پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھارت میں دوروزہ شنگھائی کانفرنس میں شرکت کے بعد وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ وہ اس سے پہلے 2012ء میں اپنے والد آصف علی زرداری جو اْس وقت پاکستان کے صدر تھے کے ہمراہ بھارت آچکے ہیں، وہ اس دورے میں اْس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ اور کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی سے بھی ملاقات کر چکے ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بلاول نے اپنی سیاست کا آغاز بھی اسی دورے سے کیا تھا۔خیر حالیہ شنگھائی کانفرنس میں اْنہوں نے خطاب کے دوران کہا ہے کہ سی پیک سینٹرل ایشیائی ریاستوں کو راہداری تجارت کے لیے بہترین موقع فراہم کرتا ہے، پاکستان دہشتگردی کے خاتمے کی کوششوں کا حصہ بننے کے لیے پرعزم ہے۔ معیشتوں میں رابطے کی کمی علاقائی تجارت اور سرمایہ کاری کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔سب ممالک دیرینہ، تاریخی، ثقافتی، تہذیبی اور جغرافیائی رشتوں میں بندھے ہیں۔اس کے علاوہ بلاول کا کہنا تھا کہ مشترکہ اقتصادی وژن آگے بڑھانے کے لیے اجتماعی رابطے میں سرمایہ کاری ضروری ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم شنگھائی میں 2001ء میں چین، قازقستان، کرغیزستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان کے رہنماؤں نے قائم کی۔ یہ تمام ممالک شنگھائی پانچ (Shanghai Five) کے اراکین تھے سوائے ازبکستان کے جو اس میں 2001ء کے آخر میں شامل ہوا، تب اس تنظیم کا نام بدل کر شنگھائی تعاون تنظیم رکھا گیا۔ 10 جولائی 2015ء کو اس میں بھارت اور پاکستان کو بھی شامل کیا گیا۔ پاکستان 2005ء سے شنگھائی تعاون تنظیم کا مبصر ملک تھا، 2010ء میں پاکستان کی جانب سے تنظیم کی رکنیت کے لیے درخواست دی گئی۔ جس کی رکن ممالک نے جولائی 2015ئ￿ میں منظوری دی ۔ پاکستان کی شمولیت سے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد آٹھ ہوگئی ہے۔ پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے حوالے سے ’ذمہ داریوں کی یادداشت‘ پر دستخط کردیے، جس کے بعد پاکستان تنظیم کا مستقل رکن بن گیا۔ پاکستان اس تنظیم کے اجلاس میں ہمیشہ شرکت کرتا رہا ہے، تاہم یہ اجلاس بھارت میں ہونے کی وجہ سے قدرے ہچکچاہٹ کا شکار تھا۔ لیکن چین کی کوششوں سے جہاں خطے کے دوبڑے مخالف ممالک سعودی عرب اور ایران نے اپنے اپنے ملک میں ایک دوسرے کے سفارتخانے کھول لیے ہیں، تاہم چین کی کوشش ہے کہ پاکستان اور انڈیا بھی اختلافات کو بھلا کر ایک نئے سفر کا آغاز کریں۔ کانفرنس کے دوران چونکہ چین کے وزیر خارجہ قن گانگ بھی موجود تھے۔ جو چین پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی سے پاک تعلقات کا پرجوش حامی ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ جنوبی ایشیا کے ان دو بڑے ممالک کے درمیان تعاون خطے میں امن کے استحکام اور ترقی و خوشحالی کا ضامن بن سکتا ہے۔ چین ہی نے اس تنظیم کا مستقل رکن بننے کے لیے پاکستان اور بھارت کی حمایت کی تھی۔ بات ہو رہی تھی شنگھائی تعاون تنظیم کی تو میرے خیال میں یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ بھارت 600ارب ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر رکھنے والا ملک ہے، ہمارے ذخائر 4ارب ڈالر سے بھی کم۔ بھارت خطے کی دوسری اور دنیا کی پانچویں بڑی اکانومی، جبکہ پاکستان اس فہرست میں 40ویں نمبر پر موجود ہے۔ میں انڈیا کی تعریف نہیں کر رہا بلکہ زمینی حقائق بتا رہا ہوں۔ اور پھر ہم انڈیا کے مسلمانوں کی 75سال میں کوئی مدد نہیں کرسکے۔ ہم نے صرف اپنے مخصوص خاندانوں کو فائدہ پہنچایا ہے، میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے انڈیا کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں تو ہم بھی وہاں کے مسلمانوں اور کشمیریوں کے کسی کام آسکیں۔ کیوں کہ اسی دشمنی کی وجہ سے تو ہم نے گزشتہ 75سال سے کشمیریوں کو آگ میں دھکیلا ہوا ہے۔ میں بذات خود دو دفعہ انڈیا گیا ہوں، وہاں کے مسلمانوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ دوسری جانب بنگلہ دیش کے انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے کی وجہ سے بھارت کے مغربی مسلمان شہریوں اور علاقوں کو فائدہ ہوا ہے۔ اگر ہمارے بھی تعلقات بہتر ہوں تو کشمیریوں اور مسلمانوں کو ہمیشہ فائدہ ہوگا۔ کیوں کہ جنگ کر کے تو ہم کشمیریوں یا وہاں کے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے۔ اور اگلے 50سال تک یوں ہی لگتا ہے کہ ہم اْنہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ اور پھر یہ پڑھی لکھی بات ہے کہ جنگ میں جب ایک ہتھیار ناکام ہو جائے تو دوسرا ہتھیار نکالتے ہیں، اگر فی الوقت جنگی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے تو ہمیں صلح کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہیے۔ اور آج کے دور میں ویسے بھی اچھے تعلقات ہی سب سے بڑا ہتھیار ہیں۔ بہرکیف آپ اس بات سے اختلاف کریں لیکن خدا جانتا ہے کہ ان حالات میں ہمیں ہمسایہ ممالک سے تعاون کی سخت ضرورت ہے، یہ جو ہم سعودی عرب یا یو اے ای میں ایک ایک ارب ڈالر کی بھیک مانگنے جاتے ہیں اور وہ بھی ہماری اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کی ضمانت پر دیے جاتے ہیں۔ یقین مانیں کہ دنیا کی بہت سی ایسی مثالیں ہیں کہ جہاں دو ملکوں نے آپسی تعلقات کے بعد اپنے معاشی حالات ٹھیک کیے ہیں۔ روایتی حریف فرانس ، جرمنی کی مثال ہمارے سامنے ہے، روایتی حریف میکسیکو اور امریکا کی مثال ہمارے سامنے ہیں، جرمنی آسٹریا کی مثال ہمارے سامنے ہے، روس اور بیلا روس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔پھر دنیا کے بہت سے بلاکس ہیں جو آپسی تعلقات کی وجہ سے آج ترقی کر رہے ہیں، جیسے ’’نافٹا‘‘جو امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو کا ریجنل بلاک ہے، میں باہمی تجارت 68 فیصد ہے۔ یورپی یونین ،جو یورپ کے 27ممالک کا بلاک ہے، کی باہمی تجارت 53فیصد ہے۔ آسیان ممالک (فلپائن، انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگاپور اور تھائی لینڈ ) کی باہمی تجارت 26فیصد ہے جبکہ ہمارے جنوبی ایشیائی ممالک کے ریجنل بلاک سارک کی باہمی تجارت صرف 5 فیصد ہے۔ تو ایسے میں کیا پاک بھارت آگے نہیں بڑھ سکتے؟ ہمیں یہ بھی نہ بھولنا چاہیے کہ بھارت اس وقت جی 20 ممالک کا چیئرمین ہے۔ اور پاکستان کو جی 20ممالک سے اْس وقت تک امداد نہیں مل سکتی جب تک بھارت نہیں چاہے گا۔ اس لیے بلاول کے دورہ بھارت کو اگر بھارتی میڈیا مثبت انداز میں پیش کر رہا ہے تو ہمیں بھی اسے مثبت ہی لینا چاہیے ناکہ غیر اہم ایشوز کو درمیان میں لانا چاہیے اسی میں سب کی بھلائی ہے!