اسلامی تاریخ میں بغداد علم و عرفان کا مرکز اور فقر و تصوف کے مسکن کے طور پر ہمیشہ معروف اور معتبر رہا۔ معجم البلدان نے اسے ’’سیّدُ البلاد‘‘ اور’’ اُمُّ الدنیا‘‘کے لقب سے بھی یاد کیا ۔ دجلہ و فرات کی زرخیزیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے، یہ قطعہ اور خطہ اسلامی تاریخ کی تابناکیوں اور تابداریوں کا مظہر، اسلامی ثقافت وتمدن کا مرکز اور حنفی وحنبلی فقہ کا مسکن بنا۔ بنت الحکمۃ سے لیکر النظامیہ اور المستنصریہ جیسی عظیم دانشگاہیں اس سر زمین کا طرۂ امتیاز تھیں ۔۔۔ جن کے اثرات پوری بلادِ اسلامیہ کے مدرسہ سسٹم میں آج بھی محسوس ہوتے ہیں ۔ جن کے سامنے آج کی ہارورڈ اور آکسفورڈ کی تعلیمی چکا چوند ماند پڑتی محسوس ہوتی ہے۔ بغداد، جہاں ایک طرف جہانبانی اور جہانداری کی تاریخ میں نمایاں رہا کہ اس میں ابو جعفر منصور سے لیکر ہارون ومامون کی سطوتِ شاہی کے نقوش ثبت ہیں، وہیں تصوّف وطریقت اور حکمت و معرفت کے آئمہ نے بھی اس سرزمین کو اپنے وجود کی برکتوں سے معمور کیا، تاہم جس ہستی کے فیضِ وجود سے یہ خطہ دنیا میں بہت زیادہ ممتاز اور معتبر ہوا، وہ الشیخ محی الدین عبدالقادر الجیلانی ؒ ہیں، جن کے لیے پنجاب کے عظیم صوفی حضرت سلطان باہوؒ یوں گویا ہوئے: ب بغداد شہر دی کیا نشانی، اُچّیاں لَمّیاں چِیراں ھُو تَن مَن میرا پُرزے پُرزے، جیوں درزی دِیاں لِیراں ھُو اینہاں لِیراں دِی گل کفنی پا کے ، رَلساں سَنگ فقیراں ھُو بغداد شہر دے ٹُکڑے مَنگساں باہو ، کرساں مِیراں مِیراں ھُو اسی بغداد میں ’’جیلان‘‘ کے اتقیا و علما سے اکتسابِ فیض کے بعد، 18سال کی عمرِ مبارک میں ، حسنی اور حسینی نسبتوں سے مزّین اور بیوہ ماں کی آرزوؤں اور امنگوں کے محور۔۔۔ جس عظیم المرتبت ماں نے علم کی طلب اور صدق پر استقامت کے وعدے کیساتھ ، اپنی خدمت کے حق کو موقوف اور ممتا کو قربان کرتے ہوئے، روزِ محشر ملاقات کا عندیہ دے کر ، حصولِ علم کے لئے بغداد روانہ کیا، مولانا جامی کی ’’نفحات الانس‘‘ میں یہ منظر یوں محفوظ ہے : ’’میں نے اپنی والدہ سے کہا ، مجھے خدا کے کام میں لگا دیجئے اور اجازت مرحمت کیجئے، کہ بغداد جا کر علم میں مشغول ہو جاؤں اور صالحین کی زیارت کروں۔ والدہ رونے لگیں، تاہم مجھے سفر کی اجازت دے دی اور مجھ سے عہد لیا کہ تمام احوال میں صدق پر قائم رہوں۔ والدہ مجھے الوداع کہنے کے لیے بیرون خانہ تک تشریف لائیں اور فرمانے لگیں:تمہاری جدائی ، خدا کے راستے میں قبول کرتی ہوں، اب قیامت تک تمہیں نہ دیکھ سکوں گی‘‘۔ عجب اتفاق کہ جن ایام میں حضرت الشیخ عبدالقادر الجیلانیؒ اپنے وجودِ سعید کی برکتوں سے بغداد کو معطر اور منور فرمانے آرہے تھے، انہی دنوں دنیائے فکر وفن کے امام حجۃُ الاسلام الغزالی ؒبغداد کو خیر باد کہتے ہوئے، دنیا کو اس سمت متوجہ کر رہے تھے کہ علم اگر روح کی شادابی اور نفس کی پاکیزگی کا باعث نہ بنے ،تو محض ایک فن ہے ، علم کو اگر دنیائے انسانیت کی بقا کا ضامن اور فلاحِ آدمیت کا وکیل بننا ہے، تو اس کو روح کی بالیدگی کا امین بننا ہوگا۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ 18سال کی عمر میں راستوں کے غبار پر صداقتوں کا نور بکھیرتے ہوئے ، بغداد میں یوں داخل ہوئے کہ پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بغداد آپ سے منسوب ہوگیا۔18سال سے لیکر 51سال کی عمر مبارک تک ، شاہراہِ علم کا یہ راہی مسلسل اور مستقل محوِ سفر رہا۔ قرآن ، حدیث، فقہ، ادب ، عروض، صرف و نحو اور فصاحت و بلاغت ، یہاں تک کہ ابو سعید المخزومیؒ سے علم فقہ اور حکمت ومعرفت کے حصول کے بعد ، 51سال کی عمرمیں مسندِ علم وحکمت پر متمکن ہوکر، ایک طرف خلائق کی راہنمائی کا وسیلہ بنے اور دوسری طرف اپنی سرفرازیوں اور سربلندیوں کو اس عنوان سے مزیّن کیا۔ ’’دَرَسْتُ الْعِلْمَ حَتّٰی صِرْتُ قُطباً‘‘ ’’میں علم حاصل کرتا گیا، یہاں تک کہ میں قطبیت کے مقام پر فائز ہوگیا ‘‘۔ ’’ربیع الثانی‘‘ کے یہ ایام، حضرت پیرانِ پیر ؒ کے احوال وافکار سے مزین اور بالخصوص آپ سے عقیدت و ارادت کے جلوؤں سے معمور ہیں ، اسی ماہِ کی گیارہ تاریخ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے ’’یوم وصال‘‘ کے طور پر معروف اور اسی نسبت سے ’’گیارہویں شریف‘‘ کے ختم کا شہرہ ہے ۔ بلاشبہ ہمار ا خطّہ حضرت پیران پیرؒ کی کرامات سے حَظ اٹھانے میں کسی سے پیچھے نہیں، اور اگر چند دہائیاں پیچھے جائیں تو پنجاب میں ’’گیارہویں‘‘ ہمارے دینی اور سماجی کلچر کا ایک مستقل حصہ تھی، اور کسی قدر اب بھی ہے ۔ تاہم جدید تناظر میں اس امر کی ضرورت زیادہ شدّت سے محسوس کی جارہی ہے کہ ان جلیل القدر ہستیوں کو کرامات کے کُہر سے نکال کر، عملی زندگی کے میزا ن پر ڈھالتے ہوئے، جدید دنیا اور نسلِ نو کے سامنے پیش کیا جائے ۔ کرامات اور خوارقِ عادت واقعات برحق ہیں، لیکن ان کی شخصیت کے علمی ، عملی اور بالخصوص تبلیغی پہلوؤں کو اجاگرکرنا اور ان کے کردار وعمل کے روشن نقوش سے روشنی اور راہنمائی کشید کئے جانے کا اہتمام کرنا، کرامات کے بیان سے بھی زیادہ اہم ہے۔ آج محراب ومنبر۔۔۔ جس طرح علمی ذوق سے عاری اور تصوّف وطریقت ۔۔۔دین و فقر سے بیزار دکھائی دے رہے ہیں ، وہ حقیقی خانقاہی مزاج کے منافی اور حضرت پیرانِ پیر کی تعلیمات سے مطابقت نہ رکھتے ہیں ۔وہ شیخِ طریقت جو اپنی قطبیت کی اساس علم کو قرار دے ، وہ اپنے متعلقین اور متوسلین میںجہالت کو کیسے برداشت کر سکتا ہے ؟ آج شریعت و طریقت کی تقسیم پر جو ہنگام اور کج بحثی روبہ عمل ہے ، اس کی بیخ کنی کے لیے پیرانِ پیر کا طرزِ زیست اور اسلوبِ حیات کافی ہے۔۔۔ جس نے طریقت کو شریعت کا تابع بنایااور متصوفین کے بے جا دعوؤں کا تدارک کیا، یہاں تک کہ منصور حلاج کے واقعہ پر افسوس کا اظہار فرماتے ہوئے کہا ،کہ اس بے باکی پر کسی مردِ حق کو اس کی رہنمائی کرنی چاہیے تھی، فرمایا: اگر میں اس وقت ہوتا تو ضرور اس کا ہاتھ پکڑ کر، بچا لیتا،گویا آپ نے واضح فرمادیا کہ تصوّف دعوئوں کا نہیں ،اتباعِ شریعت کی اعلیٰ منزل کا نام ہے ،اور اگر کہیں صوفی ڈگمگانے لگے ،تواسکا ہاتھ پکڑنا اہل طریقت وتصوّف کی منصبی ذمّہ داری ہے ۔صرف خانقاہی زاویوں میںہی نہیں ، اگر کہیںنظام حکومت میںبھی خلل واقع ہوا،توحضرت الشیخ نے آگے بڑھ کر حاکمِ وقت کو للکارا ،جب بغداد میں ایک ظالم اورنااہل شخص عہدئہ قضاۃ پر فائز ہوگیا، تو آپ نے خلیفہ وقت کو تنبیہ کی :’’تم نے مسلمانوں پر ایک شخص مسلط کردیا ہے جو ’’اظلم الظالمین ‘‘ہے ۔ قیامت کے روز رب العالمین کو کیا جواب دوگے جو ’’ارحم الراحمین ‘‘ہے ‘‘۔ضرورت اس امر کی ہے کہ آج سے آٹھ سو سال قبل، بغداد سے اُٹھنے والی تحریک تصوّف ومعرفت سے اپنا ناطہ مضبوط کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو صداقت شعاری کے نور سے منور اور اپنی حیات کو ایمان وایقان سے مزیّن کریں۔