سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے الوداعی خطاب میں جہاں کچھ اعترافات کئے وہاں انہوں نے قوم سے کچھ شکوہ بھی کیا ۔انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ فوج پاکستان کے سیاسی معاملات میں دخل اندازی کرتی رہی ہے تاہم پچھلے سال فروری سے فوج نے خود کو سیاسی معاملات سے علیحدہ رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔اسی کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس بات کا شکوہ کیا کہ قوم نے سابقہ مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کے دوران اور پھر انڈیا کے ساتھ جنگ میں فوج کی قربانیوں کا اعتراف نہیں کیا ۔جو کہ ان کے خیال میں بڑی زیادتی کی بات ہے۔ جنرل صاحب کا ملکی سیاست میں دخل اندازی نہ کرنے کا اعلان بلا شبہ بڑا خوش آئند ہے پاکستانی سیاست میں فوج کی دخل اندازی جیسا کہ جنرل صاحب نے کہا، اس سے اجتناب ہی فوج کے لئے درست راستہ ہے یہ فوج کے وقار کیلئے بھی اور سیاسی اداروں کی ترقی کے لئے بھی نہایت ضروری ہے مگر کیا اس پر عمل کیا گیا،حالیہ سیاسی واقعات اس کی تائید اور تصدیق نہیں کرتے۔ جنرل باجوہ کے مطابق فروری میں فوج نے سیاسی معاملات سے علیحدگی اختیار کرلی تھی تو پھر پنجاب کی وزارت اعلی کے لئے جب تحریک انصاف اور تیرہ جماعتی اتحاد دونوں کی جانب سے پرویز الہٰی کو اس سلسلے میں پیشکش کی جارہی تھی تو جنرل صاحب نے پرویز الہٰی کو تحریک انصاف کی پیشکش قبول کرنے کیلئے کیوں مشورہ دیا جیسا کہ پرویز الہٰی اور ان کے فرزند ارجمند مونس الہٰی ہر دو نے اپنے ٹی وی انٹرویوز میں اس بات کا اعتراف کیا ۔ ملک میں سیاسی استحکا م اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تمام سیاسی اور ریاستی ادارے اپنی ذمہ داریاں آئینی حدود کے مطابق انجام دینے پر سختی سے کاربند نہ ہوں جب ہی ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح ممکن ہو پائے گی۔ سیاست میں فوج کی عدم مداخلت سے فوج کا وقار بھی بحال ہو گا اور دیگر ادارے بھی اپنے وظا ئف آزادی کے ساتھ ادا کر پائینگے۔فوج ریاست کا ایک اہم ادارہ ہے ۔ ریاست کے عوام کے ساتھ اس کا رشتہ اور رابطہ مغائرت کے بجائے عزت واحترام اور اپنائیت کو ہو نا چاہیئے۔ادارے کے طرز عمل میں تبدیلی سے ہی یہ ممکن ہوگا۔اس کے ساتھ سابق آرمی چیف نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے متعلق تاریخ کو درست کرنے کی ذمہ داری بھی اٹھائی۔ ان کے خیال میں سانحہ مشرقی پاکستان فوجی شکست نہیں بلکہ سیاسی ناکامی تھا۔فوج نے کمتر تعداد اور وسائل کے باوجود ڈھائی لاکھ انڈین آرمی اور کم وبیش اتنے ہی تربیت یافتہ مکتی باہنی کے مسلح جنگجوئوں سے بڑی دلیری سے مقابلہ کیا اور اس بات کا شکوہ کیا کہ فوج کی ان قربانیوں کا عوام میں قرار واقعی اعتراف نہیں کیا گیا۔ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جانا پاکستان کی تاریخ کا ایک المناک باب ہے اس کے اسباب ومحرکات ہمہ جہت ہیں ۔اکتوبر 1958سے مارچ 1969تک جنرل ایوب خان اور پھر مارچ 1969سے دسمبر1971 تک جنرل یحیٰ خان بر سر اقتدار رہے۔