علی حمزہ خاں کو یاد کرتا ہوں تو سٹی کورٹ میں عاشقین کی کینٹین چشم تصور میں آ جاتی ہے جہاں کراچی کے تمام ہی اہم اخبارات کے کورٹ رپورٹرز خبروں کے تبادلے کے لئے اکٹھے ہوتے تھے۔ اسے اصطلاح میں رپورٹروں کی سنڈیکیٹ کہا جاتا ہے۔میں صحافت کی تعلیم پا کر نیا نیا اس پیشے میں داخل ہوا تھا۔اخبار نے مجھے کورٹ رپورٹنگ پہ مامور کیا تھا ۔مجھے بالکل اندازہ نہ تھا کہ عدالتوں سے خبریں کیسے حاصل کرتے ہیں ۔اس پریشانی کا ذکر میں نے اپنے دوست رپورٹر سے کیا تو اس نے تسلی دی کہ گھبرائو نہیں سٹی کورٹ میں عاشقین کی کنٹین پہ چلے جانا وہاں علی حمزہ خاں ملیں گے‘ وہ تمہاری مدد کر دیں گے ۔علی حمزہ خاں ان دنوں مشرق سے وابستہ تھے اور کورٹ رپورٹنگ کی شہرت رکھتے تھے ۔میں نے ایسا ہی کیا‘ عاشقین کی کینٹین پہ علی حمزہ خاں کے علاوہ حریت کے منظور عباس بھی تھے اور بھی بہت سے رپورٹرز تھے ان دونوں کا ذکر خصوصیت سے اس لئے کر رہا ہوں کہ رپورٹروں کی سنڈیکیٹ کے روح رواں یہی دو حضرات تھے ۔ عمروں میں دوسرے رپورٹر سے سینئر اور رویہ بھی نہایت برادرانہ اور مشفقانہ تھا۔علی حمزہ خاں ہرکس و ناکس کو برادر کہہ کر مخاطب کرنے کے عادی تھے اس لئے صحافتی حلقے میں برادر حمزہ سے مشہور تھے۔ میں نے ان سے اپنا تعارف کرایا اور اپنی مشکل بیان کی۔ میری روداد غم سن کر انہوں نے زور دار قہقہہ لگایا‘ میری پیٹھ پر دھپ جمائی اور بولے برادر یہ بھی کوئی مسئلہ ہے ؟روزانہ سہ پہر کو یہیں آ جایا کرو خبریں مل جائیں گی۔ میں نہیں سمجھا تو مجھے شش و پنج میں پا کر فرمایا: ابھی نئے نئے پنچھی ہو نہ آہستہ آہستہ سب سمجھ میں آ جائے گا ۔ واقعی چند دنوں ہی میں مجھ پر صورت حال واضح ہو گئی۔ چوں کہ ہائی کورٹ ‘ سیشن کورٹ اور سٹی کورٹ کی تمام عدالتوں سے اہم خبریں وصول کرنا کسی ایک اخبار کے رپورٹر کے لئے ممکن نہ تھا تو اس مسئلے کو اس طرح حل کیا گیا تھا کہ ہر رپورٹر اپنے اپنے طور پر عدالتوں سے جتنی خبریں حاصل کر سکتا تھا کر لیتا تھا پھر یہ تمام رپورٹرز عاشقین کی کینٹین میں جمع ہو جاتے تھے ‘جہاں منظور عباس جنہیں خبر بنانے کا سب سے زیادہ سلیقہ آتا تھا‘ خبر بناتے ہوئے بولتے جاتے تھے جسے باقی رپورٹرز نقل کر لیتے تھے۔ چونکہ میں پیشے میں نئے نئے جوش و خروش کے ساتھ آیا تھا تو یہ طریقہ تھوڑے ہی دنوں بعد کھلنے لگا کیونکہ سارے اخبارات میں ایک ہی جیسی خبریں چھپتی تھیں اور عدالت کی کوئی ایکس کلوسیو خبر کسی اخبار میں لگتی ہی نہیں تھی۔جب خبریں حاصل کرنے کا طریقہ مجھے معلوم ہو گیا تو میں نے عاشقین کی کینٹین پہ جانا چھوڑ دیا اور عدالتوں کے پیش کاروں سے مقدمات کی فائلیں لے کر ضروری نکات نوٹ کر کے اپنے طور پر خبریں دینے لگا۔لیکن جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ میں کتنے پانی میں ہوں۔مجھ سے خبریں مس ہونے لگیں اور سٹی ایڈیٹر صاحب کی طنزیہ پرسش کا میں نشانہ بننے لگا۔مرتا کیا نہ کرتا عاشقین کینٹین پہ حاضر ہونے پہ مجبور ہوا اور سنڈیکٹ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا پڑا۔برادر حمزہ اور منظور عباس صاحب نے میری سرکشی کا ذرا بھی برا نہ مانا۔دونوں ہی سراپا محبت و اخلاص کا پیکر تھے۔ برادر حمزہ اب اس دنیا میں نہیں رہے تو ان کی شفقتیں ان کی بے تکلفی اور ہر ایک کے کام آنے کی عادت دیرینہ کو یاد کر کے مغموم ہوں۔برادر علی حمزہ نے ترقی کا سفر بہت نیچے سے شروع کیا ۔ غربت و افلاس کے ماحول میں آنکھ کھولی ۔ابتدا میں ذریعہ معاش کے لئے اخبار کی ہاکری تک کی۔ سائیکل پر اخبارات رکھے منہ اندھیرے نکلتے تھے اور گھروں میں اخبار ڈالتے جاتے تھے ۔اسی دوران تعلیم کا شوق ہوا تو محنت و مشقت کے ساتھ تعلیم بھی حاصل کی اور پھر اخبار ہی میں نوکری کر لی۔رپورٹنگ میں ان کی بیٹ کورٹ ہی تھی ۔اپنے اچھے اخلاق اور حسن سلوک سے وہ جس سے ملتے تھے گرویدہ بنا لیتے ۔وکلاء حضرات اور جج صاحبان سے ان کے مراسم بے تکلفانہ تھے۔ان تعلقات کا فائدہ وہ ضرورت مندوں کو پہنچاتے تھے۔کوئی بھی اپنی ضرورت کے ساتھ ان کے پاس پہنچ جاتا تھا وہ اس کی سفارش کے لئے نہایت بے غرضی سے تیار ہو جاتے۔ جس جج یا وکیل سے وہ سفارش کرتے ممکن نہیں کہ وہ انکار کر دے یا معذرت کر لے ۔انہوں نے سینکڑوں لوگوں کے کام کئے اور کرائے اور مجال ہے جو ان کا کبھی عوض چاہا ہو۔کبھی کبھی بڑے مزے کی باتیں کرتے تھے۔ ایک جج صاحب کا تذکرہ کر کے کہنے لگے‘‘ یار بعض دوسرے جج غلط فیصلہ کرنے کی رشوت لیتے ہیں‘ یہ جج صاحب ایسے ہیں کہ صحیح فیصلہ کرنے کے بھی پیسے لیتے ہیں۔‘‘ اسی زمانے کا واقعہ ہے کہ کراچی کے ایک مشہور آرتھو پیڈک سرجن رحیم پہ ہرجانے کا مقدمہ چل رہا تھا انہوں نے غفلت سے ایک لڑکے کی زخمی ٹانگ کا غلط علاج کیا۔نتیجے میں ٹانگ کاٹنی پڑ گئی۔لڑکے کے باپ نے ہر جانے کا مقدمہ کر دیا۔ مقدمہ دس بارہ سال تک چلتا رہا۔ہم رپورٹرز ان سماعتوں کی روداد پابندی سے چھاپتے رہے۔ عدالت نے فیصلہ سرجن رحیم کے خلاف کر دیا اور اسے ہر جانے کی رقم ادا کرنے کا حکم دیا ۔یہ خبر اگر اخبارات میں چھپتی تو سرجن صاحب کی پریکٹس پر اس کا برا اثر پڑتاچونکہ وہ باثر تھے تو انہوں نے سارے اخبارات میں خبر رکوانے کے لئے اپنا اثرورسوخ استعمال کیا۔ان کا فون میرے اخبار کے منیجنگ ڈائریکٹر کے پاس آیا لیکن ایڈیٹر محمد صلاح الدین ڈٹ گئے کہ نہیں خبر تو چھپے گی۔چنانچہ اگلے روز صرف ہمارے ہی اخبار میں وہ خبر شائع ہوئی۔برادر حمزہ نے بڑے جوش سے کہا کہ :برادر تمہارا ایڈیٹر واقعی بہادر ایڈیٹر ہے۔ مشرق سرکاری اخبار تھا جب بند ہوا تو عارف الحق عارف انہیں جنگ میں لے گئے ۔باقی عمر انہوں نے اسی اخبار کے لئے کورٹ رپورٹنگ کی۔وہی راوی ہیں کہ جب وہ‘ محمود احمد مدنی اور نصیر ہاشمی حج پہ جانے لگے تو برادر حمزہ ان کے پاس آئے اور نہایت درد مندی سے گزارش کی کہ برادر آپ اللہ کے گھر حاضری کے لئے جا رہے ہیں میری شادی کو ایک زمانہ گزر چکا ہے اور ابھی تک اولاد سے محروم ہوں وہاں میرے لئے دعا کیجیے گا کہ خدا مجھے بھی اولاد کی نعمت عطا کر دے ۔تینوں حضرات سے انہوں نے الگ الگ یہ درخواست کی اور تینوں نے اپنا وعدہ نبھایا اور خدا کا کرنا دیکھئے کہ چند ہی برسوں میں ان کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوئے جو آج اعلیٰ عہدوں پہ ہیں۔ برادر حمزہ کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور گروپ کے صدر رہے لیکن ان کے مراسم تمام صحافیوں سے دوستانہ اور برادرانہ رہے۔اپنی نیکیوں اور خدمت خلق کے مخلصانہ جذبوں کے ساتھ بیاسی سال جیے۔خدا وند تعالیٰ ان کے اگلے مرحلوں کو آسان بنائے۔انسان خطا کا پتلا ہے یہ ممکن نہیں کہ اس سے خطا یا گناہ سرزد نہ ہو۔لیکن پسندیدہ آدمی وہ ہے جس کی نیکیاں اس کی لغزشوں سے زیادہ ہوں اور جس کا دامن لوگوں کی دعائوں بھرا ہو ۔ کبھی بھولے بھٹکے سٹی کورٹ جانا ہو تو عاشقین کی کینٹین کو دیکھ کر دھوکا سا ہوتا ہے کہ برادر حمزہ اور منظور عباس بیٹھے ہیں‘خبریں لکھی جا رہی ہیں اور چائے کا دور چل رہا ہے۔برادر حمزہ ہمارے حافظوں میں تب تک ہیں جب تک ہم ہیں۔