آج کل ایک بحث تارکین وطن کے حوالے سے چلی ہوئی ہے۔ ایک گروہ اس کی حب الوطنی کا علم بلند کئے ہوئے ہے اور ان کی شان میں مدح سرا ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ ان کی حب الوطنی میں تو کلام نہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ملکی معاملات پر ان کی رائے صائب ہو۔ دونوں گروپ یہ گفتگو اس لئے کر رہے ہیں کہ آیا انہیں ووٹ کا حق دیا جائے یا نہیں۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ ان کے اس حق پر کسی کو اعتراض نہیں‘ وہ اس بار الیکشن کے دنوں میں ملک آئیں اور اپنا حق استعمال کریں جس طرح بھارت اور بنگلہ دیش میں ہوتا ہے مگر اپنے اپنے مقام پر رہتے ہوئے ان سے ان کی رائے طلب کرنا مناسب نہیں ہے۔ پہلا گروہ کہتا ہے کہ وہ غیر ملکوں میں کمائی ہوئی اپنی حق حلال کی کمائی پاکستان بھیجتے ہیں تو معیشت چلتی ہے۔ اب کی بار وہ ایک بات کا اضافہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ صرف ان کی پاکستان سے محبت کی وجہ سے نہیں بلکہ عمران خاں سے پیار کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے پاکستان میں اتنا زرمبادلہ بھیجا ہے کہ شاید ہماری برآمدات سے بھی بڑھ جائے۔ ویسے سچ پوچھیے تو کیس یہیں خراب ہوتا ہے۔ مخالف کہتے ہیں یہ حکومت انہیں اس لئے ووٹ کا حق دینا چاہتی ہے کہ ان کی اکثریت عمران خان کی حامی ہے۔ ان کے خیال میں عمران کا حامی ہونا ہی ان کی اصل کمزوری ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے اور وہ اپنی نا فہمی کی وجہ سے عمران کی شہرت سے متاثر ہو گئے ہیں۔ ان کے خیال میں بھٹو کے مقابلے میں بھی یہی ہوا تھا۔ جب ملک کی اکثریت ان کی رائے میں بھٹو کی مخالف ہو چکی تھی‘وہ بھٹو ہی کے گرویدہ چلے آتے تھے۔ یہ ایک عجیب صورت حال ہے کہ باہر والوں کے لیڈر چننے کے اپنے معیار ہوتے ہیں۔ ان معیارات پر میں بات نہیں کرنا چاہتا۔ مبادا کوئی گستاخی ہو جائے۔ وہ ایک خاص ٹائپ کی شخصیات کے معتقد ہوجاتے ہیں۔ چاہے وہ ملک کے لئے مفید ہوں یا ضرر رساں۔اس ٹائپ پر ایک سنجیدہ مطالعہ ہونا چاہیے جو یہاں ممکن نہیں ہے۔ قطع نظر اس بات کے یہ کہنا کہ اس بار ترسیلات زر اس لئے ہوئیں کہ لوگوں نے عمران خاں کی محبت میں پیسے بھیجے تو میں بڑے اعتماد کے ساتھ چیلنج کرتا ہوں کہ انہوں نے نہ عمران کی محبت میں ڈالر بھیجے نہ پاکستان کی محبت میں۔ یہ محبتیں اپنی جگہ مگر اپنے وطن کی مٹی کو چھوڑ کر دیار غیر میں جانے والے کے لئے سب سے اہم اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات ہوتی ہیں۔ جب نواز شریف نے ایٹمی دھماکہ کا کیا تو انہیں مشورہ دیا گیا کہ پاکستان کو قرض یا مدد کی صورت میں ڈالر بھیجنے کے لئے تارکین سے مدد کی اپیل کی جائے۔ وہ پاکستان کے اس کارنامے پر پھولے نہ سما رہے تھے مگر انہوں نے اپنی خون پسینے سے کمائی ہوئی دولت کا استعمال سوچ سمجھ کر کیا۔ تجزیہ کر لیجیے کتنوں نے پاکستان کی مدد کی اور کتنوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے موقع کو غنیمت جانا۔ باہر رہنے والوں کی اپنی نفسیات ہوتی ہے۔ اب حکومت نے ایک سکیم کا اعلان کیا ہے جس میں ڈالر پر 7فیصد منافع کا اعلان ہے۔کون ہے جو اس سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہے گا‘ بلکہ کہنے والے تو یہ کہتے ہیں کہ غیر ملکی بنکوں سے ایک ڈیڑھ فیصد پر قرض لے کر وہ سات فیصد والے ان بانڈز میں دے سکتے ہیں کہ جلد اسی بہانے دیار غیر میں بیٹھے بٹھائے کچھ کما لیں۔ پاکستانی ہونے کا اتنا فائدہ تو حاصل کر لیں۔ اس بات کو بھی چھوڑیے کہ اس بار ترسیلات زر کیوں زیادہ ہو ئی ہیں۔بھارت اور پاکستان میں بھی ہوتی ہیں۔ کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔عمران خاں کی محبت تھی کہ وہ گزشتہ تین سال کہتے رہے مگر کسی کے کان پر جوں نہ رینگی بلکہ عمران خاننے مایوسی کا اظہار بھی کیا۔ سب جانتے ہیں کہ اس بار کیا مجبوری تھی کہ انہیں اپنے ڈالر پاکستان بھیجنا پڑے۔ اب اگر ہمارے ماہرین اس بات کا اندازہ نہ لگائیں گے تو آئندہ مار کھائیں گے۔ سب جانتے ہیں یہ فائدہ ہمیں کب تک اور کتنا پہنچنے والا ہے۔ چین کے تارکین وطن کی مثال دی جاتی ہے کہ انہوں نے اپنے وطن کی تعمیر میں کیسے حصہ لیا۔ بھارت والوں نے کیسے اپنے ملک کی دامے درمے مدد کی۔ کبھی آپ تجزیہ کیا کہ انہوں نے یہ سب کن حالات میں اور کیوں کیا۔ پاکستان میں کیا ایسے حالات ہیں کہ ہمارے تارکین وطن ملک کی مدد کا سوچیں۔ جو دو چار آتے ہیں انہیں ہم بھگا دیتے ہیں۔ وطن کی محبت اپنی جگہ مگر شکم کی آگ اپنی جگہ جو دربدر لئے پھرتی ہے۔ ہمیں غلط توقعات نہیں باندھنا چاہیے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے تاجر اور صنعت کار یہ دعویٰ کرتے تھے کہ حکومت ہم سے بات کرے ہم پیسوں کی ریل پیل کر دیں گے مگر جب کسی صنعت یا ادارے کی نجکاری کا معاملہ آتا تھا تو پتا چلتا تھا کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔کتنے ادارے پاکستانیوں نے براہ راست خریدے۔سو زیادہ توقعات نہ باندھیے ‘حقیقت پسندی کی حدود میں رہیے۔ اب ایک اور بات کا اس مقدمے میں اضافہ ہو گیا کہ تارکین وطن کی ان عظمتوں کے طفیل انہیں ووٹ کا حق دیا جائے۔ سوال ووٹ کا حق دینے کا نہیں‘ اس طریق کارکا ہے جو اس حق کے حصول میں اختیار کیا جائے گا یعنی پرائے دیس میں میںبیٹھے بیٹھے ووٹ دینے کا حق، پھر مثال دی جا رہی ہے کہ یہ حق کسی ملک میں حاصل نہیں۔ بھارت کے تارکین وطن کم محب وطن نہیں مگر انہیں ووٹ دینا ہوتا ہے تو اپنے ملک میں آ کر دیتے ہیں۔باہر یہ حق دینے میں طریق کار کی جو قباحتیں ہیں وہ سب اپنی جگہ ہیں، مگر اصرار ہے کہ چلا جا رہا ہے۔ دلیل یہ ہے کہ وہ محبت وطن ہیں اور پاکستان میں ڈالر بھیجتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ان دنوں ان میں اضافہ کیوں ہوا۔ اپنے تارکین وطن کی ہمیں قدر کرنا چاہیے مگر وہ نہیں کرنا چاہیے جوانتخابات کو مزید مشکوک بنادے۔ وہ کرو جو دنیا کر ر ہی ہے۔ دنیا سے آگے جانے کی بھی کوشش نہ کرو۔ اکیلے رہ جائو گے۔ ہم غلط مقدمے بناتے ہیں اور اپنے مقدمے کے گرد جذبات کا ہالہ بن دیتے ہیں۔ تارکین وطن ہوں یا انتخابات کے لئے مشینوں کا استعمال دونوں باتیں احتیاط چاہتی ہیں۔ایسا نہ کیا گیا تو ہم مارے جائیں گے۔