امریکہ کی معروف کریمنل سائیکالوجسٹ پیٹریشیا کارویل نے کہاہے کہ طاقت اور اختیارات کا غلط استعمال تمام برائیوں کی جڑ ہے کس طرح! اس کا جواب ٹیڈ نوجینٹ نے یوں دیا ہے کہ جب ریاست کی رٹ نہ ہو، قانون طاقتور کو نکیل ڈالنے میں بے بس ہو تو ریاست بدعنوانی دھوکہ دہی اور کرپشن کے سمندر میں پھولی ہوئی لاش کی مانند رہ جاتی ہے۔ پاکستان میں پھر بھی ایک بھرم تھا کہ اشرافیہ کی اقتدار اور مفادات کی جنگ میں بھلے ہی جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہو مگر غریب کو تاخیر سے ہی سہی مگر انصاف مل جاتا ہے۔ مگر جب حکمرانوں نے خود کو قانون سے مستثنیٰ سمجھتے ہوئے افسر شاہی سے خلاف قانون کام کروانا شروع کئے تو قانون توڑنے والی افسر شاہی نے بھی خود کو قانون سے بالا تصور کرنا شروع کر دیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ تھانیدار نے تھانہ کی حدود تک اور ضلع کے پولیس افسر نے ضلع کو اپنی سلطنت سمجھ اور مان لیا کہ دائرہ اختیار تک قانون بھی اس کا اور انصاف بھی اس کا۔ ویسے تو حکمرانوں کی مہربانیوں سے ملک کا کوئی بھی ادارہ محروم نہیں مگر سب سے زیادہ پولیس کا چرچا رہتا ہے۔ قانون کے تحفظ اور جرائم کے سدباب پر مامور اس ادارے کا لاقانونیت اور بدعنوانی میں ہمیشہ پہلا نمبر رہا ہے ۔آئی جی پنجاب کے علم میں لانے کے لئے دو واقعات کا ذکر ضروری ہے پہلا واقعہ کا راوی لیڈی ولنگٹن ہسپتال کے درجہ چہارم کا ملازم ہے کہتا ہے جب اس کو ہسپتال میں نوکری ملی تو اس نے قریب ہی منشی لدھا کے علاقے میں ایک بلڈنگ میں بنے فلیٹس میں سے ایک فلیٹ 12000کرائے پر لیا کیونکہ اس سے کم گھر ملنا ممکن ہی نہ تھا اور اپنی بیوی اور تین بچوں کو گائوں سے لاہور بلوا کر رہنے لگا۔ 12مارچ کو اس کی ہسپتال میں شام کی ڈیوٹی تھی اور رمضان کا دوسرا روزہ تھا۔ افطاری کے 45 منٹ بعد تھانہ شفیق آباد کے سب انسپکٹر شہبازنے باغ منشی لدھا کے فلیٹس پر چھاپہ مارا اور بلڈنگ میں موجود 12فلیٹس کے مردوں اور خواتین کو اٹھا کر حوالات میں بند کر دیا۔ انچارچ شفیق آباد پولیس سٹیشن انسپکٹر فاروق اعظم نے تھانہ پہنچنے پر حوالات میں بند خواتین حضرات کے بابت پوچھا تو بتایا گیاکہ ان کو قحبہ خانہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ تھانے کا بادشاہ پرچہ درج کرنے کا حکم دے کر چلا گیا۔ سب انسپکٹر نے ملزمان کو انویسٹی گیشن ونگ کے حوالے دیا جہاں ان کے بائیو میٹرک ہوئی اور اگلے روز ملزمان کو عدالت میں پیش کر دیاگیا عدالت نے بے بنیاد مقدمہ خارج کر کے تمام ملزمان کوبری کردیا۔ بظاہر یہ ایک قحبہ خانے پر معمول کی کارروائی محسوس ہوتی ہے پولیس نے اپنا کام کیا اور عدالت نے اپنا ۔مگر غور کیا جائے تویہ قانون اور انصاف کے ساتھ بھونڈا مذاق اوربے کس و بے بس غریبوںکے ساتھ ظلم ہے ۔ قانون کے مطابق اگر پولیس کے لئے رات کو گرفتاری ناگزیر ہو تب بھی لیڈری پولیس کے ساتھ ہی خواتین کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ قانون کے مطابق ملزمان کا میڈیکل کروایا جاتا ہے پھر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے مگر اس معاملے میں ایسا کچھ بھی نہ ہوا ۔