بناناریپبلک کس ریاست کو کہتے ہیں؟ 1904 میں ایک امریکی مصنف اوہنری نے اپنی کتاب Cabbages & Kings میں یہ اصطلاح استعمال کی تھی۔ Honduras وسطی امریکہ کی ایک ریاست ہے جسے پہلی بار یہ عنوان دیا گیا تھا۔ پولیٹکل سائنس کے پس منظر میں اس اصطلاح کو سیاسی طور پر ایک غیر مستحکم ملک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے ملک عمومی طور پر اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے کسی ایک پیداوار (کیلے) یا دیگر زرعی مصنوعات پر انحصار کرتے ہیں۔ ایسے ممالک واضح طور پر کسی طاقتور ملک کے زیرِ تسلط ہوتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا اشرافیہ کا طبقہ ہی مال و دولت اور ملکی وسائل پر قابض رہتا ہے۔ غریب پِستا چلا جاتا ہے اور غربت کے کنویں میں لٹکا رہتا ہے۔ گْھونٹ گْھونٹ پانی پی کر خود کو زندوں میں شمار کرتا ہے۔ 1880 کی دہائی میں ایک نوجوان Andrew Preston بندر گاہ پر دوسرے ملکوں سے آنے والے پھل اور سبزیوں کو خریدنے کی غرض سے وہاں جایا کرتا تھا۔ وہ ایک پھل اور سبزیوں کی کمپنی میں ملازمت کرتا تھا۔ کتنی دلچسپ بات ہے کہ 1880 سے پہلے تک امریکی عوام بنانا نام کے پھل کے نہ تو نام سے اور نہ ہی ذائقے سے آگاہ تھے۔ اس وقت تک امریکہ میں کیلا کاشت نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی کسی اور ملک سے کیلے برآمد کیے جاتے تھے۔ پہلی بار Lorenze Baker نامی بحری جہاز کے ایک کپتان نے جمیکا سے آئے ہوئے کیلے بہت اچھے منافع پر بیچ ڈالے۔ امریکیوں کو کیلے بہت پسند آئے اور اس کی طلب بڑھتی چلی گئی۔ Andrew نے اسی کپتان بَیکر کے ساتھ مل کر 1885 میں بوسٹن فروٹ نامی کمپنی کی بنیاد رکھی۔ بیکر مختلف ممالک سے کیلے خریدتا اور اینڈریو پورے امریکہ میں اس کی سپلائی دیتا تھا۔ بوسٹن فروٹ کمپنی نے وئیر ہاؤسز کے ساتھ کیلوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کولڈ سٹوریج کی ایک چین متعارف کروائی۔ یوں نہایت کم عرصے میں پورے امریکہ میں کیلے کی سپلائی شروع ہوگئی۔ امریکہ کی اپنی زمین چونکہ کیلے کی کاشت کے لیے مناسب نہیں تھی مگر وسطی امریکہ کے پاناما، کو سٹاریکا اور ہونڈرس کی زمین کیلے کی پیداوار کے لیے انتہائی مناسب تھی۔ تاہم بہت سی امریکن زرعی کمپنیوں نے کیلے کی کاشت میں سرمایہ لگانا شروع کر دیا۔ اسی دوران Minor Keith نامی ایک کاروباری شخص نے ایک ٹروپیکل تجارتی کمپنی کی بنیاد رکھی۔ 1890 میں ان دونوں کمپنیوں کے اشتراک سے یونائیٹڈ فروٹ کمپنی کے نام سے ایک نئی کمپنی وجود میں آئی۔ وقت کے ساتھ اور کمپنیاں بھی بنیں اور انہوں نے اپنی حکومت کے ساتھ مختلف معاہدے بھی کیے۔ امریکی ریاست کوسٹاریکا بہت غریب ریاست تھی۔ اس نے مائنر کیتھ کی کمپنی کو آٹھ لاکھ ایکڑ زمین 99سال کی لیز پر دے دی۔ اس کے بدلے میں ان کی کمپنی کو SamJose سے ریلوے ٹریک کی تعمیر کا معاہدہ طے پایا۔ اسی طرح کے معاہدے دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی کیے گئے اور دوسرے ملکوں کا اثرو رسوخ ان ریاستوں میں بڑھتا چلا گیا۔ 