کوئی دو ہفتے پہلے فیس بک کے ایک اکائونٹ پر ویڈیو ملی۔ایک خاتون تھی‘ ہاتھ میں قرآن پاک اٹھا کر درخواست کر رہی تھی کہ اسے اور اس کے بچوں کو سردار عبدالرحمن کھیتران کی حراست سے چھڑایا جائے۔ خاتون رنجیدہ ہو کر بتا رہی تھی کہ سردار عبدالرحمن اس کے اور اس کی بیٹی پر جنسی تشدد کرتا ہے۔قرآن اٹھا کر مدد طلب کرنے کا واقعہ مسلمانوں کے ملک میں ہوا،ایسا ملک جہاں آئے روز دین کے نام پر کٹ جانے کے دعویدار لوگوں کے راستے بند کرتے ہیں ،جلوس نکالتے ہیں اور عشق رسولﷺ کے تقاضوں سے ہمیں آگاہ کرتے ہیں ،اسی رسول ﷺ کی ایک دکھی امتی پوری امت سے مدد مانگ رہی تھی۔دو روز بعد ایسے ہی ایک اکائونٹ سے دوسری ویڈیو دیکھی۔ سردار عبدالرحمن پنچائت لگائے بیٹھا ہے۔اس کے سامنے پلاسٹک کا میز ہے اور میز پر کوبرا سانپ پھن پھیلائے بیٹھا تھا۔ وہ اپنے سے کمزور لوگوں کو دہشت زدہ کر رہا تھا۔سردار عبدالرحمن کی نشست ‘ آنکھوں کا رنگ اور بول چال تکبر سے بھرے تھے۔یہ اکائونٹ اس کے کسی حامی کا تھا۔میں رہ نہ سکا میں نے کومنٹ میں لکھ دیا ’’مداری اس مظلوم خاندان کو رہا کرو‘‘ اسی دن سردار عبدالرحمن کے حق اور مخالفت میں کچھ نئے فیس بک اکائونٹ میرے سامنے آئے۔میں سب کو دیکھ رہا تھا۔مقامی لوگوں کے تبصرے پڑھ کر مجھے معلومات مل رہی تھیں۔سوچا اگلے کالم میں خان محمد مری کے مظلوم خاندان کی مدد کے لئے سوئی ہوئی ریاست کے کانوں میں چیخوں گا۔میں نے یو ٹیوب پر دو ویلاگ اوپر نیچے کئے۔ایک میں اوریا مقبول جان صاحب کی گفتگو بھی شامل کی۔کالم لکھنے والے دن خبر ملی قرآن اٹھا کر مدد کی دہائی دینے والی گراں ناز اور اس کے دو بیٹوں کو قتل کر دیا گیا۔ خاتون کا چہرہ تیزاب ڈال کر ناقابل شناخت بنا دیا گیا تھا۔دکھ کا ایک تیز دھار چاقو گویا میرا وجود کاٹ گیا۔ سردار عبدالرحمن کھیتران ایک بااثر اور طاقتور سردار ہے۔ممکن ہے مہربان اور اپنے لوگوں سے محبت کرنے والے سردار بھی کہیں ہوں لیکن بلوچستان میں کمزوروں کی پسماندگی بتاتی ہے وہاں ظالم کی خواہشات کو روایت کا نام دے کر لوگوں کو دھوکہ دیا جا رہا ہے ۔ سردار عبدالرحمن بلوچستان کے سرداری نظام کا منفی چہرہ ہے،بلوچستان عوامی پارٹی کا رکن اور صوبائی وزیر ہے اس لئے دہائی دیتی گراں ناز کی اپیل پر حکومت بے حس رہی۔ جب گراں ناز اوراس کے دو بیٹوں کے قتل کی خبر عام ہوئی توپنجاب ‘ سندھ اور کے پی کے سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا صارفین نے ہنگامہ برپا کر دیا۔ گراں ناز کے خاوند محمد خان مری کے قبیلے کو ہمت ملی‘ بلوچستان اسمبلی میں ایک وزیر نے کارروائی کا بائیکاٹ کیا اور سپیکر نے کمزور اور گول مول سی قرار داد مذمت منظور کرا کر اپنا فرض ادا کر دیا۔میں نے ایسی ایک دو پوسٹوں پر مختصر تبصرہ کیا۔آل پاکستان مری اتحاد کے لوگ جمع ہوئے۔لاشوں کو لے کر کوئٹہ پہنچ گئے۔مری اتحاد نے لاشیں سڑک پر رکھ کر دھرنا دیدیا۔