو بعد از تہوار دیوار دل پر ایک خود رو بیل کے طرح چڑھی جاتی ہے۔ تہوار کے بعد کے دن ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے بیٹی گھر سے رخصت ہوجائے تو ایکدم ہی شادی بیاہ کی ساری رونقیں روٹھ کر ایک سونے سے آنگن میں بدل جاتی ہیں اور ایک اداسی ان درودیوار پر چھاجاتی ہے جن پر پہلے خوشی کے قمقمے جگمگا رہے ہوتے ہیں ۔بعداز تہوار ایسی ہی کچھ کیفیت ہماری بھی ہے ،تہوار کی مصروفیت میں نظرانداز کیے گئے کاموں کا انبار اس بات کا متقاضی ہے کہ کمر کس لی جائی اور اپنے ادھورے کاموں کو مکمل کیا جائے۔ کام بکھرا پڑا ہے مگر نارمل روٹین میں آنے کے لیے وقت درکار ہے ۔ابھی اندر ہی اندر ایک جدوجہد جاری ہے۔ عیدالفطر کا تہوار تو پہلی رمضان سے شروع جاتا ہے۔عید کی تیاریاں، خریداری، افطار کی دعوتیں۔ پھر چاند رات ۔ خاتون خانہ کی گوناگوں مصروفیات ،گھر کی صفائی، سجاوٹ، تحفے تحائف کاسلسلہ میل ملاقاتیں ان سب کے بعد جب ایک خاموشی چھا جاتی ہے تو بے نام سی اداسی کی بیل خود بخود دل کی دیوار پر چڑھنے لگتی ہے۔کیوں ہوتا ہے ایسا ہے۔۔۔کیوں؟ جب ہم خوشی سے باتوں سے میل ملاقاتوں سے تحفے تحائف دینے اور لینے سے دعوتوں سے بھاری بھر کم کھانے کھانے سے بھر جاتے ہیں تو پھر اس بھری ہوئی جگہ پر کیسے اداسی کی خود رو بیل اگ آتی ہے۔۔ ایک برطانوی ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ پوسٹ فیسٹول ڈیپریشن دنیا بھر میں عام ہے۔کرسمس کے موقع پر برطانیہ میں ہزاروں لوگ انزائٹی کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ایک وجہ یہ ہے کہ لوگوں پر خرچ کرنے کے لیے معاشی دباؤ بڑھ جاتا ہے خاندان اور دوستوں میں دینے کے لیے تحفے تحائف خریدنے پڑتے ہیں جس سے ان کا سال کا بجٹ متاثر ہوتا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہ روٹین تھی کہ عید کے موقع پر مجھے اپنی باری پر کالم عید سے ایک دن پہلے لکھنا ہوتا تھا۔ تہوار سے ایک دن پہلے مصروفیات کا ہنگام ہوتا ہے اسی ہنگام میں جب میں لکھنے کے لیے بیٹھتی تو بچپن میں امی ابو کے سنگ گزاری بے فکری اور خوشی سے بھری ہوئی عیدوں کی پرچھائیاں میری یادوں میں پوری جزئیات کے ساتھ سانس لینے لگتیں۔ حیرت ہوتی کہ عام دنوں میں فراغت کے لمحوں میں کبھی ان یادوں کی پرچھائیوں سے ملاقات نہیں ہوتی، مگر یہ کیا اتنی مصروفیت میں جب تہوار ایک مہمان عزیز کی طرح ہمارے گھر کی دہلیز پر قدم رنجہ فرمانے والا ہے تو اس سے جڑی کیسی کیس یادیں طاق نسیاں سے اتر کر شب و روز کی گردش جھاڑ کر خود کو سجا سنوار کر میرے سامنے قطار باندھے سانس لے رہی ہیں۔ تہوارکوئی عام سا دن نہیں ہوتا ۔یہ مہمان عزیز کی آمد کا اعلان ضرور ہمارے دماغ کے کسی ایسے حصے کو مہمیز دیتا ہے جہاں اس تہوار سے جڑی یادوں کے صندوق رکھے ہوتے ہیں ۔اس تہوار کی خوشبو دماغ کے اس حصے کو ایسی مہمیز دیتی ہے کہ یادوں کے یہ صندوق خود بخود کھلنے لگتے ہیں۔ گزشتہ برس عید پر یادوں سے بھرا کالم لکھا جس میں گاؤں میں منائی جانے والی عید کا احوال لکھا۔ ریل گاڑی سے حافظ آباد کاسفر ، بارش میں حافظ آباد پہنچنا ،چاندی جیسا چمکتا جوتا بارش سے بھرے کیچڑ میں لت پت ہونا، پھر امی جان کی ڈانٹ۔۔۔ کالم پڑھ کر میں خود حیران ہوئی کہ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اتنی جزئیا ت سے مجھے سب کچھ یاد ہوگا ۔ تہوار بھی کسی پرانے گیت ،خوشبو یا کسی منظر کی طرح بھولی بسری یادوں سے رابطہ بحال کردیتا ہے۔بعد از تہوار خالی پن کی اسی کیفیت میں خورشید رضوی صاحب کی ایک کمال غزل پڑھی جس میں آدمی کی روح میں سلگتی ازلی بے نام اداسی کی کیفیت کا کیسا منفرد اظہار کیا گیا ہے دل ہو تھکن سے چور سہارا کوئی نہ بھٹکیں تو دور دور اشارہ کوئی نہ ہو کھلتا نہ ہو کہ کس نے بلایا ہمیں یہاں بس انجمن ہو انجمن آرا کہیں نہ ہو۔۔! اب تم کہیں ملو تو کریں مل کے اس کو یاد جو وقت ہم نے ساتھ گزارا کہیں نہ ہو۔۔۔! خورشید میرے دل کو سنا اپنا درد دل تو نے اگر یہ بوجھ اتارا کہیں نہ ہو۔۔!!