ایک وقت تھا کہ سول بیوروکریسی میں اچھے پڑھے لکھے اور خاندانی لوگ آیاکرتے تھے ، رشوت لینا تو دور کی بات کوئی ایسا الزام بھی نہیں لگاتا تھا،عام سرکاری ملازمین کی نسبت اعلیٰ سرکاری افسران کا رویہ اور کردار قابل تقلید و تعریف ہوتا تھا۔ مگر اب حالات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ بیورو کریٹ بھی بدل گئے ہیں۔ اداروں اور بیوروکریسی کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ موجودہ بیوروکریسی مختلف اقسام اور گروپس میں تقسیم ہے جن میںسے درج ذیل قابل ذکر ہیں۔ ’’یس باس افسر‘‘’’باس از آلویز رائٹ اور یس باس‘‘ کی تسبیح کرتے یہ افسران سنئیر افسران ،وزراء اور چیف منسٹر کے درباری بنے ہوتے ہیں۔جی حضوری کے چیمپئین ہونے کی وجہ سے ہر دور حکومت میں ’’فٹـ‘‘ ہو جاتے ہیں اور من چاہی پوسٹنگ لیتے ہیں۔ یہ باس اور طاقتور کے سامنے لیٹ جاتے ہیں مگر عام لوگوں کے سامنے انتہائی سخت گیر۔خود کو بہت اہم ثابت کرنے کیلئے اپنے دفتر کے باہرعوام کا اور آفس میں ماتحت افسران کا ہجوم لگائے رکھتے ہیں۔ ’’صاحب افسر‘‘ یہ سرکاری افسران کی بڑی اعلیٰ قسم ہے،نئی جگہ پر آتے ہی کمرے کا رنگ، پردے، فرنیچر اور عملہ بھی تبدیل کروا دیتے ہیں۔یہ افسر خاندانی اثرورسوخ والے ہوتے ہیں اور صرف ان محکموں میں کام کرتے ہیں جو ان کو پسند آجائیں۔ ’’ سدا بہار ڈی سی او/ ڈی پی او‘‘ ان کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ یہ علاقے کے ایم این اے اور ایم پی اے سے ذاتی مراسم رکھتے ہیںاور صرف وہی کام کرتے ہیں جس کی پرچی ایم پی اے / ایم این اے بھیجتا ہے۔ ’’ادیب افسر ‘‘بلاشبہ بیوروکریسی میں ادبی دنیا کے بڑے بڑے نام رہے ہیں لیکن موجودہ دور میں ادب کا سہارا لینے والوں میں اکثریت نہ ادیب ہوتے ہیں اور نہ اچھے افسر۔ ’’ہومیوپیتھک‘‘یہ قسم خالصتاً نوکری پیشہ ہوتی ہے یعنی یہ افسری کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرسکتے۔ ’’خوشامدی افسر‘‘ کرپٹ افسر کا یہ ایک اہم ہتھیار ہے۔ وہ اپنے اعلیٰ افسرکی خوشامد کرتا ہے کہ اس کی پوزیشن بچی رہے۔ اپنے ماتحتوں کی خوشامد کرتا ہے تاکہ وہ مسائل پیدا نہ کریں۔ کاروباری افسرگروپ: عموماً با رُعب اور امیر ہوتا ہے۔مختلف محکمہ جات کے افسران مفاد باہمی کے تحت مل جل کر رہتے ہیں۔یہ اپنے مخصوص کاروباری گروپ کے علاوہ نہ تو کسی کی سفارش مانتے ہیں اور نہ ہی کوئی لین دین کرتے ہیں۔ کال رسیو نہ کرنے والے افسران کی اکژیت شدید کرپٹ افراد کی ہے۔یہ اس وجہ سے کال رسیو نہیں کرتے کہ کہیں کسی سفارشی کال پر مفت میں کام نہ کرناپڑ جائے۔ایسے افسران کی زندگی بڑی مشکوک ہوتی ہے،سگے باپ کی بھی بات نہیں مانتے جبکہ اپنے ٹائوٹ کی کال کہیں بھی کسی بھی حالت میں فوراً سے پہلے رسپانس کرتے ہیں۔ ’’دیانت دار افسر‘‘ افسروں کی ایک ناپید قسم ہے جو پاکستان بننے کے بعدکم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ افسروں کی یہ قسم دفتروں میں اپنے کام سے کام رکھتی ہے۔ کاروباری اور کرپٹ افسران نے انکا نام’’ مسکین لوگ‘‘ رکھا ہوا ہے۔ ’’کنسیپٹ کلئیر افسران‘‘سنئیر افسران میں پھر بھی حیا شرم اور رکھ رکھائو ہوتا تھا۔جبکہ نئے آنے والے فیلڈ افسران کی اکثریت کا مائنڈ سیٹ ہے کہ دونوں ہاتھوں سے اور جھولیاں بھر بھر کے سمیٹنا ہے۔ ایک سرکاری ملازم کو اپنے کام کی تنخواہ ملتی ہے۔ مذہب، اخلاقیات اور قانون ہر لحاظ سے یہ سرکاری ملازم کا فرض ہے کہ اس تنخواہ کے عوض اپنا کام تندہی اور ایمان داری سے کرے اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو ریاست پر کوئی احسان عظیم نہیں کرتا۔اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران کے پاس کام کرنے کے بہت مواقع ہوتے ہیں، اگر ان میں سے ایک چوتھائی کام بھی کر لیے جائیں تو یوں سمجھنے لگتے ہیں کہ جیسے بہت بڑا تیر مار لیا ہو۔ سو جو لوگ یہ تیر مار لیتے ہیں وہ خود کو اعزازات اور تعریف کا حق دار سمجھنے لگتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ تو ان کی ملازمت کے فرائض میں شامل تھا۔ وہ دن دور نہیں جب محض وقت پر دفتر آنے والے سرکاری ملازم بھی کہیں گے کہ انہیں تمغہ حسن کارکردگی دیا جائے۔ اکثریت ایسے افسران کی ہے جو یہ ثابت کرنے سے قاصر ہیں کہ انہوں نے کیا غیر معمولی کام کیا ہے۔ آج کل بیوروکریسی میں اپنی ذاتی تشہیر کا عجیب سلسلہ چل نکلا ہے ہرسرکاری ڈیپارٹمنٹ نے اپنا تشہیری اور میڈیا ونگ بنایا ہوا ہے۔صبح سے شام تک تصاویر ،پوسٹ اور تعریفی پیغامات چلانے کا مقابلہ ہے۔بڑوں کے دیکھا دیکھی بچے بھی اسی راہ پر ہیں اسسٹنٹ کمشر اور اے ایس پی بھی اپنے پیجز چلارہے ہیں۔ خاص طور پر موجودہ آئی جی ڈاکٹر عثمان انور چاہتے ہیں کہ سارا آئی جی آفس اور ہر آر پی او ،سی پی او اور حتیٰ کہ جونیئر ایس پی بھی سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ کیے بن نہ سوئے کہ عزت ماب آئی جی صاحب کے احکامات اور ہدایت کی روشنی میں فلاں فلاں کام کیا ۔شہرت کی یہ بھوک اور لت صوبائی سربراہ سے لیکر اے ایس پی تک منتقل ہوتی جارہی ہے ۔امید اور انصاف کی واحد کرن چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چاہئے کہ قوم کے پیسے سے سرکاری افسران کی ذاتی تشہیر اور شخصیت پرستی کو فوری طور پر روکنے کے احکامات جاری کیے جائیں کیونکہ اس غلط روایت سے سرکاری افسران سارا دن نت نئے اشتہارات بنانے اور دکھانے کے سوا کچھ نہ کرتے اور نہ سوچتے ہیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ اتنی اشتہار بازی کیوں کی جارہی ہے۔ کیا افسران نے الیکشن لڑنا ہے ؟ جونئیر افسران تو سیاسی معاملات میں سیاستدانوں کے پاسک بھی نہیںہیں۔ میں بہت وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ صوبائی یا وفاقی لیول کا سنئیر افسر بھی کسی کونسلر کے مقابلے میں الیکشن نہیں جیت سکتا کیونکہ سیاستدان اپنے حلقے کی عوام کے سکھ دکھ کا ساتھی ہوتا ہے جبکہ سرکاری ملازمین کی اکژیت نے ہمیشہ لینا ہی سیکھا ہے۔