کسی شخص کو قتل کرنے کیلئے اس سے عمدہ منصوبہ بندی نہیں کی جا سکتی اور انسانی تاریخ میں خفیہ یا گھات لگا کر قتل کرنے (Assassination) یا ’’گپت گھات‘‘ کبھی اسقدر بُری طرح ناکام نہیں ہوئی جیسی پاکستان کی تاریخ کے سب سے مقبول رہنما عمران خان کو جان سے مارنے کی منظم سازش جمعرات، تین اکتوبر 2022ء کو وزیر آباد میں ناکام ہوئی۔ اب تک کے شواہد، وہاں پر موجود لاتعداد گواہوں کی گفتگو اور بے شمار کیمروں نے جو مناظر قید کئے ہیں، ان سے عمران خان کے قتل کی ’’منصوبہ بندی‘‘ کی جو تصویر اُبھر کر سامنے آتی ہے، اس سے ایک عام سا تحقیقی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس حملے میں عمران خان سمیت ان درجن بھر افراد کا بچ نکلنا ناممکن تھا۔ ان میں سے جو کوئی بچ نکلتا وہ شدید زخمی ضرور ہو جاتا۔ عمران خان جس کنیٹر پر سوار تھا وہ زمین سے پندرہ فٹ بلند تھا جبکہ اس پر کھڑے ہو کر تقریر کرنے کیلئے جو باڑ لگائی گئی تھی وہ دو فٹ تھی۔ ظفر علی خان چوک دراصل اس سنگھم پر واقع ہے جہاں گجرات کی سمت جانے والا بائی پاس اور وزیر آباد کی جانب جانے والی قدیم جی ٹی روڈ آپس میں ملتے ہیں۔ اس چوک کے بعد جی ٹی روڈ نسبتاً تنگ ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک یا دو منزلہ دکانوں اور گھنے درختوں کی وجہ سے گھات لگا کر فائر کرنے کیلئے بہترین پناہ گاہ یا مچان حاصل کرنا انتہائی آسان ہے۔ یوں فائرنگ کرنے کے بعد چھت وغیرہ سے کود کر پچھلی سمت مکانوں کی چھتوں سے کودتے ہوئے ریلوے لائن کے ساتھ کھلے علاقے میں گُم ہوا جا سکتا ہے۔ عمران خان کو قتل کرنے کے لئے اس پورے راستے میں اس سے بہتر مقام منتخب نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جی ٹی روڈ لاہور سے گجرات تک کہیں بھی اسقدر کم چوڑائی والی جگہ نہیں ہے۔ اس کے بعد ان تمام ویڈیوز کو غور سے دیکھیں تو منظرنامہ یوں بنتا ہے کہ کنٹینر انتہائی سست رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے، ایسے میں کسی اناڑی کا بھی آٹومیٹک رائفل سے لیا گیا نشانہ خطا نہیں ہو سکتا۔ کنٹینر جیسے ہی آگے بڑھ کر اس تنگ اور گنجان آباد جگہ پر آتا ہے تو بلند آواز میوزک کے دوران اچانک زوردار فائرنگ (برسٹ) کی آواز آتی ہے جو اتنی دیر تک ہے جیسے کسی آٹومیٹک رائفل کے دو میگزین خالی کئے گئے ہوں یا دو رائفلوں سے بغیر کسی وقفے کے فائر کیا گیا ہو۔ یعنی ایک کے فوراً بعد، بغیر وقفے کے دوسری فائر کھول کھول دیا جائے۔ اس برسٹ کا فائر ختم ہوتے ہی پستول کے فائروں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ جیسے ہی برسٹ کی آواز سنائی دیتی ہے، کنٹینر پر سوار تمام افراد ایسے نیچے گرتے ہیں جیسے فائرنگ اسکواڈ کے سامنے قطار میں کھڑا کر کے فائر کیا جائے تو سب کے سب دھڑام سے نیچے گر جاتے ہیں۔ ایسی فائرنگ اور اتنے کم فاصلے سے کی گئی فائرنگ اور نشانے پر لیا گیا عمران خان اور اس کے ساتھی اسقدر واضح شکار کی صورت قطار میں موجود ہوں تو کوئی جاہل ہی اس بات پر یقین کرے گا کہ یہ لوگ زندہ بچ گئے۔ انسانی عقل و فہم یہ سمجھنے سے قاصر ہے۔ یہاں وہ ’’معجزاتی‘‘ صورتِ حال پیدا ہوتی ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ کوئی غیر مرئی قوت اس مالکِ کائنات کے اذن سے یہاں کارفرما ہوئی اور جیسے اس نے گولیوں کا رُخ بدل دیا ہو اور کنٹینر پر موجود افراد میں سے کوئی ایک بھی شدید زخمی نہیں ہوا۔ایسے محسوس ہوتا ہے، گولیاں سب کو معمولی سا چھو کر گزر گئیں۔ پلان کا دسرا حصہ بھی انتہائی شاطرانہ طریقے سے سوچا گیا تھا۔ ایک نوجوان کو نائن ایم ایم پستول دے کر ہجوم میں بھیجا گیا تاکہ وہ ان گولیوں کی بوچھاڑ کے دوران فائر کرے۔ پندرہ فٹ اُونچے کنٹینر اور دو فٹ کی باڑ کی سمت اگر نیچے سے کھڑے ہو کر نشانہ لیا جائے تو گولی براہِ راست اتنی بلندی تک نہیں جا سکتی کیونکہ اس کے بالکل متوازی زمین کی کشش ثقل (Gravity) اسے کھینچ رہی ہوتی ہے۔ اس کے لئے پستول کا کم از کم ساٹھ ڈگری کا زاویہ ضروری ہے اور سڑک کی کم چوڑائی اور ہجوم میں ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔ پستول والے نے برسٹ کے ساتھ ہی فائر کرنا تھا تاکہ اس کے پستول کی گولی کی آواز برسٹ کی گولیوں میں گم ہو جائے، لیکن جیسے ہی اس نے پستول نکالا، ایک نوجوان نے اسے پکڑ لیا اور فائر کرنے میں تاخیر ہو گئی جس سے پستول کے فائر علیحدہ سنائی دیئے۔ شاطرانہ منصوبہ یہ تھا کہ ہجوم کی وجہ سے یہ لڑکا پکڑا جائے گا۔ پھر اس سے ہم ’’مذہبی شدت پسندی‘‘ والا بیان دلوائیں گے اور ثابت کریں گے کہ عمران خان کو توہینِ مذہب کرنے پر مارا گیا۔ جب تحقیق اور تفتیش ہو گی تو کنٹینر پر لگنے والی گولیاں تو پستول کی نہیں نکلیں گی بلکہ آٹومیٹک رائفل کی ہوں گی تو چونکہ اس شخص کی گولی سے کوئی نہیں مرا ہو گا، اس لئے یہ باعزت بری ہو جائے گا۔ لیکن میرے اللہ نے ان کی تمام تدبیر، پلاننگ اور شاطرانہ منصوبہ بندی ناکام بنا دی۔ قتل تو دُور کی بات، عمران خان کی ٹانگ میں جس گولی کے ذرّات لگے وہ اس کی بڑی شریان کو صرف چھو کر گزرے۔ اگر وہ شریان کو کاٹ دیتے تو جسم کا پورا خون بیس منٹ کے اندر اندر بہہ جاتا اور شوکت خانم ہسپتال تو ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ پلان کے مطابق پستول چلانے والے کی ویڈیو فوراً ریلیز کر دی گئی ایسا اس لئے کیا جاتا ہے کہ رٹایا ہوا بیان بھول نہ جائے۔ بدترین بات یہ ہے کہ پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن نے ایک ملزم کی ویڈیو فوراً چلائی۔ پاکستان کے ’’عظیم‘‘ صحافیوں نے اسے فوراً نشر کیا اور عوام کی جان و مال کا محافظ ’’وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ‘‘ اس کے ’’گُن گاتا‘‘ رہا ہے جس ویڈیو کی قانونی حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک درجہ سوئم کے مجسٹریٹ کے سامنے بھی پیش نہیں کی جا سکتی اسے وزیر دفاع خواجہ آصف جو ایک قانونی پس منظر رکھتے ہیں دلیل کے طور پر پیش کرتے رہے۔ اپنے خطرناک منصوبے کے فیل ہونے کے بعد اب ان کے ہاتھ میں اس ویڈیو کے علاوہ رہ ہی کیا گیا تھا۔ اس بیان کے ایک ایک فقرے کا ایسے دفاع کیا گیا جیسے خود لکھ کر دیا گیا ہو۔ پاکستان کی تاریخ میں حکومتی سطح پر کسی قاتل کی ایسی پذیرائی نہیں ملی ہو گی۔ ناکام، نامراد اور مایوس لوگ شاید اب بھی یہ خیال کر رہے ہوں کہ ایک دفعہ پھر کوشش کر کے دیکھتے ہیں۔ اللہ ہمیشہ جھنجوڑنے کے لئے کوئی ایسی نشانی ضرور دیتا ہے جس کی عقلی توجیہہ ناممکن ہو۔ ایسا تاریخ میں بار بار ہوا ہے۔ امریکی سی آئی اے نے فیڈرل کاسترو کو قتل کرنے کے لئے 638 کوششیں کیں لیکن ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ عمران خان جب 2013ء میں سٹیج کی سیڑھی سے گرا تھا تو تمام جائزے یہ کہہ رہے تھے کہ وہ کم از کم معذور ضرور ہو جائے گا لیکن اہلِ نظر بتاتے تھے کہ اس کا صحیح سالم بچ نکلنا معجزہ ہے۔ تقدیر پڑھنا سیکھو۔ قضا و قدر کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔ جس شخص کی حصار بن کر حفاظت ہو رہی ہو اس کے حصار میں گھسنے کی کوشش کرنا حماقت ہے۔ لیکن کچھ لوگ واقعی انّا اور تکبر میں ایسا کرتے رہتے ہیں۔ ان کا حال فارسی کے اس محاورے کی طرح بار بار ہوتا ہے۔ ’’تدبیر کند بندہ، تقدیر کند خندہ‘‘۔ بندہ اپنی تدبیریں کرتا ہے اور تقدیر مسکرا رہی ہوتی ہے۔