پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر میں ریاست کا کوئی ادارہ بھی اب ایسا نہیں رہا جو درپیش سیاسی بگاڑ اور اس سے پیدا شدہ صورت حال کو سنبھال سکے ۔ اداروں کے درمیان ٹکراو اور غلبہ کے رجحانات اس قدر پختہ ہو چکے ہیں کہ ہر ادارہ بزعم خود ایک ریاست بن چکا ہے ۔ آئین اور اس کے تقدس کی باتیں تو سب ہی کرتے ہیں مگر اسی آئین کی عملداری کے لئے ہر کوئی اپنی من مانی تعبیر چاہتا ہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے ریاستی اور سیاسی ادارے آئین کے مطابق چلنا نہیں چاہتے بلکہ آئین کو اپنے طرز عمل کے مطابق ڈھالنے پر مصر ہیں۔ اداروں کا یہ طرز عمل ان کے انحطاط اور زوال کا نقطہ ء عروج ہے۔جوکسی بھی ریاست کی سلامتی کے لئے لمحہء تشویش ہے ۔ پارلیمنٹ اور اعلی عدلیہ کے مابین موجودہ کشمکش جس کے نتائج نہ صرف ان دونوں اداروں کی ساکھ اور کارکردگی کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ اس نے پورا ریاستی ڈھانچہ ہی کمزور کر دیا ہے ۔ عدلیہ اور پارلیمنٹ جنہیں آئین کے مطابق سیاسی نظام کو چلانے اور اس کی نگہبانی کے ذمہ دار اداروں کے طور پر فعال ہونا چاہیئے بدقسمتی سے یہ دونوں ادارے اپنی موجودہ روش کے تناظر میں اس سے انحراف کی پالیسی پر کاربند نظر آرہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے الیکشن کا معاملہ ان دونوں اداروں کے درمیان جس نہج پر پہنچ چکا ہے اس کے نتائج کسی کے لئے بھی سود مند نہیں ہوں گے ۔ سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کے درمیان اختلافات کا ہونا ایک امر واقعہ ہے مگر جب یہ اختلافات اعلی عدلیہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں تو پھر سیاست اور ریاستی نظام سب کچھ تلپٹ ہو کر رہ جاتا ہے۔ جس کا خمیازہ بالآخر ریاست اور اس کے شہریوں کوہی اٹھانا ہوتا ہے۔ قانونی موشگافیوں سے قطع نظر اعلی عدلیہ کی جانب سے اٹھائے جانے والے حالیہ اقدامات سے عدلیہ کا سیاسی جھکائو واضح طور پر سامنے آیا جو عدلیہ جیسے اعلی ریاستی ادارے کے لئے ہر گز مناسب بات نہیں ہے۔ پنجاب اسمبلی کے الیکشن کے لئے مالیات کی فراہمی کے لئے سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ ،حکومت،وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بنک سمیت سب کو ہی جواحکامات جاری کئے ہیں اس سے اس قضیہ میں اور الجھائو پیدا ہو گیا ہے جس سے نکلنا بتدریج مشکل ہوتا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ کے مابین یہ کشمکش شروع ہی نہیں ہوتی اگر اعلی عدلیہ اس معاملہ پر از خود نوٹس ہی نہ لیتی جیسا کہ اعلی عدلیہ کے بعض معزز ججز کا بھی یہ خیال تھا۔ عدالتوں پر اعتماد اس ادارے کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتا ہے اگر یہ کسی بھی وجہ سے متزلزل ہو جائے تو پھر اس کا وقار اور احترام اور اس کے فیصلے تنازعات کا شکار ہو جاتے ہیں ۔موجودہ صورت حال میں نہ صرف پارلیمنٹ اور عدلیہ کی محاذ آرائی مسلسل بڑھ رہی ہے بلکہ عدلیہ کے ججز کے مابین افتراق بھی نمایاں ہوا ہے جس سے اس ادارے کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔گزشتہ سال اپریل میں وفاق میں عمران خاں کی حکومت کے خاتمہ کے بعد سے سیاست میں جو نفرت انگیز شدت پیدا ہوئی ہے،اس نے سیاست اور ریاست ہر دو کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔کوئی بھی ادارہ کوئی بھی سیاسی جماعت،حکومت میں ہو یا اس سے باہر ہر ایک نے اپنی سیاسی اور آئینی ذمہ داریوں سے انحراف کیا ہے۔سیاسی مفادات کی خاطر ریاست اور اس کے شہریوں کو جس بے یقینی اور اضطراب اور مشکلات سے دوچار کیا ہے، اس سے کوئی بھی بری الذمہ نہیں۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سیاست میں اختلافات کو نفرت کی حد تک لے جانے کی روش کا آغاز عمران خاں سے ہوا۔اس میں جو اختصاص انہیں حاصل ہے وہ ان کا ہی امتیاز ہے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انہوں نے اپنی احتجاجی سیاست سے پاکستان کی سیاست کا مزاج بدل کر رکھ دیا۔ کارکنوں کی سیاسی وابستگی کو انہوں نے جس طرح شخصی عقیدت کے حصار میں لیتے ہوئے اپنی مقبولیت کو بر قرار رکھا ہے اور اسے اپنی طرز سیاست میں بدرجہ کمال استعمال کیا ہے۔ اس کی مثال حالیہ سیاسی تاریخ میں کسی اور کی نہیں۔ تاہم انہوں نے اپنی اس مقبولیت کو درست اور مثبت طرز سیاست کے لئے استعمال نہیں کیا۔سیاست دانوں کی کرپشن کے خلاف ان کا بیانیہ خواہ کتنا ہی درست کیوں نہ ہو مگر وہ اپنے دور حکومت میں اسے نتیجہ خیز نہیں بناسکے۔ اپریل 2022 میں اپنی وفاقی حکومت کے خاتمہ کے بعد سے ان کے غلط سیاسی فیصلوں نے نہ صرف پاکستان کی سیاست کو الجھا کر رکھ دیا ہے بلکہ ان کی مسلسل احتجاجی سیاست نے ریاست کی مشکلات میں بھی اضافہ ہی کیا۔ موجودہ سیاسی اور اداراتی بحران سے نکلنے کی کلید آج بھی عمران خاں کے پاس ہے وہ اگر ضد،انانیت اور ہٹ د ھرمی پر مبنی رویوں کو ترک کرتے ہوئے زمینی حقائق کو تسلیم کرلیں اور موجودہ حکومت کی سیاسی حیثیت ، خواہ وہ کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو،اس سے مذاکرات کے لئے آمادہ ہو جائیں اور پورے ملک کی سطح پر ایک ساتھ الیکشن کے لئے کسی مناسب وقت کا تعین کر لیں۔یہ بات طے ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت کی سیاسی ساکھ کمزور ہے اور ان کی شخصی اور سیاسی مقبولیت آج بھی برقرار ہے ۔ دو چار ماہ کے التوا سے ان کی سیاسی پذیرائی میں اضافہ ہی ہوگا ،کمی ہر گز نہیں۔