انتخابات ‘ انتخابات کی رٹ ہے لیکن کیا انتخابات ہمارے مسائل کا حل اور ہمارے دکھوں کا علاج ہے؟ 1970ء کے بعد سے مسلسل انتخابات ہوتے آ رہے ہیں لیکن کیا اس سے ملک کے دکھوں کا درماں ہو گیا۔ اس تباہ حال جمہوریت سے ہم اپنے ملک کے حقیقی مسائل کو کبھی حل نہیں کر سکیں گے۔ہمارے ہاں جمہوریت محض ایک دھوکہ ہے عوام کی حکمرانی کا۔سیاسی جماعتیں بھی صرف اسی جمہوریت کو تسلیم کرتی ہیں جس میں ان کو حکمرانی کا حق حاصل ہو۔جن انتخابات میں انہیں شکست فاش ہو‘ وہ ان کے انتخابی نتائج کو تسلیم ہی نہیں کرتیں۔ ہم کہتے ہیں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور حکمرانی کا حق عوام ہی کو حاصل ہے۔لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ یا یہ محض ایک دلفریب نعرہ ہے ۔آخر کیا وجہ ہے کہ عوام سے مینڈیٹ لینے کے باوجود کوئی حکومت اور حکومت کا کوئی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر پاتا۔نادیدہ قوتیں جب چاہتی ہیں کسی نہ کسی بہانے اپنی ہی لائی ہوئی حکومت کا دھڑن تختہ کر دیتی ہیں اور عوام منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں کیا اسی کا نام جمہوریت ہے؟اگر یہ جمہوریت نہیں ہے تو پھر کون سی جمہوریت کی تمنا کی جائے۔پرامن انتقال اقتدار کا کون سا طریقہ وضع کیا جائے۔ سیاست کا میدان ہمارے ملک میںغلاظت سے لتھڑا ہوا ہے اور اس پہ چند سو خاندانوں کی اجارہ داری سالہا سال سے ہے۔وہی جاگیردار‘ وڈیرے‘ سرمایہ دار‘ خوانین اور سردار‘ شہری آبادی کے صنعت کار، تجاّر اور مراعات یافتہ طبقات۔متوسط طبقوں کے جو نمائندے سیاست میں قدم رکھتے ہیں وہ بھی کرپٹ ہو کر طبقہ امراء میں اپنا شمار کرا لیتے ہیں۔ملک کے حقیقی مسائل کو کوئی برسراقتدار آنے والی جماعت ایڈریس نہیں کرتی۔جب ملک کو معاشی بدحالی کی وجہ سے چلانا ہی دشوار تر ہو تو حقیقی مسائل کی طرف حکومت متوجہ ہو بھی تو کیسے؟ ۔کوئی بھی جماعت ایسی نہیں ہے جس کے پاس ملکی مسائل کو سلجھانے کا ہوم ورک مکمل ہو۔یہ سطحی نعرے بازی اور جلسے جلوس کرنے کی عادی ہیں اور ان ہی کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں اور جب حکومت میں آ جاتی ہیں تو سارا وقت پچھلی حکومت کو کوسنے دینے میں گزار دیتی ہیں۔پچھلی حکومت کی بدعنوانی اور بدقماشی ہی کی بنا پر تو دوسری سیاسی جماعت کو حکومت بنانے کا موقع دیا جاتا ہے تو پھر ترقی اور اصلاح احوال میں ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیوں؟ اصل بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں نالائق ہیں اور ان کی نالائقی ہی نے سیاست میں مقتدر طبقات کو مداخلت پر مجبور کر رکھا ہے۔ سیاست ایک ایسی ڈرٹی پالٹیکس بن گئی ہے کہ ہوش مند‘ سمجھدار اور بصیرت کا حامل طبقہ یا تو اس کوچے کا رُخ نہیں کرتا اور جو رُخ کرنا چاہتا ہے اسے کوئی رستہ نہیں ملتا۔المیہ یہ بھی ہے کہ قومی سیاست کا محدود مرکز شخصیت پرستی ہے۔یہ ہمیشہ کسی نہ کسی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔خاندانی اور موروثی سیاست ایک تکلیف دہ بیماری تو ہے ہی جس کا سورج اب غروب ہوتا نظر آ رہا ہے۔لیکن بہت نقصان پہنچانے کے بعد۔لیکن موروثی سیاست کی جگہ بھی کوئی جماعتی ادارہ نہیں لے رہا۔شخصیت ہی اب بھی مرکز و محور ہے۔یہ سوچے بغیر کہ اگر شخصیت پر ہی انحصار ہے تو شخصیت کے منظر سے غائب ہونے کے بعد کیا ہو گا؟قومی سیاست کا سب سے بڑا روگ یہی شخصیت پرستی ہے اور یہ صدیوں تک اس خطے میں نافذ رہنے والی بادشاہت اور شہنشاہیت کی یادگار ہے۔ تبدیلی جڑ سے آتی ہے جسے گراس روٹ لیول کہا جاتا ہیلیکن ایسی تبدیلی کے لئے کتنا عرصہ درکار ہو گا؟ اور یہ تبدیلی لائے گا کون؟ مقبولیت اور ہر دلعزیزی لیڈر کے ذہن کو کتنا مسموم کر دیتی ہے اس پر ذرا کم ہی غور کیا گیا ہے۔جب لاکھوں افراد جلسہ گاہوں کو آباد اور بارونق بنا دیں اور نعرے ایسے لگائے جائیں کہ ملک کو کون بچائے گا فلاں صاحب اور فلاں سیاست داں تو ایسے نعرے اور ایسی عقیدت لیڈر کے اندر خود اس کی اپنی ذات کے بارے میں کیسی کیسی خوش گمانیاں پیدا کر د یتی ہے۔ خرابیاں اپنے پھیلائو اور گہرائی میں اتنی دور تک ہیں کہ بتدریج اصلاح صدیوں کا تقاضا کرتی ہیں۔کیا کوئی قوم اور ملک تبدیلی و اصلاح کے لئے صدیوں تک انتظار کر سکتے ہیں؟ہمارے سامنے ایسے بہت سے ملکوں کی مثال ہے جنہوں نے چند دہائیوں میں اپنے مسائل حل کر لیے۔سامنے کی مثال بنگلہ دیش کی ہے جو ترقی کی دوڑ میں نہ صرف ہم سے آگے نکل گیا بلکہ اپنے سیاسی اور معاشی مسائل بھی حل کر لئے۔لیکن اس کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اسے ان پیچیدہ سیاسی‘ معاشی‘ ثقافتی‘ مذہبی اور لسانی مسائل کا سامنا نہ تھا جو ہمیں ہے اور سالہا سال سے ہے۔بنگالی اپنی آزادی کے بعد سے ایک قوم ایک زبان ایک مذہب ایک ثقافت کے حامل تھے۔جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی تھی نہیں۔ایک قوم کے طور پر اپنے آپ کو منوانے اور تسلیم کرانے کا جذبہ تھا۔فوج پر سیاسی بالادستی کا مسئلہ سب سے اہم تھا‘اس پر قابو پاکر وہ نہایت اعتماد سے ترقی کے سفر پہ روانہ ہو گئے اور ہم ابھی تک اپنے بنیادی مسئلوں ہی میں الجھے ہوئے ہیں۔لیکن ایسا جنہیں ہے کہ تبدیلی کا عمل ہمارے ہاں شروع نہیں ہوا عوام میں بیداری کا جذبہ موجزن ہو چکا ہے۔ تبدیلی کی خواہش شدید ہے موروثی سیاست سے بیزاری اور نفرت ہے۔قومی انا اور خودداری جاگ چکی ہے بہت سے اداروں میں اصلاح احوال کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔اداروں کا غیر ضروری تقدس بھی اٹھتا جاتا ہے اور جرأت اظہار بھی کچھ کم نہیں۔چار اطراف جو شور و غوغا ہے اس میں سب کچھ بے معنی نہیں بہت سے بامعنی پہلو بھی ہیں جو ہماری قومی زندگی کے پردے پہ نئے رنگ ابھار رہے ہیں۔گویا تخریب و تعمیر پہلو بہ پہلو بانہوں میں بانہیں ڈال کے آگے بڑھ رہے ہیں ۔تخریب کا تناسب بے شک تعمیر کے مقابلے میں ابھی زیادہ ہے لیکن آہستہ آہستہ تعمیر کا تناسب تخریب سے بڑھ جائے گا۔ یہ قدرت کی طرف سے تبدیلی کا اہتمام ہے۔ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ ملک ارادۂ خداوندی سے وجود میں آیا ہے‘ اب تک اسی انہی ارادے سے یہ محفوظ چلا آتا ہے اور آئندہ بھی جو نجات اس ملک و قوم کو ملے گی وہ بھی رحمت خداوندی کا نتیجہ ہو گا۔لیکن اس میں ہمارے ذمہ داری کیا ہے؟سب سے پہلی ذمہ داری اور فریضہ اپنا کام ایمانداری سے کرنے کا ہے۔فرد اپنے آپ کو ٹھیک کرے۔اجتماعی تباہی کو روکنے میں انفرادی نیک اور خیر کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔یہ سوچنا کہ ایک میرے کرنے سے کیا ہو جائے گا انتہائی گمراہ کن فکر ہے اندھیرے میں جلنے والی ایک تیلی بھی پورے ماحول کو روشن کر دیتی ہے اس لئے نظام بدلنے کا انتظار کئے بغیر ہی اپنا فریضہ ایمانداری سے ادا کرنا۔تبدیلی کے عمل کا آغاز ہے میں جب تک خود اچھا نہیں ہو گا مجھ پر مسلط نظام بھی اچھا نہیں ہو سکتا۔یہ جان لینا چاہیے اور یہی سوچ کر قدرت کے فضل و کرم کو نتیجہ خیز بنانے میں حصہ لینا چاہیے رہی ٹوٹی پھوٹی اور لنگڑی لولی جمہوریت اس کا علاج بھی کچھ نہ کچھ نکل آئے گا۔جب سب کچھ ٹھیک ہوتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ بیمار جمہوریت صحت یاب نہ ہو۔