1930 تک یونائیٹڈ فروٹ کمپنی ان ممالک میں 3.5 ملین ایکڑ زمین حاصل کر چکی تھی۔ اسی طرح کوامل فروٹ کمپنی کا مالک سیموئیل زمیرے ہونڈرس میں وسیع پیمانے پر کیلے کی کاشت کرتا تھا۔ وہ اس ریاست میں بنانا مین کے نام سے مشہور تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ہونڈرس میں سیاست دانوں کا عمل دخل بھی بڑھ گیا۔ بلکہ 1911 میں وہاں کی ملٹری کْو میں زمیرے نے ساتھ دے کر ملک کی جمہوری حکومت کا تختہ اْلٹا دیا۔ اس کی جگہ ایک ایسی فوجی حکومت آئی جو اپنے ملک کی بجائے ان غیر ملکی کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ کرنے میں لگ گئی تھی۔ نتیجے میں ملک سیاسی اور معاشی عدمِ استحکام کا شکار ہوا۔ غیر ملکی قرضہ جات میں اضافہ ہوا۔ ریاست ہونڈرس کے پاس اس گھمبیر صورتِ حال سے نپٹنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ وہ کیلے کے کاروبار سے جڑی ہوئی ان کمپنیوں کو اپنی معیشت سونپ دے۔ قارئین ایسا ہی ہوا! یوں ہونڈرس پہلی بنانا ریپبلک ریاست کے نام سے دنیا کے سامنے اْبھری۔ بنانا ریپبلک کے عناصر یوں ہیں: کسی ایک برآمد پر معاشی انحصار ہونا۔ ایسے ملکوں میں معاشی تنوع کا فقدان رہتا ہے۔ صنعتی ترقی کی محرومی رہتی ہے۔ غیر ملکی اثرو رسوخ کا شکار ہو کر اشرافیہ محنت کش اور مزدور کا استحصال کرتی ہے۔ یہی تسلط ملک میں عدم استحکام کا باعث ہے۔ سیاست میں بھی مضبوطی نہیں ہوتی۔ اقتدار اس اشرافیہ کے پاس ہوتا ہے جسے غیر ملکی طاقتیں چلاتی ہیں۔ اقربا پروری اور کرپشن کی آپس میں خوب بنتی ہے۔ سماج میں بھی برابری نہ ہونے کی وجہ سے اشرافیہ امیر اور غریب مہنگائی کے گڑھے میں گر جاتا ہے۔ دولت کی یہ غیر منصفانہ تقسیم بْھوک، افلاس اور بد امنی پھیلاتی ہے۔ ایسے تمام ممالک میں ادارے کمزور ہو کر عوام کا اعتماد کھو دیتے ہیں۔ عدالتی نظام بھی متنازع ہو کر جمہوریت کی راہ میں روڑے اٹکاتا ہے۔ ایسے ممالک گردشی قرضوں اور ادائیگی کے بحران میں پھنس جاتے ہیں۔ بہت عرصے سے ہم سْنتے آ رہے تھے کہ پاکستان بناناریپبلک بن جائے گا۔ کیا پاکستان بھی بنانا ریپبلک کی تعریف پر پورا اترتا ہے؟ دیکھا جائے تو ہم بھی شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔ بجلی کے بلوں نے غریب کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ یہاں بھی چند خاندان طاقت کا محور ہیں جن کے گرد سیاست گھومتی ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال یہ ملک اپنے پیروں پر چکرا کر کیوں گر رہا ہے؟ ہم مکمل طور پر تو بنانا ریپبلک نہیں بنے لیکن سیاسی عدم استحکام نے ہمیں معاشی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ گردشی قرضے ہماری گردن دبا رہے ہیں۔ نگران حکومت بھی باتیں تو بڑی بڑی کر رہی ہے مگر عملاً ان کے پلے کچھ بھی نہیں ہے۔ تمام کاروبارِ زندگی بند پڑے ہوئے ہیں۔ لگتا ہے یہ ملک صرف دعاؤں سے چل رہا ہے۔ دوسری طرف سیاست دانوں کے گھروں سے اربوں روپے نکل رہے ہیں۔ سرکاری دفتروں میں گانوں کی محفلیں چل رہی ہیں۔ اگر ملک بچانا ہے تو سرکاری اداروں کو نیک نیتی سے کام کرنا ہوگا۔