پولیس کے اس دعویٰ کو اگر درست تسلیم کر بھی لیا جائے کہ قحبہ خانے پر چھاپہ مارا گیا تب بھی یہ سوال تو اٹھے گا کہ بلڈنگ کے 12فلیٹس کے تمام مکینوں کو کس جرم گرفتار کیا گیا۔ 12فلیٹس سے 20خواتین اور صرف 4مرد گرفتار ہوئے جس کا مطلب ہے کہ ایک فلیٹ میں دو سے زائد خواتین موجود نہ تھیںاور اکثر گھروں کے مرد روزی روٹی کے چکر میں گھر سے باہر تھے۔ ممکن ہے بلڈنگ میں کسی ایک فلیٹ میں ایسا کام ہوتا بھی ہو مگر یہ کیونکر ممکن ہے کہ بلڈنگ کے تمام فلیٹس کے مکین اس دھندے میں ملوث ہوں؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ وہاں شریف اور باحیا فیملیز بھی رہائش پذیر ہوں اور اگر ایسا ہو تو ایسی فیملیز کے بارے میں کسی نے ایک لمحے کے لئے بھی سوچا کہ اس کارروائی سے ان پر کیا گزرے گی؟رشتہ داروں اور خود اپنے بچوں کا وہ کیسے سامنا کریں گے؟ اس بلڈنگ میں تمام رہنے والوںپر سب انسپکٹر نے کس قدر بے رحمی اور بے حسی سے جسم فروشی کا ٹیگ لگا دیا۔ حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کہ اس معاملے میں تاحال کسی بھی فلیٹ والے سے فاروق اعظم یا شہباز کی طرف سے رشوت طلب کرنے کی شکایت بھی سامنے نہیں آئی۔ رشوت کے لئے نہیں تو پھر یہ کارروائی کیوں کی گئی؟ اس سوال کا جواب بڑا قابل رحم اور ظالم ہے ۔پولیس حکام کی طرف سے جرائم کے خاتمے کے لئے ماتحت اہلکاروں اور تھانوں پر دبائو ڈالا جاتا ہے اور ہر تھانے دار اور پولیس اسٹیشن کی کارکردگی مقدمات کے اندراج کے پیمانے سے ناپی جاتی ہے جس طرح ٹریفک پولیس کے اہلکار ٹارگٹ پورا کرنے کے لئے سکول اور کالج کے بچوں کے چالان کاٹ کر کارکردگی دکھاتے ہیں اسی طرح پولیس راہ چلتے بے گناہوں پر مقدمات درج کر کے کاغذوں کا پیٹ بھرتی ہے۔ مقدمات درج کرنے کے لئے مال مقدمہ پلے سے ڈالنے کی اصطلاح بھی عام ہے۔ راہ چلتے پر چرس ہی نہیں پستول تک ڈال کر کاغذوں کا پیٹ بھرا جاتا ہے اور اپنا پیٹ بھرنے کے لئے سکہ بند پیشہ وروں اور مجرموں سے جرم کے حساب سے منتھلیاں وصول کی جاتی ہیں۔ پولیس اختیارات کا ناجائز استعمال اس ڈھرلے اور بے خوفی سے کرتی ہے کہ اس کے قہر سے سرکاری ادارے تک محفوظ نہیں۔ گزشتہ دنوں پولیس کے اہلکار منسٹری آف فارن افیئرز کے دفتر پر چھاپہ مارنے پہنچے اور تصدیق کے لئے آنے والی ہزاروں نوجوانوں کی ڈگریاں اٹھا کر لے گئے۔20ہزار روزانہ بھتہ طے کرنے کے بعد منسٹری آف فارن افیئرز کو کمپیوٹر اور سٹاف اور طالب علموں کو اپنی اسناد واپس ملیں۔جب بدعنوان اور کرپٹ اس قدر بے خوف اور قانون کے محافظوں کا معیار جرائم پیشہ افراد سے منتھلی لینا اور بے گناہوں کو پکڑ کر پرچہ دینا رہ جائے تو پانی پر تیرتی نظام کی لاش معاشرے میںلاقانونیت کا تعفن ہی پھیلائے گی۔حیرت تو اس بات پر بھی ہے کہ یہ اس وزیراعلیٰ مریم نواز کے اقتدار میں ہو رہا ہے جن کا خاندان اور وہ خود اسی طرح کی لاقانوینت اور نا انصافی کا شکار رہ چکی ہیں۔ مان لیا طاقت ہی سب سے بڑا قانون ہے مگر خاتون وزیراعلیٰ سے بے گناہ خواتین داد رسی کا حق تو رکھ سکتی ہیں۔