اس دوران کچھ قوم پرست تنظیموں کے لوگ بھی اس دھرنے میں آ گئے۔شائد وہ اپنی غیرت پر لگے اس داغ کو دھونا چاہتے تھے جو سوشل میڈیا صارفین نے ان پر لگائے۔کئی صارفین نے انہیں طعنہ دیا تھا کہ وہ ملک کے اداروں اور سکیورٹی اہلکاروں پر حملے کرنا جائز سمجھتے ہیں لیکن اپنی عورتوں اور بچوں پر ظلم کرنے والے سرداروں کے سامنے بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں۔ دھرنے کے دوران خبر ملی کہ پولیس نے عبدالرحمن کھیتران کے گھر پر چھاپہ مارا۔چھاپے کی ویڈیو پر نیا تنازع کھڑا ہو گیا۔عبدالرحمن کھیتران کے بیٹے انعام نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے صرف گارڈوں کی رہائش والے کمروں کی تلاشی لی ۔اس سارے معاملے میں انعام کا طرز عمل اپنے باپ کے برعکس اور مظلوم خاندان سے ہمدردی پر مشتمل رہا۔ عبدالرحمن کھیتران اپنے بیٹے انعام پر سازش کا الزام لگاتا ہے۔ بہرحال تفتیش اگر درست ہوئی تو سچ جھوٹ کا پتہ چل جائے گا۔ یہ کہانی اس وقت نیا موڑ لے گئی جب خبر ملی کہ ملنے والی لاش گراں ناز کی نہیں۔تاہم قتل ہونے والے لڑکے گراں ناز کے بیٹے ہی تھے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گراں ناز‘ اس کی بیٹی اور چار بیٹوں کو زندہ برآمد کر لیا۔لوگوں کی تسلی کی خاطر خاتون اور اس کے بچوں کی ویڈیو جاری کی گئی۔ اب سوال پیدا ہوا کہ پھر قتل ہونے والی بدنصیب کون تھی۔بعد کی اطلاعات سے معلوم ہوا کہ وہ امیراں بی بی تھی۔اس خاتون پر ظالم کو شبہ تھا کہ گراں ناز کی قرآن ہاتھ میں لے کر جو ویڈیو سامنے آئی وہ امیراں بی بی نے بنائی تھی۔لوگوں میں اشتعال پھیل رہا تھا۔دوسری طرف کچھ فیس بک اکائونٹ سردار عبدالرحمن کھیتران کی اعلیٰ سول و عسکری حکام کے ساتھ مختلف مواقع کی تصاویر جاری کر رہے تھے۔ان کا مطالبہ تھا کہ بااثر ملزم کو گرفتار کیا جائے۔ آخر سردار عبدالرحمن کھیتران گرفتار ہو گیا۔اس کی ویڈیو جاری کی گئی۔شاہ رخ جتوئی کی طرح یہ ظالم بھی دونوں انگلیوں سے وی کا نشان بناتے ہوئے کیمروں کے پاس سے گزر گیا۔ یہ کسی فلم کی کہانی ہوتی تو اسے دو طرح کے اختتام مل چکے ہیں۔ کیمرہ عبدالرحمن کی گرفتاری پر بند ہونا چاہیے تھا۔ دوسرا اختتام چار برس بعد خان محمد مری کی اپنی بیوی گراں ناز اور بچوں سے ملاقات کے جذباتی منظر کو فلماتا ۔لیکن یہ فلم نہیں۔اس کہانی میں ابھی لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کیا جا رہا ہے ۔کچھ نمائشی اقدامات کر کے تسلی دی جا رہی ہے کہ ظالم کو سزا مل کر رہے گی۔پھر ایک دن پتہ چلے گا مدعی صلح پر آمادہ ہو گئے‘ مظلوموں نے ظالم کو معافی نامہ لکھ دیا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے پولیس مقدمے کو اتنا کمزور کر دے کہ کچھ بھی ثابت نہ ہو سکے۔امیراں بی بی جس نے بے حس امت کی جانب سے فرض کفایہ ادا کیا ، اس کا کردار ہی فراموش کر دیا جائے۔