ہْن برسنا اب تو ایک محاورہ ہے مگر ہن کیا شے ہے یہ ہمیں میر باقر علی داستان گو نے بتایا۔البتہ سب سے پہلے دیغ کو دیگ کس نے کہا معلوم نہیں۔ میر باقر علی دلی کے رہنے والے تھے۔ انہیں مقرر ِکائنات کہا جاتا ہے۔وہ خواجہ حسن نظامی کے دوست بھی تھے اور نیازمند بھی۔ خواجہ صاحب نے ہی انہیں مقرر ِکائنات کا خطاب دیا تھا۔میر باقر علی اس خطاب پر ایسے فدا تھے کہ کہنے لگے کسی قوم پر ہن برستا ہے اور ہمارا ہن خواجہ حسن نظامی کا دیا ہوا خطاب ہے۔اب تو ہن دولت کے مفہوم میں لیا جاتا ہے اور درست لیا جاتا ہے اصل میں یہ قطب شاہی حکمرانوں کا سکہ رائج الوقت تھا۔قطب شاہیوں کی طرح ہن بھی گیا ہن والے بھی گئے۔زمانہ بے ناموں کا ہے اور ان کے کارناموں کا ہے۔قیمتیں ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہیں عام آدمی کی آمدنی تو روزانہ نہیں بڑھتی اور ہن حکومت گزیدوں پر برستا نہیں۔ میر باقر علی اورنگ زیب عالمگیر کو حضرت عالمگیر لکھتے ہیں۔ دیکھیں عوام جن بادشاہوں یا حکمرانوں سے پیار کرتے ہیں صدیاں گزر جانے پر بھی ان کے ساتھ حضرت کا سابقہ لگاتے ہیں۔ اب ہم حکمرانوں کو حضرت کہیں تو وہ اس کا مطلب وہ وہی لیں گے جو ہمارے دل میں ہے۔دل بذات خود بھی بڑا حضرت ہے ایسا نہ ہوتا تو داغ اور دوسرے اہل ِدل اسے حضرت کیوں کہتے۔دل کی طرح داغ بھی بڑے حضرت تھے سو کہہ گئے: جناب حضرت ِدل بھی عجب الو کے پٹھے ہیں جہاں دیکھا حسیں کوئی بگڑ بیٹھے مچل اٹھے ویسے دلی کو بھی حضرت دلی ہی کہا جاتا ہے۔ایک حضرت انسان بھی ہوتے ہیں۔ ان حضرت جمع (حضرات)حکمرانوں کے لچھن پہلے ہی ظاہر و باہر تھے اب بجلی پٹرول اور کرایوں کے اضافے نے قوم کو ادھ موا کر دیا ہے۔ان کے کرنے کے اور کام ہیں مگر مصروف اور کاموں میں ہیں۔ایک کام تو اس قوم کے تن سے روح کھینچنے کا رہ گیا ہے وہ بھی ہو جائے گا۔اب ان کے مصرف کے کام کسی چوک میں اشارہ نصب کرنا اور اس کا افتتاح کرنا ہے۔ جس جگہ آج کل ہمیں رہنے کو چھت میسر ہے وہ قاسم کے ابا کے مشہور ِعالم شفا خانے کی بغل میں ہے۔شفا خانہ اس لیے لکھا ہے کہ کہیں قاسم کے ابا کی والدہ کا نام بھی لینا ممنوع نہ ہو۔وہاں ایک نظریہ ِپاکستان کے نام پر شاہراہ ہے وہی نظریہ ِپاکستان جو ملک دو لخت ہونے کے باوجود صحیح سلامت ہے۔شاہراہ ِنظریہ ِپاکستان قاسم کے ابو کے شفاخانے کے سامنے سے گزرتی ہے وہاں ٹریفک کا ہمہ وقت ازدحام ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی ایک یونیورسٹی ہے ایک اشارہ ہے جو کھلنے میں کافی وقت لیتا ہے۔ امر واقعہ ہے کہ دو دن قبل قاسم کے ابو کے شفاخانے کے سامنے پیچھے اور درجن کے قریب ملحقہ سڑکوں اور گلیوں میں ایسا ازدحام دیکھنے میں آیا کہ باید و شاید۔گاڑیوں کا یہ ہجوم آس پاس کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی اندر والی سڑکوں تک پھیل گیا۔سنا ہے کہ شہر سے باہر نکلنے والی راہ بھی مسدود ہو گئی۔بہت سارے یہ سب کچھ دیکھ کر ممکن ہے شہر سے نکل جانا چاہتے ہوں جیسے روزگار نہ ملنے کے باعث نوجوان ملک سے ہجرت کرنا چاہتے ہیں۔حکومتی لوگوں نے تصدیق کی تھی یعنی ادارہ شماریات والوں نے ڈاکٹرز اور ا نجینئرز جن کی تعداد سات لاکھ ہے ملک سے چلے گئے ہیں۔ اب شاید ان کی تعداد ایک ملین ہو چکی ہو۔جنہیں قانونی طریقے سے باہر جانے کا موقع نہ ملے تو وہ کشتیوں کا بھی سہارا لیتے ہیں مگر اس ازدحام سے نکلنے کا واحد ذریعہ عوامی سواری چنگچی تھی۔ وہ بھی اپنی جگہ پر جامد یا منجمد ہو چکی تھی۔کسی کو علم نہیں ہو رہا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ قاسم کے ابو کے ہسپتال کے اطراف اور گردونواح میں کیا قیامت آئی ہے کہ کھوے سے کھوا چھل رہا ہے۔کھوا شانے کو کہتے ہیں اور اس کا چھلنا ہجوم کی کثرت کو ظاہر کرتا ہے مگر چونکہ یہ لفظ بنیادی طور پر سنسکرت کا ہے اور صدیوں سے مستعمل ہے اس لیے اس کے معنی جانے بغیر اسے بے دھڑک استعمال کیا جاتا ہے بولنے والے اور سننے والے دونوں اس کا مطلب جانے بغیر اس کو سمجھ ضرور جاتے ہیں۔ اس جگہ پر کھوے سے کھوے چھلنا سیاسی اعتبار سے تو ممنوع ہے البتہ اسے جملے میںباندھا جا سکتا ہے۔ ازدحام تھا کہ مسلسل پھیلتا چلا جا رہا تھا۔راوی کہتے ہیں کہ رات گہری ہو گئی مہتاب آسمانی کنارے کو روشن کر کے زمینی کرے کو گرفتار میں لے چکا تھا مگر ٹریفک بالخصوص موٹر سائیکل رکشا جس جگہ پتھر ہوا تھا وہیں کھڑا تھا۔کسی کوہ ِندا سے بلاوا آنا تھا تو حرکت نے جنم لینا تھا۔ضرور موٹر سائیکل رکشا والے نے مڑ کر دیکھا ہو گا جو یوں بے حس و حرکت کھڑا تھا۔یا بھولے سے اس کی آنکھ نزدیکی شفاخانے کی جانب اٹھ گئی ہو گی۔آس پاس کی آبادیوں کے لوگ باگ رات ڈھلے نیند کی گود میں چلے گئے۔دم ِصبح پتہ چلا کہ نظریہ ِپاکستان والی شاہراہ پر ایک یو ٹرن کا افتتاح ہونا تھا وہ افتتاح ہوتا تو ہجوم چھٹتا۔حضراتابھی یو ٹرن کے افتتاح پر داد جاری تھی کہ بیت الغزل ارشاد کر دیا گیا۔منادی کی گئی اور وہ بھی غزنی کے سلطان آقائے ہجویری کے عین مزار پر کھڑے ہو کر کہ آن لائن دیگ کا افتتاح کر دیا گیا ہے۔البتہ اس میں پہلے آئیے پہلے پائیے کی نوید نہیں سنائی گئی۔ ٭٭٭٭٭