حرمت رسول پرجان بھی قربان ہے کے نعرے کا عملی تقاضا یہ ہے کہ عالم اسلام کی طرف سے بھارت کو گستاخی اوراہانت پر سزا مل جانی چاہئے اوراس سزا کی ابتدا بھارت سے تجارتی بائیکاٹ سے ہو جانا چاہیے ۔ یہ ضرور ہوسکتا ہے لیکن اس کے لئے عرب سے عجم تک تمام مسلمان ممالک کے حکمرانوں کو سرجوڑکر بیٹھناہو گا۔ صورتحال کشیدہ ہے اور حالات گھمبیرکیونکہ بھارت کی حکمران ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اراکین نے اہانت آمیزاورگستاخانہ گفتگو سے اہل اسلام کے دل چھلنی کر دیئے ہیں۔بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے دوملعون اراکین کے غلیظ منہ سے توہین آمیزگفتگو پر عرب مالک میں بھارت کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیاہے لیکن عجم ہنوز خاموش ۔ عرب ممالک نے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیا۔ اتوار 5 جون 2022ء کو قطر نے بھارتی سفیر کو بھی طلب کیا، تو کویت نے بھی اسی طرز پر بھارتی سفیر کو طلب کیا۔قطر کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ان توہین آمیز بیانات سے نہ صرف قطری عوام بلکہ دنیا بھر کے اربوں مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔ قطرکی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد محمد الانصاری نے کہا کہ ’’قطر کی حکومت بھارتی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ فوری طور پر دنیا بھر کے تمام مسلمانوں سے معافی مانگے‘‘ ۔کویت اور ایران کی جانب سے بھارتی سفارت کار کو طلب کرنے کے بعد سعودی عرب نے بھی ایک بیان جاری کیا۔ریاض میں وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما کے تبصروں کو’’توہین آمیز‘‘ قرار دیا گیا۔پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی پیغمبر اسلام کی توہین کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ٹویٹ میں کہاکہ'ہم یہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ مودی کے اقتدار میں بھارت مذہبی آزادی کو ختم کر رہا ہے اور مسلمانوں سے برا رویہ رکھ رہا ہے۔ 28 مئی2022ء ہفتے کوبی جے پی کی ترجمان ملعونہ نوپور شرمانے بھارت کے مقامی نیوز چینل( TIMES NOW)کے پروگرام میں شرکت کے دوران گستاخی کی مرتکب ہوکر اہل اسلام کے دلوں کو چھلنی کردیا جبکہ اس دوران بی جے پی دہلی کے ترجمان نوین کمار جندال نے بھی گند اچھالتے ہوئے اس نے بھارت کی حکمران جماعت اوراس کے لیڈر مودی کی اصلیت ایک بار پھر طشت ازازبام کردی۔ گوکہ اسلامی ممالک خصوصاً عرب ممالک کی جانب سے آنے والے ردعمل کے باعث بی جے پی نے نوپور شرما کی پارٹی کی بنیادی رکنیت معطل کر دی جبکہ نوین جندال کو پارٹی سے نکال دیا گیا ہے۔ لیکن یہ ایک کھلا دھوکہ ہے کیونکہ اسلام دشمنی اورشعائر اسلام کی توہین کرنا بی جے پی کے ناپاک ایجنڈا ہے ۔نوپور شرما بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجمان ہیںاس نے2015ء کے اسمبلی انتخابات میں نئی دہلی کی سیٹ سے دہلی کے موجودہ وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے خلاف الیکشن لڑاتاہم وہ الیکشن نہیں جیت سکیں اسکے باوجودصرف اسلام اورمسلم دشمنی کے باعث بی جے پی کی ریاستی ایگزیکٹو کمیٹی کی رکن اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے یوتھ ونگ ’’بھارتیہ جنتا یووا مورچہ ‘‘کی چیئرپرسن ہے۔ آپ کویاد ہوگاکہ15 مارچ 2022ء منگل کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنے اجلاس میں ہر سال 15مارچ کو’’انٹرنیشنل ڈے ٹو کامبیٹ اسلامو فوبیا ‘‘قراردے دیا۔اقوام متحدہ نے بالآخر آج دنیا کو درپیش اسلامو فوبیا، مذہبی رسومات کی تعظیم، منظم نفرت انگیزی کے انسداد اور مسلمانوں کے خلاف تفریق جیسے بڑے چیلنجز کا اعتراف کیا۔ اب چونکہ اس تاریخی قرارداد کا نفاذ یقینی بنانا اب اقوام متحدہ کا امتحان ہے ۔یاد رہے کہ اسلام دشمنی کا ایجنڈا رکھنے والا بھارت اس خطے کا واحد ملک ہے کہ جس نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ 15مارچ یوم اسلامو فوبیا قرار پانے پر بھارت پریشان آخر کیوں ہے۔ دراصل بھارت اس قرارداد کی زد میں آرہاہے۔ اس وقت دنیائے مغرب کے علاوہ مشرق میں بھارت واحد ملک ہے کہ جہاں اسلاموفوبیا پایا جا رہا ہے ۔ بھارتی میڈیا بڑے پیمانے پرجانبدارانہ رپورٹنگ اور ایسے زہرناک تبصرے اور ایسے زہر گداز تجزیئے پیش کرتاہے کہ پورے بھارت میںاسلام اورمسلم دشمنی کا طوفان بدتمیز امڈ آتا ہے۔ بھارت کے لگ بھگ تمام ٹی وی چینلوں پرجان بوجھ کر کسی ناپاک شخص کو پروگراموں میں شرکت کیلئے مدعو کیا جاتا ہے۔ بھارت میں اسلامو فوبیا پھیلانے میں بھارتی میڈیا اپنا کردار بھر پور طریقے سے ادا کرتا ہے۔ مسلمانوں کی شناخت سے لے کر ان کے وجود کے خاتمہ کی سعی کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ سے لے کر انکی ذاتی زندگی تک داؤ پر ہے۔ باریش مردوں اور باپردہ عورتوں کو ملازمت سے بے دخل کر دیا جا رہا ہے۔ حجاب پرپابندی لگائی جارہی ہے ، گائے کے ذبیحہ کے الزام پرمسلمانوں کوذبح کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو سوسائٹی اور اپارٹمنٹ میں گھر دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔مسلمانوں کو ٹوپی اور داڑھی اورانکے ساتھ باپردہ خواتین کی وجہ سے ہوٹلوں سے نکال دیا جاتا ہے۔موجودہ حکمران جماعت بی جے پی کی زیر سرپرستی میں پنپ رہی درجنوںہندودہشت گرد تنظیموں کی طرف سے مسلمانان بھارت کے تئیں بے شمار شبہات اور من گھڑت باتیں پھیلائی جارہی ہیں۔ ان باتوں سے مسلمانوںکے تئیں ہندوؤں میں نفرت و عداوت کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ جس کا سیدھا فائدہ مشتعل ہندو لیڈروں کو ہوتا ہے۔ بھارت کی موجودہ حکمران جماعت اوراس کے زیر تربیت تمام ہندوجتھوں،گروہوں اورتنظیموںکی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ مسلمانان بھارت کی بڑھتی آبادی سے ہندوستان میں عنقریب اکثریت میں ہوں گے اورہندواقلیت میں ۔ بے سروپا اور جھوٹا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ بھارتی مسلمان اس منصوبے کی تکمیل کے لئے زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کر رہے ہیں اوراس طرح وہ بھارت میں اپنی آبادی بڑھارہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ 2050 کے بعد بھارت کا کوئی پردھان منتری ’’وزیراعظم‘‘ کوئی ہندو نہیں بلکہ مسلمان ہو گا۔ مسلم آبادی کا خوف دلا کر لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھائی گئی کہ اگر مسلمانوں کی حکومت آگئی یا وہ اس ملک کے وزیراعظم بن گئے تو ہندوؤں کے حقوق سلب کر لیے جائیں گے، انہیں ’’دوبارہ غلامی کے دور‘‘ میں جینا ہوگا اور ظلم و جور کی ایک نئی تاریخ ہندوؤں کے خون سے لکھی جائے گی۔