ملک کے سیاسی معاملات میں یہ مداخلت تو مکمل سیاسی اقتدار کی حامل تھی اس کے علاوہ جو ابتدائی دس سال کی سیاسی تاریخ ہے وہ بھی فوجی اثرات سے متاثر رہی ۔1954 میں فوجی سربراہ ہونے کے باوجود کابینہ میں وزیر دفاع کی حیثیت سے شمولیت اس بات کو تقویت دیئے جانے کے لئے کافی ہے کہ پاکستان کی سیاست فوجی مداخلت کبھی محفوظ نہیں رہی۔ اس تاریخ کی موجودگی میں سانحہ مشرقی پاکستان کو محض سیاسی ناکامی قرار دینا قرین حقائق نہیں۔1970 کے انتخابات کے نتائج کے مطابق شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے دستور ساز اسمبلی میں اکثریت حاصل کی تھی جمہوری اصولوں کے مطابق شیخ مجیب الرحمان کو اقتدار کی منتقلی کی جانی چاہیئے تھی جو نہیں کی گئی ۔ مختلف حیلے بہانوں سے اسمبلی کے اجلاس کو ٹالا جاتا رہا جس کا نتیجہ خانہ جنگی کی صورت سامنے آیا ۔مارچ 1971سے دسمبر1971 کے دوران فوجی قیادت جو اس وقت سیاسی اقتدار پر بھی فائز تھی صورت حال کا درست ادراک اور حقیقت پر مبنی تجزیہ کرنے سے کیوں قاصر رہی ۔مشرقی پاکستان کے عوام کے سیاسی رجحانات اور جذبات سے غفلت اور ان کی اکثریت کو تسلیم کرنے میں تامل نے اس علیحدگی کو ممکن بنایا۔اس سانحہ کے ذمہ داری سے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ساتھ ، جنھیں سندھ اور پنجاب میں کامیابی ملی تھی ، اس وقت کی فوجی حکومت بھی کسی طرح بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔پھر یہ کہ انڈیا کے ساتھ جنگ کے موقع پر آخر وقت تک قوم کو یہ یقین دلایا جاتا رہا کہ صورت حال مکمل قابو میں ہے ۔ مشرقی پاکستان ملک کی آبادی کا اکثریتی حصہ تھا اس کا دفاعی حصار کمزور کیوں رکھا گیا تھا۔ پاکستان کے مغربی حصے میں موجود مقتدر قوتیں بنگالی علیحدگی پسندوں اور انڈیا کے عزائم سے کیوں غافل رہیں وہ کس زعم میںتھیں یا پھر سب کچھ فیصلہ سازوں کے علم میںتھا ۔ پاکستانی عوام کا اپنی افواج سے محبت اور عقیدت کا مضبوط ہمیشہ سے قائم رہا ہے۔ اسی تعلق سے فوج سے عوام کی توقعات بھی بہت زیادہ رہی ہیںاور جب توقعات پوری نہ ہوں تو مایوسی بھی زیادہ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ مشرقی پاکستان کے دفاع میں ناکامی سے قوم بہت دل برداشتہ ہوئی مایوسی کے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی قوم سے فوج کی قربانیاں اوجھل ہی رہیں جس کا شکوہ سابق آرمی چیف نے اپنے الوداعی خطاب میں کیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا بہت تکلیف دہ اور تلخ واقعہ ہے ۔ تاہم اس کے محرکات اور اسباب سے انکار یا اس کی ذمہ داری سے پہلو تہی حقیقت پسندی نہیں۔ اس وقت کی سیاسی اور فوجی قیادت کوئی بھی اس سے بری الذمہ نہیں ۔ سب اس کے ذمہ دار ہیں ۔ تاریخ کے صفحات میں اس کے ذمہ داروں کا تعین ہوچکا ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ قومی سطح پر کی جانے والی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف جتنا جلد ہو کر لیا جائے ۔ غلطیوں کا ازالہ اسی طرح ممکن ہے جب انہیں تسلیم کرلیا جائے تب ہی ان سے آئندہ بچنے کی راہ متعین ہوتی ہے اور اسی میں دانائی ہے۔