جناب وزیر اعظم !جناب صدر پاکستان !جناب چیف جسٹس صاحب !ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کسے گواہ کیا جائے ؟کس سے منصفی طلب کی جائے؟ اس ملک میں ایک مظلوم ہے جسے انصاف کی طلب ہے لیکن تمام اخلاقی اور قانونی تقاضے اور فیصلے حق میں ہونے کے باوجود انصاف اسے کسی طرح مل کر نہیں دیتا۔71سال مقدمہ لڑتے ہوچکے ہیں۔لیکن کبھی کوئی فرد ،کوئی گروہ ،کوئی صوبہ اور کبھی خود وفاق اس کے حق میں حائل ہوجاتا ہے۔یہ ایک ایسی شائستہ مزاج، مہذب ملکہ کا مقدمہ ہے جس کا گھر کاغذات میں اس کے نام ہے لیکن ایک بدیسی عورت نے اس پر اس طرح قبضہ جمایا ہے کہ وہ عملاً اپنے گھر سے بے دخل اور لا تعلق ہوکر رہ گئی ہے ۔آپ میں سے کوئی جو اسے انصاف اور اس کا گھر اسے دلا سکے ؟یہ آپ سے بھیک نہیں اپنا حق مانگتی ہے۔ اس گھر کو پاکستان کہتے ہیں اور یہ ملکہ اردو کہلاتی ہے۔ یہ قومی اور سرکاری زبان ہے۔پھر اس گھر میں اس کی حاکمیت کیوں نہیں ہے؟کیسا گھر ہے یہ ؟ معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے۔خدا خدا کرکے ملک میں وہ قیادت آئی ہے جس نے اہم معاملات پر توجہ دی ہے۔ قومی لباس اور قومی زبان کو عملاً عزت دی ہے اور ترستی قوم کو امید کی ایک کرن دکھائی دی ہے کہ شاید اب ملک کو درست سمت مل سکے۔یہ کالم نگار بھی اسی خوش گمانی میں ہے کہ شاید اس دور میں اردو کو اس کا صحیح مقام مل سکے۔کیا یہ غلط ہے کہ ملکی اور قومی زوال میں ایک بڑا دخل زبان کو نہ اپنانا بھی ہے ۔ آپ دیکھ لیجے کہ شاہ محمود قریشی کے جنرل اسمبلی اقوام متحدہ سے اردو میں خطاب پرقوم نے کتنی خوشیاں منائی ہیں۔ اے صاحبانِ اقتدار !ابھی تک تو یہی لگ رہا ہے کہ جو قربانیاں آپ مانگ رہے ہیں وہ خود بھی دینے کے لیے تیار ہیں۔بچت، کفایت شعاری،سادگی ،ڈیم کے لیے سرمایہ ۔ یہ سب ٹھیک لیکن ایک اہم قومی منصوبہ ایسا بھی ہے جس میں نہ محل اور گاڑیاں بیچنے کی ضرورت ہے ،نہ ٹیکس لگانے کی ،نہ کروڑوں اربوں کے بجٹ کی۔صرف ایک قوت فیصلہ اور عزم کی ضرورت ہے۔یہ تحریر اس امید پر لکھی جارہی ہے کہ یہ قوت فیصلہ آج کی قیادت فراہم کرکے ہمیشہ کے لیے عوام کی نظروں میں سرخرو ہوسکتی ہے۔ یہ حق تو کبھی نہ کبھی ان شاء اللہ مل ہی جائے گا۔دیر سویر سے سہی۔حکومت کے ذریعے نہ سہی، عدالت کے ذریعے سہی۔پارلیمنٹ کے ذریعے نہ سہی ،عوامی تحریک کے ذریعے سہی لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ آپ ملک کو اس سب سے بچا کر اس کام کا سہرا اپنے سر سجا لیں۔یاد رکھیے کہ آپ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ہر سابقہ حکومت کا چہرہ داغوں سے بھراہے۔ صرف سابقہ حکومت کی بات کروں تو اس کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے خواجہ صاحب کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کرکے یہ کالک خود اپنے چہروں پر ملی تھی۔ اس دور میں سرکاری کانفرنسوں میں نفاذِ اردو کی قرارداد پیش نہیں کی جاسکتی تھی، سپریم کورٹ کے فیصلے کی تائید نہیں کی جاسکتی تھی، حتٰی کہ کئی کانفرنسز کے بینرز میں اردو کا کوئی لفظ ڈھونڈا نہیں جاسکتا تھا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کم ترین مدت کے لیے منصف اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھے۔صرف 23دن۔ لیکن اس مدت میں انہوں نے عوام کے دلوں میں اس فیصلے کے ذریعے ٹھنڈک ڈال دی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس فائز عیسٰی سمیت تین رکنی بنچ نے 8ستمبر2015 ء کو حکم صادر کیا کہ1975 ء کے آئین کی شق (آرٹیکل) 251پر عمل در آمد کے فوری نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔یہ آرٹیکل تین ذیلی دفعات پر مشتمل ہے اور اس کی اصل عبارت یہ ہے۔ (1)قومی زبان251 (1) پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور آغاز سے پندرہ سال کے اندر اندر یہ انتظام کیا جائے گا کہ اس کو سرکاری اور دیگر مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے۔ (2)(ذیلی دفعہ (1کے اندر رہتے ہوئے انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری زبان کے طورپر استعمال کی جاسکے گی جب تک اس کے انتظامات نہیں کیے جاتے کہ اس کی جگہ اردو لے لے۔ (3)قومی زبان کے مرتبہ پر اثرانداز ہوئے بغیر ایک صوبائی اسمبلی بذریعہ قانون ایسے اقدامات کرسکتی ہے جس کے ذریعہ صوبائی زبان کے فروغ، تدریس اور قومی زبان کے ساتھ ساتھ اس کے استعمال کا بھی بندوبست کیا جاسکے۔ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کی عبارت بھی درج ذیل ہے جس میں آئین کے آرٹیکل 5 کا بھی ذکر ہے، جس کے تحت ہر شہری پابند ہے کہ وہ آئین کی ہر دفعہ پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ (19)ان دستوری احکامات کے پیش نظر، جو آرٹیکل5 اور آرٹیکل51 میں بیان کیے گئے ہیں اور جن کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے، اور اس امر کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ دستور کا لازمی تقاضا ایسی بات نہیں ہے جس سے صرف نظر کیا جاسکے اور پھر عشروں پر پھیلی ہوئی حکومتوں کی بے عملی اور ناکامی کو سامنے رکھتے ہوئے، ہمارے سامنے سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں کہ ہم مندرجہ ذیل ہدایات اور حکم جاری کریں۔ (1) آرٹیکل 251کے احکامات کو بلاغیرضروری تاخیر فوراً نافذ کیا جائے۔ (2)جو میعاد (مذکورہ بالا مراسلہ مؤرخہ 6 جولائی 2015ء ) میں مقررکی گئی ہے اور جو خود حکومت نے مقرر کی ہے اس کی ہر حال میں پابندی کی جائے جیساکہ اس عدالت کے روبرو عہد کیا گیا ہے۔ (3)قومی زبان کے رسم الخط میں یکسانیت پیدا کرنے کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں باہمی ہم آہنگی پیدا کریں۔ (4) تین ماہ کے اندر اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کرلیا جائے۔ (5) بغیر کسی غیر ضروری تاخیر کے نگرانی کرنے اور باہمی ربط قائم رکھنے والے ادارے آرٹیکل 251 کو نافذ کریں اور تمام متعلقہ اداروں میں اس دفعہ کا نفاذ یقینی بنائیں۔ (6وفاقی سطح پر مقابلہ کے امتحانات میں قومی زبان کے استعمال کے بارے میں حکومتی اداروں کی مندرجہ بالا سفارشات پر عمل کیا جائے۔ (7) ان عدالتی فیصلوں کا، جو عوامی مفاد سے تعلق رکھتے ہوں یا جو آرٹیکل 189 کے تحت اصولِ قانون کی وضاحت کرتے ہوں، لازماً اردو میں ترجمہ کروایا جائے۔ (8)عدالتی مقدمات میں سرکاری محکمے اپنے جوابات حتی الامکان اردو میں پیش کریں تاکہ شہری اس قابل ہوسکیں کہ وہ مؤثر طریقے سے اپنے قانونی حقوق نافذ کرواسکیں۔ (9) اس فیصلے کے اجراء کے بعد، اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہلکار آرٹیکل251 کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کو بھی اس خلاف ورزی کے نتیجے میں نقصان یا ضرر پہنچے گا، اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہوگا۔ (20)اس فیصلے کی نقل تمام وفاقی اور صوبائی معتمدین کو بھیجی جائے تاکہ وہ آرٹیکل 5کی روشنی میں آرٹیکل251 پر عمل در آمد کے لئے فوری اقدام اٹھائیں۔ وفاق اور صوبوں کی جانب سے اس ہدایت پر عمل در آمد کی رپورٹ تین ماہ کے اندر تیار ہوکر عدالت میں پیش کی جائے۔ اے قائدین کرام !بہت امکان اس بات کا ہے کہ جلد کوئی نہ کوئی ملک، قوم اور اردو سے محبت کرنے والا اٹھ کر عدالت میں پٹیشن دائر کردے گا کہ حکومت اس حق کے راستے میں رکاوٹ کیوں بنی ہوئی ہے؟تب موجودہ حکومت کیا کرے گی ؟ رکاوٹ بن کرایک داغ اپنے منہ پر لگا لے گی یا عدالت عظمٰی کے فیصلے پر عمل درآمد کرے گی؟ اگر یہ کرنا ہے تو پھر کسی کے عدالت میں جانے کا انتظار کیسا؟ کیا یہ کام از خود نہیں کیا جاسکتا؟ سوجناب وزیر اعظم!جناب صدر پاکستان !جناب چیف جسٹس صاحب ! یہ مظلوم ملکہ آپ سے بھیک نہیں اپنا حق مانگتی ہے ۔یاد رکھیے کہ آپ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