ہمارے ہاں کچھ ایسے بھونڈے انداز میں سرمایہ دارانہ نظام سراعیت کر گیا ہے کہ جمہوریت اس کے جبر کے خلاف ضمانت نہیں بن سکی۔ نوے کی دہائی میں عالم مالیاتی اداروں سے قرضے ملنے کا سلسلہ شروع ہوا، جہاں سول حکومتوں نے نجی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کرنا تھی وہاں اپنی سرپرستی میں چلنے والے کارخانوں کو بھی خیر باد کہنا تھا۔لیکن کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہوسکا کہ سیاسی پارٹیوں کے درمیان د شمنی تھی۔ ایک سیاسی پارٹی اقتدار میں آتی تو دوسری اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑجاتی۔ مشرف دور میں ڈنڈے کے زور پر معاشی اصلاحات کی گئیں لیکن اس دفعہ ریگولیٹری ادارے بھی بنائے گئے جنہوں نے صارفین کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا ، خود مختار مقامی حکومتوں کا نظام بھی نافذ کیاگیا تاکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم ہوسکے۔ یہ سب عنایتیں امریکہ کی آشیر باد سے ہو رہی تھیں جو سوویت یونین کے انہدام کے بعد جمہوریت کو عالمی امن کی بنیاد سمجھتا تھا اور یہ اس کے فروغ اور استحکام میں کوشاں ہونے کے ساتھ آمرانہ حکومتوں کے خلاف برسرپیکار بھی تھا۔ سیاسی اور معاشی اصلاحات کا بنیادی کام کرلیا گیا تو اگلا مرحلہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی تھی۔ میثاق جمہوریت کے ذریعے نوے کی دہائی کے دشمنوں کو ایک میز پر بٹھا یا گیا اور پھر این آراو کے ذریعے جلا وطن قیادت کی وطن واپسی کے راہ ہموار کی گئی۔ منصوبہ تو اچھا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام ہو تو ساتھ ہی جمہوریت بھی تاکہ ساہو کارعوام کو نوک خنجر پر نہ رکھ لیں۔ لیکن بات کچھ بنی نہیں۔ دشمن سیاسی پارٹیاں ،پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ، دوست بنیں تو سارا زور انہوں نے اقتدار کی طوالت پر لگا دیا۔ سندھ اور پنجاب کو انہوں نے اپنا اپنا قلعہ بنالیا، دیگر صوبوں میں قوم پرستوں کے ساتھ مل کر حکومت کی جنہیں انہوں نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے رام کرلیا تھا۔ وفاق کی حد تک ایک پارٹی اقتدار میں ہو تی تو دوسری اپوزیشن کا کردار نبھاتی۔ جب کوئی دشمن ہی نہیں بچا تھا تو احتساب کے عمل کو بھی خیر باد کہہ دیا گیا۔ ایک طرف تعلیم اور صحت پر اخراجات کم کردیئے تو دوسری طرف ریگولیٹری باڈیز کا گلا گھونٹ دیا گیا تاکہ سرمایہ دار طبقہ کو کھل کھیلنے کا موقع مل سکے۔ کوئی کسر بچ گئی تھی تو وہ مقامی حکومتی نظام کو معطل کرکے پوری کرلی گئی۔ آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے جو معاشی اصلاحات کے لیے قرضہ دیا، انہیں سرخیل سیاسی پارٹیوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے والے منصوبوں پر لگا دیا۔ شریف برادران کا مفاد سیمنٹ سریے سے تھا جبکہ پیپلز پارٹی کا سرکاری ملازمتوں کی فراہمی اور ان کے تحفظ ( نجکاری کی مخالفت) میں۔ بھارت تیزی سے ابھرتی مارکیٹ تھی لیکن اس کے ساتھ سرحدیں بند تھیں، افغانستان میں انتشار اور ایران پر مغربی پابندیاں تھیں۔ یوں علاقائی تجارت تھی نہیں کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو ترغیب ملتی کہ وہ ملکی اور علاقائی مارکیٹ سے کوئی فائدہ اٹھانے کا سوچیں۔ مقامی سرمایہ کاروں کے لیے پالیسی تو اچھی بنائی گئی لیکن جہاں تک ان کوسہولت دینے کا معاملہ تھا تو اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سول حکومتوں نے بھی ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانے کی بجائے محصولات کا ذریعہ درآمدات کو بنالیا تھا اور محصولات کا تیس فیصد حصہ پٹرولیم مصنوعات سے آتا تھا۔ نوے کی دہائی کے اوائل میں سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے ایک ایکٹ پاس کیا گیا تھا جس کی رو سے سرمایے کی اندرون و بیرون ملک منتقلی پر پابندی ہٹا لی گئی لیکن مخصوص حالات کے تناظر(لا قانونیت، عدم برداشت اور غربت) میں جتنا سرمایہ ملک سے باہر منتقل ہوا ااتناملک میں نہ آیا۔ مجموعی قومی آمدنی میں اضافہ تو ہوا لیکن صورتحال یہ بنی کہ امیر امیر تر ہوئے جبکہ ان قرضوں کا بوجھ غریب اور متوسط طبقہ جات پر بالواسطہ ٹیکسوں (جی ایس ٹی) میں اضافہ کی صورت میں ڈال دیا گیا۔ یوں یا تو اپنا سرمایہ (اس میں رشوت اور سمگلنگ کا پیسہ بھی شامل تھا) یا تو رئیل اسٹیٹ میں لگایا یا پھر بیرونی ملک منتقل کردیا۔ بیرونی قرضہ جات کی واپسی مشکل ہوئی تو معاملہ بیرونی قرضوں کی مد میں اصل رقم کی واپسی کی بجائے صرف ان پر سود پر واپسی پر جا پہنچا۔ دیوالیہ پن تک نوبت پہنچی تو اندرونی ذرائع (ملکی بنک) پر انحصار بڑھ گیا جو کہ مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ملکی بینکوں کو ترغیب دینے کے لیے شرح سود میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے تو کاروباری افراد، چھوٹے کسان اور گھریلو صنعت کو قرضے دستیاب نہ رہے۔ قصہ مختصر ،ہماری اشرافیہ جس کے ہاتھ میں اس ملک کی باگ ڈور ہے، نہایت ہی نا عاقبت اندیش ثابت ہوئی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بھارت دنیا میں صف اول کی ریاستوں میں شمار ہو رہا ہے، چین کو امریکہ اپنا نمبر ون حریف سمجھ رہا ہے، ایران مغربی پابندیوں کے باوجود اپنے پاوں پر کھڑا ہے اوردہائیوں کی خانہ جنگی اور بیرونی جارحیت کا شکار رہنے والے افغانستان کی کرنسی اس وقت پاکستان سے بھی مضبوط ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے: حب الوطنی۔ یہ وہ جذبہ ہے جس کی بنیاد پر ملک اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی بناتا ہے۔ یہی جذبہ ہے جو ملکی کرنسی کی مضبوطی کو اپنے وقار کی بنیاد بناتا ہے۔ حب الوطنی ہی یہ سکھاتی ہے کہ عالمی برادری میں قد کاٹھ بڑھانے کا راستہ انسانی وسائل کی ترقی ہے۔ حالات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ اب بیرونی قرضہ تو ملنے سے رہا اندرونی ذرائع سے بھی قرضے کا حصول مشکوک ہوتا جا رہا ہے۔ یعنی، اگر بجلی کے بلوں اور پٹرول پر ٹیکس لگاکر ہی بنکوں سے لیے گئے قرض واپس کرنا ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے کی وجہ سے ان کی طلب میں مسلسل کمی آتی جارہی ہے جبکہ بجلی کا پیک سیزن بھی ختم ہوگیا ہے۔ اس ساری بحث کا لبِ لباب یہ ہے کہ گرداب سے نکلنے کا راستہ عوام جو صارف بھی ہیں اور ووٹر بھی۔ معیشت اور جمہوریت دونوں کی بقا ان کی قوتِ خرید میں اضافے اور معیار زندگی بلند ہونے میں ہے۔ کیسے؟ بات لمبی ہوجائیگی۔ مختصر یہ کہ آئینی تقاضوں سے ہم آہنگ خود مختار مقامی حکومتوں سے نئی شروعات ہوسکتی ہیں۔ مگر اشرافیہ حرص و حوص کے جال میں پھنس کر ناکام ہوچکی ہے اور ملکی معاملات کوساہوکاروں پر چھوڑ کر بیٹھ گئی ہے تو اب ذرا عوام کو بھی موقع دیں۔ معیشت بھی سنور جائیگی اور ملکی وقار کا تحفظ بھی یقینی بن جائیگا۔