صاحب عرفان بزرگ اور ممتاز روحانی سکالر قبلہ سرفراز شاہ صاحب کے تصوف اور روحانیت پر افکار کے حوالے سے گفتگو کا سلسلہ میرے کالم میں چل رہا ہے۔ اس کی دو پچھلی نشستوں میں تصوف پر ہونے والے اعتراضات کا مدلل جواب اور حقیقی تصوف کو واضح کیا تھا۔ سرفراز شاہ صاحب کا کما ل ہی یہ ہے کہ انہوں نے مشکل ، ادق اور بھاری بھرکم اصطلاحات کے بجائے آسان اور عام فہم زبان میں اہم مسائل سمجھائے اور الجھنیں سلجھا دی ہیں۔ ان کی کتب تصوف اور روحانیت کو سمجھنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ شاہ صاحب کہتے ہیں: ’’ اکثر یہ سوال ہوتا ہے کہ روحانیت سے کیا مراد لینا چاہیے ۔ دراصل جیسے ہی ہمارے ذہن میں روحانیت کا لفظ آتا ہے ہم اسے غیر مرئی چیزوں سے متعلق سمجھ لیتے ہیں۔ حالانکہ نام ہی سے ظاہر ہے کہ اس کا تعلق انسانی روح سے ہے۔ انسان کے باطن سے ہے۔ انسان کا جو اِنر سلف ہے اس کو ریفائن کرنے سے ہے۔ انسان کا جو اِنرسلف ہے اس کو پیوریفائی کرنے کا نام روحانیت حاصل کرنا ہے۔ ’’روحانیت میں آپ کرتے کیا ہیں؟ کچھ بھی نہیں ۔یہ جتنے ذکر اذکاراور مجاہدے، چِلے ہوتے ہیں یہ صرف یہ اپنی سوچ کو پوزیٹیو کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ ایک فقیر ساری عمر محنت کرتا ہے کہ میں کسی کی غیبت نہ کروں۔ ساری عمر ریاضت کرتا ہے کہ میں کسی کے عیبوں کو بیان نہ کروں بلکہ اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ فقیر ساری عمر مجاہدہ کرتا ہے کہ کسی کے مال پر کسی کی جیب پر بری نظر نہ ڈالوں۔ فقیر رب کے ساتھ قربت کا تعلق جوڑتا ہے اس لیے کہ غیر اللہ کے ساتھ کوئی امید وابستہ نہ ہوجائے۔ یہ سب مثبت سوچ ہے، اس میں کہیں کوئی منفی پہلو نہیں ہے۔ جب آپ کی سوچ نیک ہوجاے گی ،باطن نیک ہوجاے گا اور اس کو آپ عبادت کے ساتھ جوڑ دیں ،عبادت سے پارسائی حاصل ہوتی ہے۔ عبادت پارسائی اور نیکی ان تینوں چیزوں کو جب آپ بلینڈ کر دیں تو اس کے نتیجے میں آپ کو علم حاصل ہوگا۔ اور اس علم کے نتیجے میں آپ کو دانش، عقل یعنی فراست حاصل ہوگی۔ ’’ اس فراست کے تحت جو قدم اٹھایا جاے گا وہ دوسروں سے سپریئیر اوران کے لیے حیرت کا باعث ہوگا۔ ایک چھوٹی سی مثال آپ کو دوں۔ فوج میں ایک افسر گزرے ہیں طارق محمود، ٹی ایم کے نام سے مشہور تھے۔ وہ جہاں بھی جاتے تھے ،گوریلا آپریشن وغیرہ کے لئے، ان کے ساتھی جو ان کے ساتھ جاتے، ان سب نے ایک بات کی ہے کہ یہ اپنا کام کرتے کرتے اچانک کہتے کہ بس اب اس سے آگے نہیں جانا۔ بعد میں جب انفارمیشن آتی تو پتہ چلتا کہ واقعی خطرہ تھا۔ وہ کوئی ولی اللہ نہیں تھے، میری طرح عام انسان تھے۔ اب یہ صلاحیت چھٹی حس بھی ہو سکتی ہے، لوگ سکس سینس کو تو مانتے ہیں لیکن اس صلاحیت کو بدعت کہہ دیتے ہیں۔ ’ ’یہاں یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ ’’چھٹی حس‘‘ کا لوگ مالی یامادی فائدہ بھی تو اٹھاتے ہیں۔اس کا جواب آسان ہے۔ پاکستان میں جمہوریت بہت اچھے طریقے سے نہیں چل پا رہی ۔ جو لوگ اسے چلا رہے ہیں، ہم ان کو برا کہیں گے یا یہ کہ جمہوریت ٹھیک نہیں ہے۔ چاقو سے رہزنی بھی ہوتی ہے اور سرجری بھی۔ تو یہ تو نہیں کہا جا سکتا نا کہ چاقو بنانا بند کر دوکہ راہ زن استعمال کرتا ہے۔ساری دنیا میں ہومیو پیتھی طریقہ علاج فروغ پا رہا ہے لیکن پاکستان میں اس کے برعکس ہے۔ وجہ کیا ہے ،جس کو دیکھو ہومیو پیتھک کی پانچ سات کتابیں پڑھی اور دوا دینے بیٹھ گئے ۔نتیجہ کیا ہوا طریقہ علاج بدنام ہوگیا۔ اسی طرح اس راہ کو جن لوگوں نے استعمال کیا اس کے نتیجے میں یہ راہ بدنام ہو گئی۔ سنت یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نہ جائداد بنائی نہ کچھ جمع کیا لیکن اسی راہ میں آپ کو ایسے بڑَے بڑے نام مل جائیں گے کہ ہزاروں ایکڑ زمین ہے، بڑے بڑے گھر ہیں، نوکر چاکر ہیں، بدنام تو ہونا ہے اس راہ نے۔ بابا فرید کا ایک قول ہے جو جمع کرتا ہے وہ فقیر نہیں حریص ہے۔ اب یہ ایک فقیر کا قول ہے جو فقر کی راہ پر چلا ہے ۔وہ راہ جس پر ہم تنقید کر رہے ہیں، یہ اس پر چلنے والے ایک نمایاں آدمی کے الفاظ ہیں۔ اسی طرح حضرت زکریا ملتانیؒ ہیں کہ جب اعتراض کیا گیا کہ آپ نے بہت مال جمع کر رکھا ہے تو فرمایا کہ اس کو دل میں جگہ نہیں دی ہے۔جب خلق خدا پر مشکل وقت آیا تو سب ضرورت مندوں میں تقسیم کردیا۔ تو وہی بات ہے کہ انسان کمائے، اپنی ذات پر کم سے کم خرچ کرے اور جو بچ رہے اللہ کے بندوں کی اس سے خدمت کرے۔ ’’ ایک اور سوال جو بہت بار پوچھا جاتا ہے کہ عام آدمی کیسے پہچانے گا کہ فلاں صاحب علم ہے اور نیک ہے ؟بہت سادہ بات ہے جو آدمی صاحب علم ہے نہ وہ اپنی کرامات آپ کو دکھاتا ہے نہ آپ کو یہ بتاتا ہے کہ میں کس مقام پر فائز ہے۔وہ اپنے آپ کو ولی اللہ نہیں کہے گا۔ وہ آپ سے صرف بحیثیت انسان ملتا ہے اور آپ سے بی ہیو ایسے کرتا ہے جیسے آپ سے وہ کمتر ہے۔ آپ کی خدمت کرتا ہے ۔آپ اس سے کہیں کہ آپ کے بارے میں سنا ہے آپ ولی اللہ ہیں، تو کہے گا یہ تہمت مجھ پر کیوں لگا رہے ہیں ، میں تونیک انسان تک نہیں ہوں ولی اللہ کہاں سے آ گیا۔ اس میں دعوی نہیں ہوگا، دکھاوا نہیں ہوگا۔ وہ معاوضہ نہیں لیتا لیکن تحفے تحائف قبول کر سکتا ہے لیکن جب اٹھے گا تو دامن جھاڑ کر اٹھے گا۔ کیونکہ ہدیہ قبول کرنا اور اس کے بعد جھولی جھاڑ کر اٹھنا سنت ہے۔ تصوف اور روحانیت پر جس قدر گفتگو کر لی جائے، آخر میں وظائف پر لازمی بات ہوتی ہے، ہر کوئی اپنے مختلف مسائل کے حل کے لئے یا روحانی ترقی کے لئے اوراد ووظائف پوچھتا ہے۔ شاہ صاحب اس حوالے سے کہتے ہیں :’’ ہمارا ایک مادی جسم ہے جو دکھائی دیتا ہے۔ ایسا ہی جسم اوپر آسمان پر موجود ہے جسے آپ روح کہہ لیں۔ یہی دراصل جسم مثالی ہے۔ جب ہم ایسی عبادت کرتے ہیں جو ہمارے جسم کے Controlling wordسے مطابقت رکھتی ہو تو اس سے ہماری روح پروان چڑھتی ہے اور ہمارے مثالی جسم کی پرورش ہوتی ہے۔ لیکن جب ہم ایسی عبادت کرتے ہیں جو ہمارے جسم کے Controlling wordسے مطابقت نہیں رکھتی تو جسم مثالی کمزور ہونے لگتا ہے۔ ’’اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وظائف ہمیشہ کسی صاحب علم سے پوچھ کر کرنے چاہئیں ۔ ایک فیشن چل پڑا ہے کہ جہاں کہیں کسی کتاب یا رسالہ میں کوئی وظیفہ دیکھا، بغیر کسی رہنمائی کے شروع کردیا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعض اوقات اس سے فائدہ کی بجائے نقصان ہونے لگتا ہے کیونکہ عام آدمی کو معلوم نہیں ہوتا کہ کون سی تسبیح ، وظیفہ یا ورد اس کی روح سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے لوگ ہمہ وقت وظائف اور تسبیحات میں مشغول رہنے کے باوجود پریشان اور بے سکون نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ ان تسبیحات ، وظائف کا ان کی روح سے مطابق نہ ہونا ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسے ہے جیسے ایک شخص کو کھڑا کرکے اس کی دونوں ٹانگیں اور بازو باندھ دیئے جائیں اور گھوڑوں سے باندھ کر مخالف سمتوں میں ان کو دوڑایا جائے۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس شخص کا جسم ٹکڑوں میں تبدیل ہوجائے گا۔‘‘