مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے سوال اٹھایا ہے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ترقیاتی کام ان کی جماعت کرے اور ووٹ کسی اور کو ملیں۔آصف علی زرداری بھی اسی روز بلوچستان میں تھے۔انہوں نے سرفراز بگٹی کو پارٹی میں شامل کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کو بلوچستان کی پسماندگی نظر نہیں آتی۔یہ دونوں خودکو اگلے ہائبرڈ حکومتی بندو بست کا اہم حصہ دیکھ رہے ہیں۔ اندازہ کر لیں کہ دونوں جماعتیں کئی کئی بار اقتدار میں رہنے کے باوجود ابھی تک عوام کے مطالبات پر بات نہیں کر رہیں۔یہ تجربہ کار جماعتیں اب بھی یہی سمجھتی ہیں کہ ووٹروں کی ضرورت صرف ترقیاتی کام ہیں۔وہ قانون کی بالادستی، معیشت کی بحالی، بین الاقوامی ساکھ بہتر بنانے، بد عنوانی کے خاتمہ، اچھی حکمرانی،بیروزگاری کے خاتمہ،زراعت میں ترقی ، سمندری معیشت سے فایدہ اٹھانے، سیاحت و ثقافت کو بین الاقوامی رابطہ کاری کا ذریعہ بنانے اور ٹاون پلاننگ کے متعلق کوئی پالیسی نہیں پیش کر رہیں۔ میں ایک واٹس ایپ گروپ کا ممبر ہوں، یہ ماحولیات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے مخلص اور بے لوث لوگ ہیں۔گروپ کئی تجاویز پر بات کرتا رہتا ہے جنہیں سرکاری پالیسی کا حصہ بنانے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ایک رکن ڈاکٹر سعدیہ خالد ہمیں بتارہی تھیں کہ : ہمارے پرانے گھروں کو ٹھنڈا اور ہوا دار بنانے کے لیے خاص انداز سے ڈیزائن کیا گیا تھا، اس لیے ہمیں ایئر کنڈیشنر یا کولر کی ضرورت نہیں تھی۔ غروب آفتاب کے بعد صرف ایک بلب جلانا ہوتا تھا۔جدید پانی کے نظام پر انحصار کرنے کے بجائے، ہم نے زمین سے پانی نکالنے کے لیے ہینڈ پمپ یا کنوئیں کا استعمال کیا۔ہم نے ہر قطرہ کو قیمتی بنایا اور اپنے باغات اور کھیتوں کے لیے بارش کا پانی بھی جمع کیا۔یہ سادہ زندگی ماحول کو صاف رکھتی تھی،ہمارے جنگلات ایندھن بنتے لیکن پھر اگ آتے۔جنگلی حیات کو پناہ گاہیں میسر تھیں۔یہ سب برباد اس لئے ہوا کہ کسی حکومت نے ہاتھوں سے پھسلتی ریت محسوس نہ کی۔کوئی غور کرے تو قدرتی وسائل کی تباہی اصل میں معیشت کی بنیادوں میں بارود رکھتی ہے۔ہماری معیشت جن حکومتوں کے رحم و کرم پر رہی وہ اس کی بنیادوں میں بارود بچھانے کو اقتدار کا نام دیتی ہیں۔ میں اور آپ کتنی آسانی کے ساتھ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں ادارے کو حکومتی امور میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے ،دل پر ہاتھ رکھیں اور خود سے پو چھیں کیا عمران خان معیشت کی بحالی کی بات کرتے ہوئے جنرل باجوہ کو کریڈٹ نہیں دیا کرتے تھے، کیا پی ڈی ایم حکومت میں وزیر اعظم شہباز شریف آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی مساعی کی تحسین نہیں کرتے تھے،کیا آرمی چیف اب بھی دفاع کے ساتھ ساتھ معیشت بحالی کے لئے کام نہیں کر رہے؟ ایسا اس لئے ہے کہ سیاسی قیادت کے پاس ترقی کا محدود تصور ہے۔وہ سڑکوں ، انڈر پاسوں اور کچھ ایک آدھ مزید منصوبے کو ترقی کہتے ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ ترقی کا مطلب سرکاری سرمایہ کاری پر منافع ملنا ہوتا ہے۔ بس سروس چلائیں تو آمدن ہو، سڑک بنے تو آمدن، فیکٹریاں لگیں تو بند نہ ہوں، کھیت جوتے جائیں تو کسان کو خسارے کا ڈر نہ ہو۔کوئی ہنر سیکھے تو بے روزگار نہ ہو، کوئی کتاب لکھے تو اسے نظر انداز ہونے کا گلہ نہ ہو،کوئی شجر کاری کرے تو اسے مان سمان دیا جائے۔لوگ ہسپتالوں میں علاج سے محروم نہ رہیں، ہر بچہ سکول جائے۔نئی ٹیکنالوجی فروغ پائے۔ کیا وہ سینئر سیاست دان جو ایک بار پھر ’’قوم کی خدمت‘‘ کے لئے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں انہوں نے اپنے مشیر خواتین و حضرات سے عوام کی ضروریات کی بابت پوچھا۔ کیا انہوں نے کبھی سوچا کہ مسلح افواج کے سربراہان ان کو معاشی بحالی کے منصوبوں میں بھرپور تعاون کیوں فراہم کرتے ہیں؟ وزیر اعظم اور آرمی چیف سپیشل فیسلی ٹیشن کونسل کی اپیکس کمیٹی کے ممبر ہیں۔اپیکس کمیٹی نے سپیشل انوسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل کی عالمی سطح تک رسائی کی حکمت عملی اور دوست ممالک کے ساتھ جاری رابطوںکو سراہا ہے جس میں مملکت سعودی عرب اور اسلامک آرگنائزیشن فار فوڈ سیکیورٹی کے اعلیٰ سطحی وفود کے نتیجہ خیز دورے شامل ہیں۔رواں ماہ میں سعودی عرب کا ایک وفد کان کنی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے کے لیے پاکستان پہنچا، یہ لوگ پاکستان کے 6 کھرب ڈالر کے معدنی ذخائر سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ۔ سعودی وفد نے اسلام آباد میں معدنیات سے متعلق پاکستان کی پہلی سرشار سربراہی کانفرنس میں شرکت کی، جس کا اہتمام SIFC کی چھتری تلے کیا گیا تھا۔ رواں سال جولائی میں، پاکستان نے زرعی شعبے کو جدید بنانے کے لیے ایک لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم، سینٹر آف ایکسیلنس (LIMS-CoE) قائم کیا، سعودی عرب نے اس سہولت کے قیام کے لیے ابتدائی 500 ملین ڈالرکی سرمایہ کاری فراہم کی۔سعودی عرب اور دیگر دوستوں کی جانب سے جاری اقتصادی اور سرمایہ کاری پاکستان کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے، نگران حکومت کے لئے اقتصادی استحکام ایک بڑا چیلنج ہے، 350 ارب ڈالر کی قومی معیشت 3 ارب ڈالر کی بین الاقوامی مالیاتی امداد کے بعد بحالی کے ایک تنگ راستے پر گامزن ہے۔ بیل آؤٹ فنڈ نے خودمختار قرضوں کے ڈیفالٹ کو ٹال دیا۔ سابق حکومتوں کی نمائشی اقتصادی اصلاحات نے پہلے ہی تاریخی افراط زر اور شرح سود کو ہوا دی ہے۔یہ وہ چند اقدامات ہیں جو معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے کئے گئے۔سوال تو یہ بھی بنتا ہے یہ کام تین تین بار کے اقتدار میں کیوں نہ ہوئے اور کیا تجربہ کار قیادت ایک بار پھر اقتدار میں آکر موجودہ اقدامات کو اسی خلوص سے جاری رہنے دی گی؟ دوبئی میں پاکستان کے قونصل جنرل اس وقت حیران رہ گئے جب میں نے انہیں بتایا کہ یو اے ای پاکستانی پھولوں کی سب سے بڑی منڈی بن سکتا ہے۔دو دن پہلے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے چارہ برآمد کرنے کی منظوری دی ہے۔سات آٹھ ماہ میں لاہور بھر میں ترقیاتی منصوبے مکمل ہو گئے ہیں۔ترقیاتی کام تو ہو گئے ،اگلی حکومت کو اب کچھ اور کرنا ہوگا۔مگر وہ کیا کرے گی؟