پاکستان کے دل لاہور شہرکی تاریخ بے مثل ہے، لاہور کئی اعتبار سے میرا دوسرا گھر ہے لیکن جس انداز میں پنجاب کے تمام شہروں کے مجموعی فنڈز سے زیادہ لاہور پر خرچ کیے جاتے رہے، اس پالیسی کا ہمیشہ ناقد رہا ہوں، تاہم لاہور شہر پاکستان کی شان، آن اور جان ہے، اسکی تاریخ کا ہر زاویہ متعدد محققین، تاریخ نگاروں اور قلم کاروں کی تخلیق کا مرکز بنتا رہا ہے اور تاحال موضوع سخن بنتا چلا جا رہا ہے مگر ہر مرتبہ نئے سے نئے خوبصرت زاویے، دریافت کی جہتوں کے دریچے کھول دیتے ہیں۔ حالانکہ کسی ایک مخصوص شہر کی تاریخ کو جمع کرنا، اس کی صداقت کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے ماضی کی گرہوں کو کھولنا سہل نہیں، اگر یہ کہا جائے کہ طویل مدتی تحقیق کی تہوں میں غوطہ زن ہو کر ماضی میں جینا پڑتا ہے اور آخر کار آنکھیں مل کر دامن کو جھنجھوڑ کر حال کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔ ماضی کے تانے بانوں کو حال کی آندھی میں اس طرح سمونا ہوتا ہے کہ وقت کی تلخ و شیریں اور تند و تیز دھوپ، چھاؤں اور ہواؤں کے تھپیڑوں سے اسے محفوظ بنا کر ماضی کی وقائع نگاری عوام کے روبرو لائی جاسکے تو بے جا نہ ہوگا۔ تاریخ نگاری کی ایسی مشقیں اور اس سے مماثل متعدد ایسے زور آزما مراحل ہیں، جن کو عبور کرنے کے بعد تاریخی تحقیق کا ایسا تخلیقی نمونہ سامنے آتا ہے، جسے تاریخ نگاری کہا جاتا ہے، پھر اس تخلیق کی آبیاری کے مراحل میں حقائق کی پرتوں کا انداز بیان ایسا اپنایا جائے کہ قاری تاریخ کے سمندر میں غوطہ زن بھی ہو جائے اور مسلسل تاریخ کے دامن میں ڈوبا رہنے کی جستجو رکھتے ہوئے تھکان کا شکار بھی نہ ہو، شہر لاہور پر تحقیق اور تخلیق کی تمام وادیوں سے ہوتے ہوئے ممتاز کالم نگار محترم اشرف شریف نے ارمغان لاہور کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے۔ یہ کتاب شہر لاہور کی شاندار تاریخ کا تخلیقی شاہکار ہے، اس کی انفرادیت یہ ہے کہ پیچیدہ تاریخ کو بھی سہل الفاظ میں سمیٹا گیا ہے جبکہ لاہور کی تاریخ کو متعدد عنوانات کے تحت قارئین کیلئے مطالعے کیساتھ اسے سمجھنا بھی آسان کر دیا ہے ، تاریخ کے ساتھ ساتھ عام قاری کی نفسیات کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے جو اس کتاب کو مزید خوبصورت بناتا ہے۔برادرم اشرف شریف کو میں نے دیکھا ہے کہ جن الفاظ میں وہ روزمرّہ زندگی میں احباب سے مخاطب ہوتے ہیں، انہی روزمرہ کے الفاظ کو اپنے کالموں میں استعمال کرتے ہیں جبکہ کچھ دنوں سے وہ فیس بک اور یوٹیوب پر جو وی لاگز ریکارڈ کرتے ہیں، ان میں بھی ایسے ہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ معمول کے مطابق مخاطب ہیں، اس انداز نے انکی کتاب کو مزید شاندار بنا دیا ہے، اسکے علاوہ میرے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ کیونکہ ارمغان لاہور کیلئے اشرف شریف نے پہلے کالموں کی صورت میں مواد اکھٹا کیا ہے تو ان کے گروپ ایڈیٹر محترم ارشاد احمد عارف کا پرانا معمول ہے کہ وہ ہر کالم کے ہر لفظ پر نظر ضرور ڈالتے ہیں، لہذا اشرف شریف کی کتاب کی کالموں کی صورت میں تیاری کے مراحل میں وہ رہنمائی بھی حاصل کرتے رہے۔ اشرف شریف نے ارمغان لاہور کی تیاری میں رہنمائی پر معروف دانشور مستنصر حسین تارڑ اور معروف تجزیہ نگار اوریا مقبول جان کا بھی شکریہ ادا کیا ہے، اس سے قبل ان کی دو کتب نبی کریم صلی اللہ علیہ کے عزیز و اقارب اور پاکستان میں گلاب کے ناموں سے شائع ہو چکی ہیں، ارمغان لاہور۔۔۔ آثار، شخصیات اور احوال کے عنوانات میں تقسیم کر کے شائع کی گئی ہے، اس کا فائدہ یہ ہے کہ آثار میں قارئین کو تاریخی عمارتوں، مقامات کی تاریخ اور ان سے جڑی معلومات پڑھنے کو دستیاب ہو جاتی ہیں جبکہ شخصیات کی فہرست میںشاہ حسین، مہاتما ہنس راج، مہارانی سدا کور ، سر گنگا رام، خان بہادر برکت علی خان کے متعلق تمام اہم اور تاریخی حقائق موجود ہیں۔ احوال میں لاہور کی تحریکوں کا رنگ نمایاں ہونے کے علاوہ فطرت، ماضی سے منسوب واقعات، لاہور کے ادیب، لاہور کے غیر مسلم فقیر اور سادھو، مزاحمت کی کہانیاں، لاہور میں مسلم عہد کا آغاز، مال روڈ کی کہانیاں وغیرہ شامل ہیں، مجھے سب سے زیادہ وابستگی ٹیمپل روڈ (حمید نظامی روڈ) سے متصل صفانوالہ والا چوک کے نام کے پیچھے چھپی تاریخ سے ہوئی کیونکہ میرے بچپن کا خاصا وقت اسی علاقے میں واقع مہتہ سٹریٹ میں سکول کی چھٹیوں کے دوران گزرتا رہا، ’’ٹیمپل روڈ اور کچھ مائیاں رانیاں‘‘ کے عنوان سے ارمغان لاہور کے ساتویں مضمون میں اسکا احوال تحریر ہے، برکت علی محمڈن ہال جہاں تصور پاکستان پیش ہوا، بید مجنوں کو چومتی لاہور نہر، مٹتا ہوا لاہور، مال روڈ کی کہانی، قدیم لاہور کے شعراء اور مزید تمام لاہور کی تاریخ پر مبنی مضامین کتاب کے قاری کا دل موہ لیتے ہیں، ارمغان لاہور میں کل 42 تحقیقی مقالے مضامین کی صورت میں موجود ہیں، محترم مستنصر حسین تارڑ نے اشرف شریف کی اس کاوش کو گہری تہوں کا ہل' کے عنوان سے سراہا ہے، مصنف نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے: شہر لاہور ایک طلسم ہے، بلاشبہ ارمغان لاہور بھی ایک طلسم ہے، جو لاہور کے سحر میں مبتلا کیے بغیر نہیں رہتا، ارمغان لاہور نے تاریخ کی بہت ساری گرہوں کو کھولا ہے، لاہور کو اس کے تاریخی پس منظر میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے، لاہور کی ایک خوبی پر سر خم تسلیم کرنا پڑے گا کہ قلم کاروں کی سب سے بڑی تعداد آج بھی لاہور کو اپنا علمی و ادبی مرکز سمجھتی ہے اور یہی لاہور کی سب سے بڑی زرخیزی ہے۔ کتاب میں درست قلم کشائی کی گئی ہے کہ خطے میں اس سے قدیم شہر ہیں لیکن قدامت میں نشوونما پاتی زندگی کے رنگ نہ ہوں تو وہ کھنڈر رہتی ہے، لاہور آباد رہا، ارمغان لاہور ہر اعتبار سے پڑھنے کیلئے ایک موزوں کتاب ہے، ان کے لیے بھی جو کتب بینی کا ذوق رکھتے ہیں اور ان کیلئے بھی جو کتابیں نہیں پڑھتے، پرانا لاہور کہاں واقع تھا؟ محمود غزنوی کے حملوں سے قبل لاہور کیسا تھا؟ ظہیر الدین بابر کا دور، سب کچھ ارمغان لاہور میں موجود ہے، یہ کتاب قلم فاؤنڈیشن بینک سٹاپ والٹن روڈ لاہور کینٹ سے حاصل کیجیے اور لاہور کے تاریخی دریجوں میں جھانکیے، آخر میں فقط اتنا کہوں گا: ویلڈن اشرف شریف ویلڈن!!!